• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آنکھوں میں سُہانے خواب سجانے کا حق ہر انسان کو حاصل ہے۔ خواب دیکھے جاتے ہیں، تو اُنہیں تعبیر ملتی ہے، لیکن ضروری نہیں ہوتا کہ ہر خواب کو تعبیر ملے۔ بہت سے خواب برسوں بُنت کے مرحلے میں رہتے ہیں اور لمحوں میں بِکھر جاتے ہیں۔ انسان کی زندگی خواب، سراب، امید و بیم کے درمیان ہی گزرتی ہے۔ زندگی رہے تو انسان کو خواب دیکھنے اور انہیں تعبیر دینے کی مہلت ملتی ہے۔ زندگی ہی نہ رہے، تو کیسے خواب اور کیسی تعبیریں؟ اِن دنوں ذرائع ابلاغ میں اکثرایسی خبریں پڑھنے،دیکھنے اور سننے کو ملتی ہیں کہ فلاں شخص طبیبوں کی غفلت کی وجہ سے فلاں اسپتال یا شفا خانے میں زندگی کی بازی ہار گیا۔حال ہی میں کراچی میں ننھی نشوا کاجگر پارہ پارہ کردینے والا سانحہ پیش آیاجس نے درد مند دل رکھنے والے بہت سے افراد کو سخت مضطرب کیا۔ اس صورتِ حال میں انتقال کرنے والے فرد کے لواحقین طبیبوں کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں اور طبیب اپنی صفائی پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ ایسے میں بہت سے ذہنوں میں یہ سوال جنم لیتا ہے کہ ایسی صورتِ حال میں سچ اور جھوٹ کے درمیان تفریق کرنے کے کیا اصول ہیں اور طبیبوں، نیم طبّی عملے، مریضوں اور ان کے عزیزوں کے حقوق و فرائض کیا ہیں۔ ان سوالات کے جواب ہمیں حیاتیاتی اخلاقیات یا بایو ایتھکس کے ماہرین ہی دے سکتے ہیں۔

حیاتیاتی اخلاقیات یا بایو ایتھکس

حیاتیاتی اخلاقیات کا تصور اگرچہ اُس وقت سے موجود ہے، جب سے انسان نے تہذیبی اور تمدنی طور پر ترقی کا آغاز کیا اور تہذیب یافتہ معاشرے کے لیے اخلاقی معیارات طے کیے جانے لگے۔ حیاتیاتی اخلاقیات انسانی معاشرے کی عمومی اخلاقیات سے علیحدہ کوئی شئے نہیں ہے۔ تاہم باقاعدہ مضمون کے طور پر اس کا ارتقاء تاخیر سے ہوا۔ گزشتہ صدی کے وسط میں اس میں تیزی آئی اور پھر مغرب میں اسے طب و صحت سے متعلق نصاب میں شامل کر لیا گیا، مگر یہ کام ساٹھ ستر برس قبل ہی ہو سکا۔ لیکن اس کی ضرورت کیوں پیش آئی؟دراصل حیاتیاتی اور طبّی اخلاقیات کا تصور تو بہت پہلے سے موجود تھا، لیکن بیسویں صدی کے تقریباً وسط سے سائنس، ٹیکنالوجی اور طب کے شعبوں میں تیزی سے ترقی ہوئی، بہت سے نئے امراض اور ان کے علاج سامنے آئے، طب اور صحت کی سہولتوں میں جدّت آئی اور ان کا دائرہ وسیع ہوا تو نت نئے اخلاقی مسائل بھی سامنے آئے۔ مثلاً یہ سوال پیدا ہوا کہ کِس مرض کے لیے کِس طرح کا علاج کیا جائے یا مریض کے لیے کون سے اقدامات صحیح اور غلط ہیں۔ اسی طرح ساٹھ، ستّر برس قبل اسپتالوں میں ایسی مشینیں نہیں تھیں، جن کے ذریعے قریب المرگ مریضوں کو سانس، خون، غذا وغیرہ فراہم کی جائے یا ان کے اعضاء کا کام مشینوں کے سپرد کردیا جائے۔ ان دِنوں ایسے مریضوں کی موت فوراً واقع ہو جاتی تھی۔ لیکن اب وینٹی لیٹرز موجود ہیں، جن کے ذریعے ایسے مریضوں کو برسوں مصنوعی طور پر زندہ رکھا جا سکتا ہے۔ جب وینٹی لیٹرز کا استعمال شروع ہوا، تو یہ سوال پیدا ہوا کہ کیا ایسا کرنا اخلاقی طور پر درست ہے؟ اسی طرح اعضاء کی پیوند کاری شروع ہوئی، تو یہ سوالات پیدا ہوئے کہ مریضوں کو کن لوگوں کے اعضاء لگائے جائیں، زندہ لوگ عطیہ دیں یا یہ مُردوں سے حاصل کیے جائیں؟

