پشاور میں پاک فوج اور پولیس کا دہشت گردوں کے خلاف سترہ گھنٹے تک جاری رہنے والا مشترکہ آپریشن نہایت اہم کامیابی ہے۔ مذکورہ کارروائی کی اہمیت ان اطلاعات کے تناظرمیں مزید بڑھ جاتی ہے کہ دہشت گردوں کے پاس 60کلو بارودی مواد بھی تھا جسے کسی بھی اہم شخصیت یا مقام کو نشانہ بنانے کیلئے خود کش حملے میں استعمال کیا جانا تھا لیکن ہماری فورسز کے بروقت آپریشن نے کسی نئے سانحے کو رونما ہونے سے بچا لیا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق پیر کی شب سیکورٹی اداروں نے خفیہ اطلاع پر حیات آباد فیز ٹو کے ایک مکان پر چھاپہ مارا۔ دونوں اطراف سےشدید فائرنگ کا تبادلہ ہوا جس میں پانچ دہشت گرد ہلاک، ایک اہلکار شہید اور دو زخمی ہوگئے۔ مارے جانے والے دہشت گردوں میں تحریک طالبان کا کمانڈر امجد اور اکیس سالہ افغان خود کش بمبار بھی تھا جسے بارود سے بھری موٹر سائیکل کے ذریعے بم دھماکہ کرنے کا ٹاسک دیا گیا تھا جبکہ کارروائی کے دوران خودکش جیکٹس اور موٹر سائیکل بھی برآمد کر لی گئیں۔ دہشت گردوں کے پاس اس قدر بارودی مواد تھا کہ جسے ناکارہ بنانے کے دوران زوردار دھماکے سے عمارت مکمل منہدم ہوگئی۔ بتایا گیا ہے کہ مذکورہ عمارت کا مالک بیرونِ ملک مقیم ہے اور ایک ماہ قبل اسے کرائے پر دیا گیا۔ گزشتہ دو دہائیوں سے وطنِ عزیز دہشت گردی کے ناسور کے خاتمے کیلئے مصروفِ عمل ہے جس میں ایک جانب ہمارے سیکورٹی اہلکاروں سمیت ہزاروں شہری اپنی جان و مال کی قربانیا ں دے چکے ہیں تو دوسری طرف سیکورٹی اداروں کی جانب سے ضربِ عضب اور اب ردالفساد آپریشن کے نتیجے میں ملک بھر میں بڑی حد تک دہشت گردوں کی کمر ٹوٹ گئی ہے۔ اس کے باوجود تخریب کار عناصر اپنی بچی کھچی طاقت مجتمع کرتے ہوئے بزدلانہ کارروائیاں وقفے وقفے سے کرتے رہتے ہیں۔ کوئٹہ ہزار گنجی کا حالیہ افسوسناک اور دلدوز سانحہ بھی ایسی ہی ایک مثال تھا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حالیہ پشاور آپریشن میں اپنائی گئی حکمت عملی اور موثر انٹیلی جنس کے طریقِ کار کو مستقبل میں بھی پیشِ نظر رکھا جائے، اسی طرح دہشت گردی کا مکمل خاتمہ ممکن ہے۔