• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان سے تعلق رکھنے والی رکھنے والی ایک طبیبہ،ڈاکٹر لبنیٰ مرزا ،نے گزشتہ برس امریکا میں منعقد ہ انٹرنل میڈیسن کی بورڈ ری ویو کانفرنس میں شرکت کی تھی۔وہ اس کانفرنس کا احوال لکھتے ہوئے کہتی ہیں: ’’کانفرنس میں جا کر یہ معلوم ہوا کہ پچھلے دس سالوں میں میڈیسن میں کتنی تبدیلیاں‌ آچکی ہیں۔ایتھکس کا لیکچر کافی دل چسپ تھا۔ اس میں کئی نوعیت کے کیس ڈسکس کیے گئے‘‘۔انہوں نےان میںسےبعض کیسزکی تفصیلات بہت آسان پیرائے میں درج کی ہیں۔اس نشست میں ہونے والے سوال وجواب میںسے تین سوالات اور ان کےجوابات ان ہی کی زبانی ذیل میں درج کیے جارہے ہیں:

پہلا سوال: آپ کے 56 سالہ مریض کے جسم میں حال ہی میں گردے کے سرطان کی تشخیص ہوئی ہے ۔ یہ اس وقت معلوم ہوا جب وہ گر پڑے اور ان کے بازو کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ جب ان کی سرجری کے لیے مزید ٹیسٹ کیے جارہے تھے تو پتا چلا کہ انہیں یہ خطرناک کینسر ہے۔ آپ نے انہیں کینسر کے ڈاکٹر کے پاس بھیجاجس نے کیموتھیراپی تجویز کی ہے۔ لیکن آپ کے مریض نے علاج کرانےسے انکار کردیا ہے اور صرف بنیادی دیکھ بھال کی درخواست کی ہے۔ اس مریض کے دو بچے ہیں جن کی عمریں‌ 14 اور 17 سال ہیں۔ایسے میں آپ کو کیا کرنا چاہیے:

1- مریض کو نالائق قرار دے دیا جائے؟

2- مریض کو دوبارہ کینسر کے ڈاکٹر کے پاس بھیجا جائے تاکہ اس سے مزید گفت و شنید کی جاسکے؟

3- بنیادی دیکھ بھال شروع کی جائے؟

4- مریض پر دباؤ ڈالیں کہ وہ کیموتھیراپی کے لیے حامی بھر لے؟

درست جواب: مریض کی خواہشات کا احترام کرتے ہوئےاس کی درخواست کے مطابق بنیادی دیکھ بھال شروع کی جائے۔ یہ سوال جس نکتےکے گرد گھومتا ہے وہ یہ ہے کہ مریض کی مرضی کو عزت اور اہمیت دی جائے۔ اس کے اس انسانی حق کا احترام کیا جائے کہ وہ اپنی زندگی کے بارے میں فیصلہ کرنے کا پورا اختیار رکھتا ہے۔

دوسراسوال: آپ کے ایک مریض کو آخری سطح کا ایچ آئی وی انفیکشن ہے۔اسے نمونیا اورکنفیوژن کی شکایات کے ساتھ اسپتال میں داخل کیا گیا ہے۔ چار دن کے علاج کے بعد اس کی زہنی حالت قدرے بہتر ہوچکی ہے اور وہ آپ سے کہتا ہے کہ اسے گھر واپس جانے دیا جائے۔ وہ پہلے بھی ایسا ہی کہہ چکا ہےجو اس کے فیملی ڈاکٹر کی فائل میں بھی لکھا ہوا ہے۔ آپ کے مریض کا خود کشی کا کوئی ارادہ نہیں، لیکن وہ مرنے کے لیے تیارہے اور مزید علاج نہیںکرانا چاہتا۔ اس صورت حال میں آپ کو کیا کرنا چاہیے؟

1- مریض کو بنیادی دیکھ بھال کے ساتھ گھر بھیج دیا جائے؟

2- مریض پر نگاہ رکھنے کے لیےچوکیدار بٹھا دیا جائے تاکہ وہ خود کشی نہ کرے؟

3-کسی ماہرِ نفسیات کو بلایا جائے تاکہ وہ مریض کی لیاقت جانچنے کے لیےاس کا دماغ پڑھے؟

