• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک میں جب بھی سیاسی اتحادوں کا تذکرہ یا ضرورت کا احساس ہو تو نوابزادہ نصراللہ خان کی یاد نہ آئے یہ ہو ہی نہیں سکتا، اپنی سیاسی زندگی میں نوابزادہ نصراللہ خان نے جمہوری ادوار اور آمریت کے زمانے میں بھی جتنے سیاسی اتحاد بنائے اور جس طرح مطلوبہ نتائج حاصل کئے، اُن کی روشنی میں اگر یہ کہا جائے تو شاید غلط نہ ہوگا کہ نوابزادہ صاحب کو سیاسی اتحاد بنانے کی عادت سی پڑ گئی تھی۔ اِسی لئے یہ بھی کہا جاتا تھا کہ نوابزادہ صاحب پہلے آمریت کے خلاف جدوجہد کرتے ہیں، سیاسی اتحاد بناتے ہیں اور تحریکیں چلاتے ہیں اور جب آمریت کا خاتمہ ہو جاتا ہے اور جمہوریت قائم ہو جاتی ہے تو پھر یہی عمل جمہوریت کے خلاف شروع کردیتے ہیں، آخری وقت تک نوابزادہ صاحب کی سیاسی استقامت کے تسلسل میں کمی نہیں آئی۔ وہ خود کبھی کسی مقبول جماعت کے رہنما نہیں رہے اور نہ ہی اُنہوں نے کبھی کسی سیاسی جماعت کی قیادت کی لیکن اُن کی سربراہی میں جو اتحاد بنے، اُن میں ملک کے سربرُآوردہ سیاستدان جن میں پیرپگاڑا، ولی خان، مولانا شاہ احمد نورانی، ائیر مارشل (ر)اصغر خان، مولانا فضل الرحمٰن شامل رہے۔ 1962میں اُن کی کوششوں سے جنرل ایوب خان کے خلاف اپوزیشن کا اتحاد نیشنل ڈیموکریٹک الائنس وجود میں آیا۔ ایوب آمریت کے خلاف اُن کی مسلسل جدوجہد نے ہی ایوب خان کو گول میز کانفرنس کے انعقاد پر مجبور کیا، نواب صاحب اُس اتحاد کے کنوینر تھے۔ 1970میں اُنہوں نے غلام مصطفیٰ کھر سے شکست کو قبول تو کر لیا لیکن جیسے ہی بھٹو صاحب نے حکومت بنائی، نواب صاحب نے پیر پگاڑا کی سربراہی میں بھٹو صاحب کے خلاف تمام اپوزیشن کو یکجا کر لیا اور 1977کے انتخابات سے قبل 9جماعتوں کا قومی اتحاد بنا کر بھٹو صاحب کی مقبول شخصیت اور مستحکم حکومت کے سامنے خم ٹھونک کر کھڑے ہو گئے۔ پھر بحالی جمہوریت کے لئے ایم آرڈی کی بنیاد رکھی اور جنرل ضیاءالحق کو 1985میں انتخابات کرانے پر مجبور کیا۔ 1988کے انتخابات میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے وزیراعظم بننے سے ملک میں جمہوریت آگئی لیکن نوابزادہ صاحب نے اِس مرتبہ بے نظیر بھٹو کی جمہوری حکومت کو گرانے کے لئے اپوزیشن کو اکٹھا کیا اور صدر غلام اسحاق خان نے بے نظیر بھٹو کو رخصت کردیا۔ 1990میں میاں نواز شریف اقتدار میں آئے تو نوابزادہ صاحب ایک مرتبہ پھر اُن کی حکومت کے خلاف سرگرم ہو گئے اور پی پی کے ساتھ مل کر آل پارٹیز کانفرنس کی بنیاد رکھ دی اور نواز شریف کی رخصتی کے بعد بے نظیر دوسری مرتبہ اقتدار میں آئیں تو اُس مرتبہ اُنہوں نے نوابزادہ صاحب کو ایک ’متبادل مصروفیت‘ کے لئے تمام مراعات اور اختیارات کے ساتھ کشمیر کمیٹی کا چیئرمین بنا دیا۔ بے نظیر بھٹو کی حکومت رخصت ہوئی تو انتخابات کے نتیجے میں میاں نوازشریف وزیراعظم بن گئے لیکن اِس مرتبہ بھی وہ نوابزادہ صاحب کی ستم ظریفی کا نشانہ بنے اور پھر جنرل پرویز مشرف کے اقتدار سنبھالنے کے بعد نوابزادہ صاحب نے بے نظیر بھٹو اور نوازشریف کو یکجا کر کے بحالی جمہوریت کی تحریک ایم آرڈی شروع کی۔ سیاسی اتحادوں کی تازہ مثال موجودہ صورتحال اور بالخصوص مولانا فضل الرحمٰن کی وہ کوششیں ہیں جنہیں فی الوقت تو سعئ رائیگاں ہی کہا جا سکتا ہے حالانکہ سیاسی اتحادوں کی تشکیل میں مولانا فضل الرحمٰن دوسرے رہنماؤں کی طرح نوابزادہ نصراللہ خان سے ’سیاسی علم وہنر‘ حاصل کرنے میں پیش پیش تھے اور وہ آج بھی تسلیم کرتے ہیں کہ اُنہوں نے نوابزادہ صاحب کی رفاقت میں بہت کچھ سیکھا۔

