تفہیم المسائل
مسجد کی تعمیرِ نو
سوال:۔ ہمارے محلّے کی مسجد 480گز پر بنی ہے ،مسجد پرانی اور بوسیدہ ہوگئی ہے اور آبادی بڑھنے کے سبب جگہ کم پڑ رہی ہے ، اوپر مزید تعمیر نہیں ہوسکتی کہ معلوم نہیں بنیادیں کتنی مضبوط ہیں ۔انتظامیہ مسجد ،علاقہ مکین اور نمازیوں کا ارادہ ہے کہ مسجد مکمل شہید کرکے دوبارہ تعمیر کی جائے۔ کیا مسجد مکمل شہید کرکے دوبارہ تعمیر کی جاسکتی ہے اور پہلے کی تعمیر کرنے والے حضرات کے ثواب کا کیاحکم ہے ؟مسجد کے پرانے سامان کاکیاحکم ہے ؟،(انتظامیہ جامع مسجد بیت المکرم ،اورنگی ٹاون، کراچی )
جواب:۔ اگر طویل عرصہ گزرنے کی وجہ سے مسجد بوسیدہ ہوجائے یا نمازیوں کے لیے جگہ تنگ ہوجائے اور اُس کو اَزسرِ نو تعمیرکرنے کی ضرورت محسوس کی جارہی ہو ، تو اُسے شہید کرکے تعمیرِ نو جائز ہے، لیکن نیچے سے اوپر تک اُس کی مسجد کی حیثیت ہی بحال رکھی جائے گی۔اگراَہلِ محلہ اپنے پیسے سے مسجد دوبارہ تعمیر کرانا چاہتے ہیں ،تو کراسکتے ہیں ، وقف کی رقم سے صرف نہیں کرسکتے ۔تنویر الابصار مع الدرالمختار میں ہے : ترجمہ:’’ اہلِ محلہ یہ چاہتے ہوں کہ مسجد کو گراکر پہلے سے زیادہ عمدہ ومستحکم بنائیں اگر وہ اسی محلے سے ہوں تو ایساکرسکتے ہیں ورنہ نہیں ،’’بزازیہ‘‘،(حاشیہ ابن عابدین شامی ، جلد13، ص:431-32)‘‘۔
علامہ نظام الدین رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ ’’کُبریٰ ‘‘ میں ہے : ایک مسجد بنی ہوئی ہے ،پھرکسی شخص نے اسے توڑ کر نئی مضبوط مسجد تعمیر کرنے کا ارادہ کیا ،تو وہ ایسانہیں کرسکتا ،اس لیے کہ اسے ولایت حاصل نہیں ہے،یہ ’’مُضمرات‘‘ میں ہے۔’’نوازل‘‘ میں ہے کہ اگر مسجد منہدم ہوجانے کا خوف ہو تو کرسکتاہے ،جیساکہ ’’تتارخانیہ ‘‘ میں ہے ،اس مسئلے کی تاویل یہ ہے کہ یہ حکم اس وقت ہے جب بنانے والا اس محلے کا نہ ہو ۔ محلے والوں کو اختیار ہے کہ وہ مسجد کو گراکر اُس کی جدید تعمیر کرائیں ،اُس میں فرش بچھائیں ،قندیل لٹکائیں ،لیکن یہ سب اپنے ذاتی مال سے کریں ، مسجد کے مال سے ایساکرنا چاہیں تو انہیں اختیار نہیں مگرجبکہ قاضی /حاکم انہیں اس کی اجازت دیدے ،جیساکہ ’’خلاصہ ‘‘ میں ہے ،(فتاویٰ عالمگیری ،جلد 2،ص:457)‘‘۔
پرانی مسجد کے تعمیر کرانے والوں کے اجر وثواب میں کمی واقع نہیںہوگی ،اللہ تعالیٰ بے حساب اجرعطافرمانے پر قادرہے ،اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:ترجمہ:’’ جو لوگ اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ،ان کی مثال اس دانے کی طرح ہے ،جس نے سات بالیں اگائیں ،ہر بالی میں سو دانے ہیں اور جس کے لیے چاہے ،اللہ بڑھادیتاہے اور اللہ بڑی وسعت والا بہت علم والاہے ،(البقرہ:261)‘‘۔
ہمارے قدیم فقہائے کرام کی عبارات اس پر مبنی ہیں کہ قُرونِ اُولیٰ ووسطیٰ میں بالعموم افراد مسجد کے لیے اپنی ملکیتی زمین وقف کرتے تھے اور بعض صورتوں میں تعمیر بھی خود کرتے تھے اور اس کو چلانے کے لیے وقف بھی قائم کرتے تھے۔آج کل خاص طورپر بڑے شہروں میں اہلِ محلہ میں سے چند افراد مل کر انجمن یا ٹرسٹ بناتے ہیں اور پھر عام چندے سے یہ کام کرتے ہیں ،وقت گزرنے کے ساتھ انجمن یاٹرسٹ کے ذمے داران بدلتے رہتے ہیں، لہٰذا تغیروتبدّل یا انہدام و تعمیرِ نویا توسیع و تزئین وتحسین کے حوالے سے انہیں یہ حق حاصل ہے ، چندہ دینے والے بھی ان تمام امور کو دیکھ کر چندہ دیتے ہیں ،سو یہ ان کی رضامندی کی دلیل ہے۔ مسجد کی تعمیرِ نو کی صورت میں بانی یا پہلے عمارت کے تعمیر کنندگان کو اجر ملتارہے گا ،کیونکہ ان کا فعل تعمیر نو یا مرمت یا توسیع کے لیے دالّ اور محرک ہے اور رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے : ترجمہ:’’ نیکی کی راہ دکھانے والا نیکی کرنے والے کی طرح ہے (یعنی دونوں عنداللہ ماجورہیں)،(سُنن ترمذی:2670)‘‘۔کسی بھی مسجد کی بنائے اوّل یا موجودہ عمارت کے لیے کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ یہ عمارت قیامت تک قائم رہے گی ،حادثات وآفات بعید ازامکان نہیں ہیں ، طویل مدت گزر نے کے بعدعمارتیں بوسیدہ بھی ہوجاتی ہیں اوران کا اس حال پر قائم رکھنا خطرناک ہوجاتاہے ،پس تعمیرِنو، مرمت ، تغیروتبدُّل اور توسیع کے سلسلے چلتے رہیں گے ۔لہٰذا آپ اپنی مسجد کو منہدم کرکے تعمیرِ نو کرسکتے ہیں ، پرانے سامان کے استعمال کی چار صورتیں ہیں : (۱) اگر نئی تعمیر شدہ مسجد میں استعمال ہوسکتا ہو تو ترجیح اول ہے ،(۲)اگر فروخت ہوسکتا ہے ،تو فروخت کرکے اس کی قیمت نئی تعمیر میں لگائیں ،(۳) اگریہ دونوں صورتیں قابلِ عمل نہیں ہیں اورکسی دوسری مسجد میں ضرورت ہوتو وہاں دیدیں ،(۴) اُسے مباح کردیں ،جس کے کام آسکتا ہو کام میں لے لے ، ورنہ ٹھکانے لگادیں ۔