• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
شہرِ اقبال کا ’’سیال کوٹ ٹی ہاؤس‘‘
ٹی ہاؤس کی افتتاحی تقریب کا منظر، مضمون نگار بھی موجود ہیں

دنیا میں بے شمار مُلک اور مُلکوں میں اَن گنت شہر ہیں۔ اپنے مُلک میں تو سب ہی شہر جانے پہچانے ہیں، مگر کچھ شہر علمی، سیاسی، ادبی اور ثقافتی پس منظر یا کسی بڑی شخصیت کے توسّط پورے عالم میں معروف ہو جاتے ہیں۔ سیال کوٹ بھی ایسے ہی شہروں میں سے ایک ہے، جس کی جغرافیائی حیثیت، زرخیز زمین اور صنعتی اہمیت اپنی جگہ اہم اور مسلّم ہے، مگر علّامہ محمّد اقبال کا نام، اس شہر کے ماتھے کا جھومر اور اس کی نام وَری کی سب سے بڑی سند ہے۔ جب اور جہاں، سیال کوٹ کا تذکرہ ہوتا ہے، تصوّر میں اقبال کی شبیہہ ضرور اُبھرتی ہے اور سماعتوں میں قومی جوش، جذبے، حریّت، عظمتِ انسان، وجدان اور گیان سے مالا مال شاعری رَس گھولنے لگتی ہے۔ اقبال کا کلام اپنی آفاقیت، وسعت پذیری اور انسانی جدوجہد کے سبب صرف برصغیر تک محدود نہیں، بلکہ دنیا کے ہر کونے تک رسائی رکھتا ہے۔ فارسی میں تو خود اُنہوں نے ایسا اعلیٰ کلام لکھا کہ فارسی زبان کے ماہرین آج تک حیران ہیں، مگر جہاں اُردو اور فارسی کی تفہیم نہیں، وہاں بھی اُن کے کلام کے تراجم ہوئے، اُن پر تحقیقی کام کیا گیا اور اُن کی علمی، ادبی وفکری صلاحیتوں اور شعری حُسن کو خراجِ عقیدت پیش کیا گیا۔

گو کہ ایک دنیا اقبال کو’’ اقبال لاہوری‘‘ کہتی ہے، مگر اقبال ،لاہور اور سیال کوٹ دونوں سے جُڑت رکھتے ہیں۔ کہتے ہیں، انسان جس علاقے میں جنم لیتا ہے وہاں کی مٹّی، آب و ہوا اور موسم کی تاثیر اُس کے بدن اور مزاج میں رَچ بس جاتی ہے۔ وہ بھلے کہیں بھی چلا جائے، وہ مٹّی، وہ خوش بُو، وہ احساسات اُس کے ساتھ ساتھ رہتے ہیں۔ سیال کوٹ کو’’ شہرِ اقبال‘‘ کہا جاتا ہے، کیوں کہ اس شہر میں اقبال کا جنم ہوا یعنی یہاں کی فضائوں سے اُن کا اوّلین رابطہ ہوا۔ عالمِ ارواح سے اِس دنیا تک کے سفر میں یہ شہر اُن کا ٹھکانہ بنا۔ وہ گھر ابھی تک وہاں موجود ہے، جس نے اقبال کو اپنی گود میں جگمگاتے اور کھِلکھلاتے دیکھا۔ وہ راستے، وہ بازار اور کچھ آنکھیں بھی ہیں، جنہیں اُن کی صُورت دیکھنے کا موقع ملا، اُن کی صحبت میّسر ہوئی اور اُن سے بات کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ اقبال سے اپنی جُڑت پر سیال کوٹ ہمیشہ ناز کرتا ہے، کیوں کہ یہ ایک ایسا تاج ہے، جو قدرت نے اس سرزمین کو عنایت کیا ہے۔ لوگ لاشعوری اور ارادی طور پر اقبال سے نہ صرف محبّت کرتے ہیں، بلکہ اُن کے راستے پر چلنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔

اقبال نے اپنی زندگی کا زیادہ عرصہ لاہور میں گزارا اور اسی شہر میں اُن کی آخری آرام گاہ بھی ہے۔ یوں اقبال سیال کوٹ اور لاہور دونوں شہروں کے لیے باعثِ فخر ہیں۔ ایک میں اُنہوں نے آنکھ کھولی اور دوسرے میں بند کر لی۔ مٹّی کی کشش اور تاثیر تمام عُمر اُن کی شاعری میں گونجتی رہی۔ مٹّی اپنا حق مانگتی ہے، سو عرصے بعد اس علاقے کی مٹّی کی سُنی گئی، جس کے ذرّے ذرّے میں علم اور ادب کی محبّت دھڑک رہی ہے۔ جس شہرِ لاہور نے اقبال کو پوری دنیا میں معروف کیا، وہاں کا پاک ٹی ہائوس بھی تاریخی حیثیت کا حامل ہے، اس لیے ضروری تھا کہ سیال کوٹ جیسی ادب نواز سرزمین پر بھی کوئی اس قسم کا گوشہ وقف کیا جائے، جو ادبی سرگرمیوں کے لیے مرکز کی حیثیت اختیار کر سکے۔ تو بالآخر سیال کوٹ کو ایک ایسا ادبی ذوق رکھنے والا ڈی سی مل ہی گیا، جو لگے بندھے راستے پر چلنے کی بجائے، قوانین کے دائرے میں رہتے ہوئے نئی راہوں کی جُستجو کرتا ہے، نئے منظر تلاش کرتا ہے اور ممکنات کے حصول کے لیے خواب سے تعبیر کا سفر کرتا ہے۔ سیّد بلال حیدر کی آمد ادبی حلقوں کے لیے تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوئی ہے، کیوں کہ ادبی اکٹھ اور تنقیدی نشستوں کے لیے کوئی مناسب جگہ نہ ہونے کی وجہ سے اہلِ علم و ادب کو پریشانی کا سامنا تھا۔ ان تمام وجوہ کو مدّ ِنظر رکھتے ہوئے شاعری کے عالمی دن کے موقعے پر سیال کوٹ کے مرکز یعنی دل میں واقع،’’ انوار کلب‘‘ میں سیال کوٹ ٹی ہائوس کا باقاعدہ قیام عمل میں لایا گیا، جس کی بڑی دیر سے ضرورت محسوس کی جا رہی تھی۔ درحقیقت ایسے ہی ادارے شہروں کا افتخار ہوتے ہیں۔ اس موقعے پر معروف کالم نگار ہارون الرشید، منصور آفاق، فرحت عبّاس شاہ اور راقم الحروف کے علاوہ نام وَر شعراء، کالم نگاروں اور شہر کی علمی و ادبی شخصیات نے بھرپور شرکت کر کے اپنی خوشی کا اظہار کیا۔

یہ ایک ہال نہیں ، ادبی، علمی ، فکری تحریک اور تاریخ کا آغاز ہے۔ پاک ٹی ہائوس طرز کے مقامات پر ایک ایسی بیٹھک ہوتی ہے، جس کے دروازے سب کے لیے کُھلے ہوتے ہیں، جس میں داخلے کے لیے اجازت طلب نہیں کرنی پڑتی، جہاں ہفتہ وار تنقیدی اور تخلیقی مجالسں منعقد ہوتی ہیں، جن میں پروگرامز منعقد کرنے کے لیے زیادہ اخراجات کی ضرورت بھی نہیں ہوتی۔ تقریبات کے علاوہ، یہ ایک مل بیٹھنے کی محفل زیادہ ہوتی ہے۔ایک ایسا پلیٹ فارم، جو لوگوں کے درمیان رابطے کا ذریعہ بنتا ہے۔ لوگ مکالمے کے ذریعے ادبی اور عصری معاملات کا حل تجویز کرتے ہیں اور وہیں کہیں بیٹھے ہوئے نوجوان اور طالبِ علم، اس گفتگو سے اپنے لیے راہِ عمل متعیّن کرنے میں کام یاب ہوتے ہیں۔ بلاشبہ یہ ایک بڑا آغاز ہے، جس کے دُور رَس نتائج مرتّب ہوں گے۔ اُن لوگوں پر اللہ کا کرم ہوتا ہے، جو زندگی میں کچھ نیا اور معتبر کام کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ وہ کام، جو فلاحِ عامّہ سے جڑا ہوتا ہے، روشن چراغ کی مانند ہوتا ہے اور یہ پاک ٹی ہائوس بھی ایک چراغ کی طرح ہے، جس کی روشنی لوگوں کو اپنی جانب کھینچے گی۔ ایک خُوش بُو کی طرح ہے، جو ذہنوں میں پنپنے والی سوچ کو معطّر کرے گی اور کثافت کو لطافت میں بدلنے کا باعث بنے گی۔ ہمیں اُمید ہے کہ سیّد بلال حیدر کی یہ خُوب صورت کاوش سیال کوٹ کے ادبی اُفق کو مزید تاب ناک بنائے گی۔ یہ پاک ٹی ہائوس نئے لکھنے والوں کو ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کرے گا، جس سے اُنہیں اپنی شخصیت میں پنہاں جوہر تلاش کرنے اور اُن کو نکھارنے کا موقع میّسر آئے گا۔ 

تازہ ترین