وسیع دائرہ

حیاتیاتی اخلاقیات کا دائرۂ اسپتالوں یا شفاخانوں تک محدود نہیں ہے۔ یہ مضمون طب اور صحت کے شعبوں میں خدمات فراہم کرنے والے اداروں، ان کے طبّی اور نیم طبّی عملے، اس شعبے میں تعلیم، تحقیق اور تجربات کا بھی احاطہ کرتا ہے۔ لہٰذا اس میں تمام متعلقہ افراد کے حقوق اور فرائض بھی آجاتے ہیں۔ کمیونٹی ہیلتھ سائنسز کی ایک ماہر کے بہ قول یہ بہت وسیع مضمون ہے، جس کا تعلق بنیادی طور پر انسانی اخلاقیات سے ہے۔ فرد کی اخلاقی تربیت کی ابتداء گھر سے ہوتی ہے۔ زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح طب اور صحت کے شعبوں میں بھی آج بہت سے اخلاقی مسائل در آئے ہیں۔ مثلاً غلط طریقوں سے دولت کمانا، تحقیقی کام کی چوری یا نقّالی، انسانوں یا جانوروں پر اخلاقی اصولوں اور معیارات کے خلاف طریقوں سے سائنسی یا طبّی تجربات کرنا، اسپتالوں، شفا خانوں وغیرہ میں کام کرنے والے طبّی اور نیم طبّی عملے کی جانب سے لوگوں یا مریضوں کے ساتھ غلط رویہ اختیار کرنا، مریضوں کے ساتھ نا انصافی کرنا وغیرہ۔ آج اس شعبے میں تحقیق کی چوری یا نقّالی بھی ایک اہم اخلاقی مسئلہ بن چکی ہے۔ لوگ کسی کے تحقیقی کام،خیال یا اس کے کسی حصّے کو اپنے نام سے دنیا کے سامنے پیش کر دیتے ہیں اور اس کے خالق کا ذکر تک نہیں کرتے یا اپنی ہی تحقیق کو مختلف مواقعےپر اس طرح پیش کرتے ہیں جیسے وہ اسے پہلی مرتبہ پیش کر رہے ہیں، حالاں کہ وہ اسے ایک یا زاید مواقع پر پہلے بھی پیش کر چکے ہوتے ہیں۔

ہیلتھ کیئرکے شعبے میں اہمیت

ہیلتھ کیئر کے شعبے میں حیاتیاتی اخلاقیات کی اہمیت کے بارے میں کراچی کے ایک اسکول آف نرسنگ میں اسسٹنٹ پروفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دینے والی ایک خاتون کا موقف ہے کہ مریض کا یہ حق ہے کہ اس کے بارے میں جو معلومات حاصل کی گئی ہوں، متعلقہ عملہ انہیں خفیہ رکھے اور جنہیں وہ ضروری سمجھتا ہے، صرف انہیں بتائے۔ اِسی طرح اس کے علاج کے مراحل کی بھی تفصیلات ہر ایک پر افشا نہیں کرنی چاہییں۔ اس کا یہ حق ہے کہ طبّی اور نیم طبّی عملہ اسے کوئی جانی یا مالی نقصان نہ پہنچائے۔ اس کے ساتھ اچھا سلوک کرے اور کسی بھی مرحلے پر اس کی عزتِ نفس کو مجروح نہ کیا جائے۔ مریضوں اور ان کے عزیزوں کا یہ فرض ہے کہ عملے کے ہر فرد کے ساتھ عزت اور احترام سے پیش آئیں۔ اب تو اداروں کے با اخلاق ہونے کی بھی بات کی جاتی ہے، جسے آرگنائزیشنل ایتھکس کہا جاتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ معاشرے میں اخلاقیات کے بارے میں تصوّرات کہاں سے آتے ہیں؟ یہ آسمان سے نہیں اترتے، بلکہ ہمیں ورثے میں ملتے ہیں۔ اس ضمن میں مذہبی تعلیمات کا بھی بہت عمل دخل ہے۔ اگر ادارے کا عملہ گپ شپ میں مصروف رہے اورمریض کو کوئی جسمانی یا مالی نقصان پہنچ جائے، تو وہ ادارے کی اخلاقیات کے بارے میں سوالات کو جنم دیتا ہے۔

