• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

غیر قانونی بھرتیاں: بنک آف خیبر شدید مالی بحران کا شکار

2013سے خیبرپختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت چلی آرہی ہے جس نے صوبے میں کسی بھی سیاسی جماعت کی جانب سے دوسری مرتبہ حکومت قائم کرنے کا ایک نیا ریکارڈ قائم کیا حالانکہ اپوزیشن تحریک انصاف کے دوسرے بھاری مینڈیٹ کو جعلی قرار دیتی ہے۔ اپوزیشن کے بقول 2018 کے انتخابات میں سلیکشن کے ذریعے عوامی مینڈیٹ چرایا گیا۔ تحریک انصاف نے دوبارہ برسر اقتدار آکر صوبے کے وزیر اعلیٰ کے لئے محمود خان کا انتخاب کرکے سب کو حیران کر دیا کیونکہ محمود خان وزارت اعلی کی دوڑ میں شامل ہی نہیں تھے۔ محمود خان پڑھے لکھے، سلجھے ہوئے اور تعلیم یافتہ سیاستدان ہیں جنہوں نے 2000 میں سیاست کا آغاز بلدیاتی اداروں سے کیا اور پھر 2013میں انتخابات کے بعد کامیاب ہو کر وزیر کھیل و ثقافت بنے۔ دوسری مرتبہ کامیابی کے بعد وزات اعلی کے لئے کئی امیدوار تھے لیکن عمران خان نے محمود خان کو صوبائی حکومت کا کپتان مقرر کیا، ناقدین کا خیال ہے کہ محمود خان بھی عثمان بزدار کی طرح 12 ویں کھلاڑی ہیں چیف سلیکشن کمیٹی نے غلطی سے ٹیم کپتان بنا دیا ہے لیکن اس امر میں کوئی شک نہیں کہ محمود خان سادہ اور نفیس انسان ضرور ہیں لیکن وہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نہیں ہیں صوبے میں غیر منتخب افراد کی مداخلت، مرکزی قائدین کی رخنہ اندازی، وفاقی اور صوبائی بیورو کریٹس کی من مانیوں کے باوجود اب تک وہ محاذ پر ڈٹے ہوئے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اپنا کام جاری رکھیں گے۔ انہوں نے واضح انداز میں عمران خان کو بتایا ہے کہ وہ صرف اپنے کپتان کی بات سنیں گے لیکن کسی وزیر، مشیر یا افسر کی بلیک میلنگ میں نہیں آئیں گے اسی بنا پر انہوں نے بی آر ٹی منصوبے میں تاخیر پر سیکرٹری ٹرانسپورٹ اور ڈی جی پی ڈی اے کو تبدیل کیا جس پر صوبائی وزیر بلدیات نے شدید ناراضگی کا بھی اظہار کیا لیکن انہوں نے شہرام خان کو واضح پیغام دیا کہ وہ حکومتی کارکردگی میں رکاوٹ برداشت نہیں کریں گے۔ وزیر اعلیٰ محمود خان نے دانائی کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے فیصلہ پر عمران خان کو اعتماد میں لیا تاکہ کوئی مشکل پیش نہ آسکے۔ صوبائی وزراء شہرام خان اور عاطف خان نے عمران خان سے ملاقات کر کے انہیں وزیر اعلیٰ کی اپنے محکموں میں مداخلت کی کہانی سنائی لیکن محمود خان انھیں پہلے ہی اعتماد میں لے چکے تھے لہذا عمران نے انہیں ٹال دیا اور دونوں وزراء کو وزیراعلیٰ کے ساتھ مکمل تعاون کی ہدایت کی۔ دوسری جانب خیبرپختونخوا میں گورنر شاہ فرمان کو مضبوط شخصیت تصور کیا جاتا ہے کیونکہ وہ عمران خان کے انتہائی قریبی رفیق ہیں اور ان کی بات کو اہمیت دی جاتی ہے۔ صوبائی معاملات پر گورنر اور وزیراعلی کے درمیان اچھی ورکنگ ریلیشن شپ قائم ہے اور دونوں مشاورت کے ساتھ سازشوں کا بھی مقابلہ کر رہے ہیں لیکن چند روز قبل عمران خان نے افتخار درانی کو خیبرپختونخوا میں میڈیا مینجمنٹ کے لئے پشاور بھجوایا لیکن درانی صاحب نے میڈیا مینجمنٹ کی بجائے حکومت کی مینجمنٹ شروع کر رکھی ہے۔ موصوف سائے کی طرح گورنر اور وزیر اعلی کے ساتھ رہتے ہیں اور شاید ہی کسی حکومتی اجلاس کو مس کرتے ہیں بلکہ اپنی سوشل میڈیا ٹیم کے ساتھ گورنر ہائوس اور وزیر اعلی ہائوس میں براجماں رہتے ہیں۔ اجمل وزیر بھی وزیر اعلی کے ساتھ ساتھ ہوتے ہیں جنھیں خصوصی طور پر بھجوایا گیا ہے تاکہ وہ معاملات پر گہری نظر رکھ سکیں۔بقول عمران خان اگر محمود خان بہترین کپتان اور ان کو اپنی ٹیم میں ردو بدل کا بھی اختیار ہے تو پھر غیر منتخب افراد کو حکومت پر مسلط کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی۔اس امر میں کوئی شک نہیں کہ محمود خان حکومت نے ابھی تک کوئی قابل ذکر کارنامہ سرانجام نہیں دیا جس پر انھیں داد دی جاسکے لیکن موجودہ خیبر پختونخوا حکومت کے حوالے سے کوئی بڑا سیکنڈل ابھی تک منظر عام پر نہیں آیا لیکن بی آر ٹی حکومت کے لئے درد سر بن چکی ہے جس پر عملاً کام بند ہو چکا ہے کنٹریکٹ کے ساڑھے تین ارب روپے کے بقایاجات ہیں جن کی عدم ادائیگی کے باعث ورکرز کو تنخواہیں نہیں مل رہی۔ پرویز خٹک دور کے میگا سیکنڈل ابھی تک زیر تفتیش ہیں جن پر کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا نیب ایک جانب دعویٰ کرتا ہے کہ انکوائری اور تفتیش مکمل کر لی ہے لیکن دوسری جانب ابھی تک مالم جبہ، بلین ٹری سونامی، بینک آف خیبر، صوبائی احتساب کمیشن، ہیلی کاپٹر سیکنڈل سمیت کئی میگا کیسز پر نیب نے کوئی بڑی پیش رفت نہیں کی۔ نیب کے پی کے نئے ڈی جی مجاہد اکبر بلوچ ابھی تک متحرک نظر نہیں آرہے اور نہ ہی ان کی کارکردگی قابل ذکر ہے۔نیب کے پی کے سابق ڈی جی کے دور میں ایک اور میگا سکینڈل کی انکوائری مکمل ہوئی تھی جس کے مطابق تحریک انصاف کے پچھلے دور حکومت میں بینک آف خیبر میں ایم ڈی سمیت 103 افراد کی غیر قانونی بھرتیاں ہوئیں جبکہ بینک آف خیبر مالی بحران کا شکار ہے جس کے بعد بینک اثاثہ جات میں مسلسل کمی ہورہی ہے شیئرز پر منافع بھی 1.79 سے کم ہو کر 46 پیسے رہ گیاہے بینک کے معاملات تو سنبھالنے کے لئے حکومت کو فوری اقدامات اٹھانا ہوں گے ورنہ صوبائی حکومت کا بینک دیوالیہ بھی ہو سکتا ہے جس کی ذمہ داری تحریک انصاف کی حکومت پر عائد ہوگی کیونکہ نومبر 2017 سے اکتوبر 2018 تک بینک کو ایڈھاک ازم پر چلایا گیا اس دوران قائمقام ایم ڈی نے 46 ارب روپے کی کثیر رقم پاکستان انوسٹمنٹ بانڈز میں لگا دی جس سے بینک کو 5 ارب روپے سالانہ خسارے کا سامنا ہے حکومت کو خود بھی ان معاملات کی چھان بین کرنی چاہیے۔

تازہ ترین
تازہ ترین