• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

وفاق کی مداخلت: پیپلز پارٹی اور متحدہ کے درمیان ایک بار پھر لفظی گولہ باری

پی ٹی آئی اور پی پی پی کے درمیان سیاسی کشیدگی عروج پر پہنچ گئی ہے وفاقی کابینہ میں بڑے پیمانے پر تبدیلی اور پی پی پی دور کے نووفاقی وزراء کوکابینہ کاحصہ بنانے پر اپوزیشن سمیت خود پی ٹی آئی کے اندر سے آوازیں بلند ہورہی ہیں پی پی پی کے ترجمان مولابخش چانڈیو نے کہاہے کہ سیاسی ومعاشی استحکام کے لیے صرف وزراء ہی نہیں وزیراعظم بھی ہمارالانا ہوگا۔ پی ٹی آئی اور پی پی پی کے درمیان سیاسی کشیدگی سندھ اسمبلی کے رواں اجلاس میں بھی نظرآئی دوران اجلاس اپوزیشن اور حکومت کے درمیان نعرے بازی اور واک آؤٹ کی نوبت آتی رہی تاہم گزشتہ ہفتے پی پی پی اور پی ٹی آئی ارکان کے درمیان جاری اجلاس میں ہاتھاپائی ہوتے ہوتے رہ گئی بعد ازاں افہام وتفہیم کی فضا کے بعد اپوزیشن قائمہ کمیٹیوں کے حوالے سے بات چیت پر راضی ہوگئی اپوزیشن لیڈر فردوس شمیم نقوی نے کمیٹیوں میں مساوی نمائندگی کا مطالبہ کیا ہے دیکھنا یہ ہے کہ پی پی پی اپوزیشن کے مطالبے کو کس قدر اہمیت دیتی ہے دوران اجلاس اربوں روپے کی رشوت اور چوبیس گھنٹے شراب نوشی کا بھی تذکرہ جاری رہا جس پر اپوزیشن اور حکومت میں جھڑپ بھی ہوئی اسپیکر کی جانب سے اپوزیشن کو غیرملکی شہدپلانے کی دعوت بھی دی گئی تو اپوزیشن لیڈر نے انہیں بین الاقوامی شہد کی دعوت دے ڈالی اپوزیشن اور سندھ حکومت کے تعلقات مثالی نہیں جس کی وجہ سے مسائل بڑھ رہے ہیں گورنرسندھ عمران اسماعیل نے بھی پی پی پی اور مرکزی حکومت کے درمیان ورکنگ ریلیشن شپ نہ ہونے پر کہاکہ سندھ حکومت اور وفاق کے درمیان کوئی ورکنگ ریلیشن شپ نہیں پی پی پی حکومت کے ساتھ نہیں چلناچاہتی تو ناچلے حکومت سندھ اور وفاق کے درمیان ورکنگ ریلیشن شپ نہ ہونے سے سندھ ہی کو نہیں وفاق کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے ادھر پی پی پی اور متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے درمیان بھی لفظوں کی گولہ باری شروع ہوچکی ہے متحدہ قومی موومنٹ کے رہنماؤں نے دوسری بار وفاق کو سندھ میں مداخلت کرنے کا مشورہ دیا ہے متحدہ قومی موومنٹ کے رہنماؤں کاکہنا ہے کہ شہری سندھ کو حقوق نہیں دیئے جارہے میئرکو اختیارات نہیں دیئے گئے اور ناہی فنڈز جاری کئے جارہے ہیں نوکریوں میں شہری سندھ کے ساتھ نارواسلوک جاری ہے۔ شہری سندھ کے باصلاحیت نوجوان نوکریوں سے محروم ہیں ایم کیو ایم کے رہنما ڈاکٹرخالدمقبول صدیقی نے اعلان کیا کہ 27 اپریل کو بارغ جناح میں عوامی قوت کا مظاہرہ کیا جائے گاانہوں نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہاکہ سندھ تقسیم ہوچکا صرف اعلان ہونا باقی ہے، سندھ کے شہری علاقوں کے عوام کو سرکاری نوکریوں سے محروم رکھا گیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سے آرٹیکل 149 کے تحت صوبوں میں ہونے والی ناانصافی پر مداخلت کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہاکہ 18 ویں ترمیم کے نام پر دھوکاکیا گیا ہے، 35فیصد اختیارات نچلی سطح تک منتقل کئے جانے چاہئیں۔ نیب سے مطالبہ کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ سندھ میں گزشتہ برسوں کے دوران سرکاری نوکریوں کے حوالے سے ہونے والی کرپشن کی تحقیقات کی جائے۔جس پر پی پی پی کی طرف سے اسمبلی اور اسمبلی کے باہرشدید ردعمل آیا اور وزیراعلیٰ سندھ سیدمرادعلی شاہ نے کہاکہ سندھ کوتوڑنے والے خودٹکڑے ٹکڑے ہوگئے۔