حیاتیاتی اخلاقیات کے بارے میں آگاہی

کسی دوا یا علاج کے طریقے کے کلینیکل تجربات کے دوران متعلقہ لوگوں سے کیے گئے وعدے پورے نہ کرنا، ان کا مکمل علاج نہ کرنا اور تجربات سے حاصل ہونے والے فواید میںانہیں شریک نہ کرنا بھی حیاتیاتی اخلاقیات کے اصولوں کے خلاف بات ہے ۔ مادیت کے مارے لوگ انسانوں کا قدم قدم پر استحصال کرتے ہیں۔یہ استحصال روکنےکے لیے عوام کو بھی حیاتیاتی اخلاقیات کے بارے میں آگاہ ہونا چاہیے۔ مثلاً طویل عرصے سے مشرق کے لوگوں کو یہ شکایت ہے کہ مغرب تحقیق کے نام پر مشرقی لوگوں کا استحصال کررہا ہے اور اس ضمن میں بعض اوقات بین الاقوامی قوانین کی بھی خلاف ورزیاں کی جاتی ہیں، لیکن اس کا پوری طرح تدارک اس لیے نہیں ہو پاتا کہ لوگ حیاتیاتی اخلاقیات سے آگاہ نہیں ہیں۔ یہ سلسلہ نازی کیمپس کے زمانے سے موجود ہے۔ حیاتیاتی اخلاقیات کے تحت تو جانوروں پر تجربات کے لیے بھی اصول و ضوابط موجود ہیں۔ پاکستان میں بھی حیاتیاتی اخلاقیات کے ضمن میں متعلقہ اداروں اور تنظیموں نے معیارات طے کر رکھے ہیں۔ بعض قوانین بھی موجود ہیں، لیکن شکایات سامنے آتی رہتی ہیں۔پاکستان کے اِکّا،دُکّااسپتالوں اورنرسنگ اسکولز میں تعلیم اور تربیت حاصل کرنے والے افراد اور عملے کو حیاتیاتی اخلاقیات کی تعلیم و تربیت دی جاتی ہے۔ اس ضمن میںکبھی کبھار سمپوزیمز، سیمینارز، کانفرنسز وغیرہ کی جاتی ہیں، تاکہ ان شعبوں سے وابستہ افراد اور عام آدمی کو حیاتیاتی اخلاقیات کی اہمیت اور ضرورت سے آگاہ کیا جا سکے۔