مولانا فضل الرحمٰن پہلی مرتبہ 1988میں انتخاب میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ ایم آرڈی کی تحریک میں پاکستان پیپلز پارٹی سے اُن کی سیاسی رفاقت مستحکم ہو گئی تھی چنانچہ وزیراعظم کی حیثیت سے محترمہ بے نظیر بھٹو نے اُنہیں پارلیمنٹ کی خارجہ اُمور اور پھر کشمیر کمیٹی کا چیئرمین بھی بنایا اور وہ تقریباً 16سال سے زیادہ عرصہ تک اِن ذمہ داریوں کو نبھاتے رہے۔ اِس عرصے میں وہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر بھی رہے تاہم 2018کے انتخابات میں اُنہیں کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔ انتخابات میں ناکامی کے بعد اُنہوں نے الیکشن میں دھاندلی کے الزام اور نتائج تسلیم نہ کرنے کی بنیاد پر حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کردیا اور اُن کا یہ زُعم، اعتماد اور یقین ایک خواب ثابت ہوا کہ اس تحریک میں اُن کے ساتھ اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتیں پاکستان مسلم لیگ(ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی بھی ساتھ ہوں گی اور وہ نوابزادہ نصراللہ خان سے حاصل کئے گئے سیاسی فیض اور تجربے سے استفادہ کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف ایک بڑے سیاسی اتحاد کی تشکیل میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اب کم وبیش آٹھ ماہ ہو چکے ہیں مولانا فضل الرحمٰن اس کوشش میں ہیں کہ موجودہ حکومت کے خلاف ایک مؤثر سیاسی اتحاد بنا کر تحریک چلائی جائے۔

مولانا گزشتہ کئی ماہ سے ملک کے مختلف شہروں میں ’ملین مارچ‘ کے عنوان سے احتجاجی جلسے کر رہے ہیں۔ اُنہوں نے یہ اعلان کیا کہ اِس ملین مارچ کا اختتام اسلام آباد میں ایک بڑے دھرنے پر ہوگا، جس میں لاکھوں لوگ موجود ہوں گے اور ہم فیصلہ کن نتائج تک اسلام آباد میں موجود رہیں گے۔ اِس دوران اُن کی آصف علی زرداری سے کئی ملاقاتیں ہوئیں اور کچھ دن پیشتر اُنہوں نے میاں نواز شریف سے بھی دو گھنٹے کے دورانیے پر محیط ’سیاسی عیادت‘ کی لیکن اِس ملاقات کے حوالے سے بھی تشنہ اور متضاد باتیں سامنے آئیں۔ بتایا گیا کہ میاں صاحب نے اپنی علالت کا جواز پیش کیا اور یہ بھی کہا کہ وہ تنظیمی رفقاء سے مشاورت کے بعد کچھ بتانے کی پوزیشن میں ہوں گے۔ آصف زرداری صاحب کے اِس بات پر تحفظات ہیں کہ موجودہ صورتحال میں میاں نوازشریف کسی صورت بھی سیاسی اتحاد یا تحریک کا حصہ نہیں بنیں گے اور اُنہوں نے ماضی میں ایک بار نہیں بلکہ بار بار ہم سے وعدہ خلافی اور بے وفائی کی ہے۔ ہر چند کہ اسلام آباد میں دھرنا دینے اور حکومت کے خلاف تحریک چلانے کے لئے مولانا پُرعزم ہیں لیکن بادی النظر میں تو ایسا ہی لگتا ہے کہ فی الوقت نہ تو اسلام آباد میں دھرنا ہو گا اور نہ ہی بڑی جماعتوں کے ساتھ مل کر کوئی مؤثر سیاسی اتحاد بن سکے گا۔

تازہ ترین