اسلام آباد ( فاروق اقدس )اپنے عسکری منصب کے جاہ و جلال کو سیاسی منظر پر اثر انداز اور مالی منفعت کے لیے استعمال کرنے کے الزامات جنرل ریٹائرڈ فیض حمید پر گو کہ اسلام اباد میں پاکستان تحریک انصاف کے طویل ترین دھرنے کے دوران ہی آنا شروع ہو گئے تھے جو 2014 میں 126 روز تک جاری رہا تھا باقاعدگی سے میڈیا کوریج کے علاوہ 126 دنوں تک اشیائے خوردونوش سمیت رسد و کمک کے متعلقہ انتظامات جن پر روزانہ لاکھوں کی خطیر رقم کے اخراجات بھی شامل ہیں وہ کہاں سے آ رہے تھے اور کس کے کہنے پر ان کی ادائیگیاں کون کر رہا تھا اس بارے میں جہاں عام لوگوں کا تجسس محض واجبی سا تھا لیکن عمران خان کے مخالفین جانتے بوجھتے ہوئے بھی خاموش رہنے پر مجبور تھے جنرل( ر) فیض حمید کا نام نومبر 2017 میں اپنی ملفوف غیر عسکری سرگرمی کے حوالے سے پہلی مرتبہ اس وقت سامنے آیا تھا جب اسلام اباد اور راولپنڈی کے سنگم فیض آباد پر تحریک لبیک پاکستان نے دھرنا دیا تھا اور دھرنا ختم کر انے کے لیے حکومت اور تحریک لبیک کے درمیان ہونے والے تحریری معاہدے کے دستاویز کے آخر میں دستخطوں کے ساتھ "بوساطت میجر جنرل فیض حمید" لکھا ہوا تھا اس معاہدے کے ثالث کی حیثیت سے ان کا عوامی سطح پر غالبا پہلی مرتبہ نام آیا تھا اور پھر کئی واقعات میں ان کے تذکرے اور حوالے سرگوشیوں میں ہوتے رہے یہی وجہ تھی کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسی جن کا شمار اس وقت اینٹی اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے ہوتا تھا انہوں نے فیض آباد پر تحریک لبیک کی طرف سے دھرنے سے متعلق از خود نوٹس لیتے ہوئے اس وقت کے آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کو حکم دیا تھا کہ وہ اپنی ان ماتحت افسران کے خلاف کاروائی کریں جنہوں نے اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سیاسی امور میں مداخلت کی اس فیصلے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ یہ تاثر ہرگز نہیں جانا چاہیے کہ فوج کسی جماعت تنظیم یا سیاستدان کی حمایت کر رہی ہے۔