ادھر رمضان المبارک قریب آتے ہی شہر میں لاکھوں گداگروں نے ڈیرے ڈال دیئے ہیں جن میں بیشتر جرائم پیشہ افراد بھی ہے جبکہ گداگر خواتین کا گروہ پبلک ٹرانسپورٹ میں خواتین کے موبائل، زیورات، پرس سے پیسے نکال کر رفوچکر ہوجاتی ہے، شہر میں ٹارگٹ کلنگ کی وارداتوں کے ساتھ ساتھ اسٹریٹ کرائم کی وارداتوں میں اضافہ گیا ہے، جو رمضان المبارک میں عروج پر ہوگا حکومت اورپولیس کے لیے ان وارداتوں کا سدباب ایک چیلنج ہے حال ہی میں پاکستان رینجرز کو ایک بار پھر تین ماہ کی توسیع دی گئی ہے شہر میں رینجرز 30 سال سے موجود ہیں تاہم جرائم کا مکمل سدباب نہیں کیا جاسکا۔ جسٹس صلاح الدین پنہور پر مشتمل سنگل بینچ کے رو برونوران بی بی کی درخواست کی سماعت کے موقع پر پولیس نے مفرورملزموں سے متعلق رپورٹ پیش کی جس میں بتایاگیاکہ سندھ میں مفرورملزموں کی تعداد 50180ہےکراچی میں دہشت گردوں اور ٹارگٹ کلرز مفرور ملزموں کی تعداد 22127 ہے لاڑکانہ ڈویژن میں یہ تعداد13135 ہے۔ سکھر ڈویژن میں مفرورملزموں کی تعداد3841، میرپورخاص ڈویژن میں 742 اور شہید بے نظیرآباد ڈویژن میں مفرورملزموں کی تعداد 3970 ہے۔ رپورٹ کے مطابق مفرورملزموں کے شناختی کارڈ بلاک کرانے کے لیے نادرا سے جبکہ نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ(ای سی ایل) میں شامل کرانے کے لیے ایف آئی اے سے بھی رابطہ کیا گیا ہے۔ یہ وہ ملزمان ہے جو مفرورقرار دیئے گئے ہیں ایسے ملزمان کی تعداد لاکھوں میں ہے جن کا پولیس ریکارڈ نہیں بعض حلقوں کے مطابق قانون نافذ کرنے والے ادارے شہر کو محفوظ نہیں بناسکیں ہے اور سیاسی جماعتوں کی تمام ترتوجہ حکومت گرانے اور بنانے پر ہے، سیاسی جماعتوں کی جانب سے حکومت گرانے اور حکومتی کارکردگی سے مایوسی کا اظہار اپنی جگہ تاہم بعض حلقوں کاکہنا ہے کہ سیاسی جماعتیں عوامی ایشوز پر بات نہیں کرتی جس کی وجہ سے انہیں عوامی پذیرائی نہیں مل رہی اپوزیشن جماعتیں بجلی گیس کے ٹیرف میں اضافہ، الیکٹرانک مصنوعات کی قیمتوں میں ہوشربااضافہ، اجناس، سبزیوں کی قیمتوں میں اضافے، دالوں کی قیمتوں میں اضافہ، بے روزگاری، امن وامان سمیت دیگر مسائل کے بجائے محض الزامات درالزامات کے تحت حکومت پر تنقید کررہے ہیں خصوصتاً کراچی کو تقریباً تمام سیاسی جماعتوں نے نظرانداز کردیا ہے کراچی مسائل کی آماجگاہ بن چکا ہے کچرے کے ڈھیر، پانی کی قلت، بجلی کی لوڈشیڈنگ، امن وامان، بے روزگاری، ٹریفک جام، سڑکوں کی ٹوٹ پھوٹ سیوریج کا نظام کراچی کے بڑے مسائل ہے جنہیں حل کرنے کی سنجیدہ کوششیں نہیں ہورہی تحریک انصاف کے ارکان قومی وصوبائی اسمبلی بجلی، گیس، واٹربورڈ کے دفاتر میں چکر لگاتے رہتے ہیں تاہم ان کی شنوائی نہیں ہوتی بعض حلقوں کے مطابق ان کے پاس کوئی پروگرام نہیں اور انہیں یہ بھی پتہ نہیں کہ انہیں کیا کرنا ہے کراچی کے عوام سیاسی جماعتوں سے اس ضمن میں سخت مایوس ہے ان حالات میں پی پی پی کے سابق صوبائی جنرل سیکریٹری نفیس احمد صدیقی کراچی کے مسائل کے حل کے لیے ایک تھنک ٹینک تشکیل دینے میں مصروف ہے وہ دانشواروں،قلم کاروں، سابق بیوروکریٹس اور سیاست دانوں کے ساتھ ایک پلیٹ فارم تشکیل دینا چاہتے ہیں جو کراچی کے مسائل کی ناصرف نشاندہی کرے بلکہ اس کے لیے سنجیدہ کوشش بھی کرے عوامی منشور کی بیداری کے ساتھ آگہی مہم بھی چلائی جاسکیں اور سیاسی جماعتوں سمیت کراچی کے مسائل کے حل کرنے والی قوتوں اوراداروں سے رابطہ کرکے کراچی کے مسائل حل کرنے کی سعی کریں۔

تازہ ترین
تازہ ترین