4- مریض کو نالائق ثابت کرنے کےلیےعدالت میں مقدمہ چلایا جائے؟

درست جواب: اگرکوئی مریض ہوش وحواس میں رہتے ہوئے یہ فیصلہ کرے کہ اسے مزید علاج نہیں کرانا اوروہ گھر واپس جانے کی درخواست کرے تو اس کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے اسے گھر بھیج دیا جائے گا۔ ماہرِ نفسیات کو اس وقت بلانا مناسب ہوگا جب مریض ڈپریشن کا شکار ہو، خودکشی کرنے کی کوشش کرے یا اس کا رویہ اور باتیں یہ ظاہر کریں کہ اسے کوئی ذہنی بیماری ہے۔ یہاںپر ایتھکس کا اصول’’ رسپیکٹ فار پیشنٹ اٹانومی‘‘ لاگو ہوتا ہے‘‘۔

سوال: ایک 21 سالہ کالج کےطالب علم کو اس کے روم میٹ ایمرجنسی روم لائے کیوں کہ اسے سرمیں شدید درد ہے اور اس کی گردن اکڑ گئی ہے۔ مریض نیند میںہے، لیکن پکارنے پر جاگ جاتا ہے۔ مریض نے لمبر پنکچر کی اجازت دے دی ہے جس سے اس کی کمر میں سے پانی نکال کر مناسب اینٹی بایوٹک دی جائے۔ مریض نے آپ کی بات سن کر اینٹی بایوٹک لینے سے انکار کردیا۔ آپ نے اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ اگر فوراً اینٹی بایوٹک نہ دی گئی تو گردن توڑ بخار سے موت واقع ہوسکتی ہے۔ لیکن مریض نے پھر بھی انکار کردیا اور بے ہوش ہوگیا۔ اب آپ کو کیا کرنا چاہیے؟

1- صرف نارمل سیلائین یا نمکین پانی کی ڈرپ چڑھائیں، کیوںکہ مریض نے اینٹی بایوٹک لینے سے انکار کردیا ہے؟

2- چوںکہ مریض‌ کو جان لیوا بیماری ہے اس لیے اس کے انکار کے باوجود علاج کرنا مناسب ہے؟

3- عدالت سے رجوع کریںاور تب تک علاج روکیں جب تک فیصلہ ہو جائے؟

4- مریض کے روم میٹ سے اجازت لے کر علاج شروع کر دیں؟

درست جواب: یہاںچوں کہ مریض بخار کی وجہ سے درست طریقے سے سوچنے کی صلاحیت عارضی طور پر کھو چکاہے اور اینٹی بایوٹک کے بغیر اس کی جان جا سکتی ہےلہذا فوراً علاج شروع کرنا مناسب ہوگا۔ روم میٹ اجازت دینے کی پوزیشن میں نہیںہیں۔ اس طرح کی اجازت صرف مریض کے والدین، بالغ اولاد یا شوہر یا بیوی ہی دے سکتی ہے۔ عدالت جانا مناسب نہیں کیوں کہ جب تک فیصلہ ہوگا، مریض شاید مرچکا ہوگا۔ قانونی نظام اورعدالتیں سست رو ہیں اور فوری فیصلہ کرنےسے قاصر ہیں۔ چناں چہ اس صورت حال میں ایتھکس کا “پرنسپل آف بینی فٹس ‘‘لاگو ہوتا ہے۔

ڈاکٹر لبنیٰ مرزا آگے چل کر لکھتی ہیں:’’امریکی عدالتوں میں چلنے والےمقدمات سے یہ اصول و ضوابط ترتیب دیے گئے کہ مذہبی بنیادوںپر مریض علاج سے انکار کرسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر جاہُووا وِٹنس مذہبی عقیدےکے پیروکار ضرورت پڑنے کے باوجود خون کا عطیہ قبول نہیں کرتے۔ یہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اگرکسی حادثے میں کسی جاہُوواوِٹنس فیملی کے کئی افراد زخمی ہوگئے ہوں،جن میں بچے بھی شامل ہوں، تو بالغ افراد اپنےلیے تو علاج سے انکار کرسکتے ہیں، لیکن کم عمر بچوں کو قانون کے مطابق تحفظ حاصل ہے۔ یعنی اگر ایک نو سال کا بچہ ہے جسے خون چڑھانے کی ضرورت ہے، ورنہ وہ مر سکتا ہے، تو اس کے والدین کے انکار کرنے کے باوجود اسے خون دیا جائے گا‘‘۔

تازہ ترین