ثقافت کے گہرے اثرات

ماہرینِ سماجیات اور اخلاقیات کےمطابق اخلاقیات کی تعلیم پر ثقافت کے گہرے اثرات ہوتے ہیں، لہٰذا اسے معاشرے سے علیحدہ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد دنیا بھر میں اخلاقیات پر زیادہ زور دیا جانے لگا، لیکن ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ ہماری قدریں کیا کہتی ہیں اور ہم کس قسم کی اخلاقیات کی تعلیم دے سکتے ہیں۔ آج قدریں تیزی سے تبدیل ہو رہی ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ان کے عوامل پر بھی غور کیا جارہا ہے؟کراچی کی ایک معروف طبیّ جامعہ کے شعبے کمیونٹی ہیلتھ سائنسز میں سینئر انسٹرکٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دینے والے ایک ڈاکٹرکےمطابق اسپتالوں اور شفاخانوں میں آنے والے افراد دکھ اور تکلیف میں مبتلا ہوتے ہیں، عام تصور یہ ہے کہ طبیب یا نیم طبّی عملہ ان سے با اخلاق طور پر پیش آئے، تو ان کی آدھی بیماری اور دکھ وہیں ختم ہو جاتا ہے۔ طبیبوں کو دنیا بھر میں مسیحا اور فرشتے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اگر طبیب اچھی طرح مریض سے اس کے مرض کے بارے میں بات کرے، نیم طبّی عملہ نرمی اور احترام سے پیش آئے اور انجیکشن ہلکے ہاتھ سے لگا دے، تو مریض پر اس کے بہتر نفسیاتی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ طبّی اخلاقیات کے مطابق طبّی اور نیم طبّی عملے کا یہ فرض ہے کہ وہ جب تک فرائض انجام دے، وہاں جسمانی طور پر موجود ہونے کے ساتھ ذہنی طور پر بھی موجود ہو۔ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ جسم تو وہاں ہو، لیکن دماغ کہیں اور ہو۔ اسی طرح اسپتالوں اور شفا خانوں میں مریضوں کی فلاح و بہبود کا بھی مستحکم نظام ہونا چاہیے۔ اگر طبیب کسی وجہ سے اپنے مریض کو دیکھنے نہ آ سکے، تو یہ مریض کا حق ہے کہ اسے طبیب کے نہ آنے کی وجہ بتائی جائے۔ اسی طرح اسے ڈسچارج کرتے وقت دوائوں کے ساتھ تمام متعلقہ احتیاطی تدابیر اور مستقبل کے ممکنہ خطرات کے بارے میں بھی بتانا چاہیے۔

مریضوں کے ساتھ ابلاغ کے طریقے

پاکستان میں تو خال خال ہی ،مگر دیگر بہت سے ممالک میں طب کے طلبا کوپوری تعلیم کے دوران مریضوں کے ساتھ ابلاغ کے طریقے بتائے اور پڑھائے جاتے ہیں۔ نیم طبّی عملے کی تعلیم و تربیت بھی ان ہی خطوط پر کی جاتی ہے۔ مریضوں کو مطمئن کرنا عملے کا فرض ہے اور مطمئن ہونا مریض کا حق ہے، کیوں کہ وہ اپنی جیب سے یا حکومت اس کی طرف سے علاج معالجے پر رقم خرچ کرتی ہے۔اگر طبّی اور نیم طبّی عملہ مغرور یا غصّہ کرنے والا ہو، وہ مریضوں پر مناسب توجہ نہ دے، تو یہ طبی اخلاقیات کے خلاف بات ہے۔ اچھے ادارے اپنے طلبا اور عملے کو سکھاتے ہیں کہ اگر مریض کے کسی غلط تصوّر یا رجحان کی نفی کرنی ہے تو یہ کام سختی سے نہ کیا جائے، بلکہ پیار، محبت اور اخلاق کے ساتھ بھی ایسا کیا جا سکتا ہے اور یہ رویّہ دیرپا اثرات مرتب کرتا ہے۔

شعور عام کرنا بہت مشکل کام

جس معاشرے میں ہم سانس لے رہے ہیں، وہاں نا خواندگی، غربت اور غلط تصوّرات کے بھیانک عفریت ہر طرف منہ کھولے کھڑے نظر آتے ہیں۔ ایسے میں حیاتیاتی اخلاقیات کا شعور عام کرنا بہت مشکل کام ہے۔بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ بد اخلاقی کی طبقاتی جہتیں بھی ہیں۔ ناخواندہ یا کم تعلیم یافتہ شخص کسی سے بد اخلاقی کرتے ہوئے ڈرتا ہے۔ دوسری طرف تعلیم یافتہ یا با اثر طبقہ انصاف کے تقاضے پورے کرتا نظر نہیں آتا۔ تعلیم یافتہ طبقے میں شعور آئے گا تو عوام تک اس کے اثرات پہنچیں گے۔ صحت کے شعبے کی نج کاری کے بارے میں بہت سے جان دار اعتراضات موجود ہیں۔ سری لنکا اور بھارت کا صوبہ کیرالہ بہت ترقی یافتہ نہیںہے، لیکن وہاں سرکاری طبّی ادارے بہت اچھی طرح کام کر رہے ہیں۔ کیرالہ میں اجتماعی مفاد کے کام کا تصّور عام ہے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں مقامی لوگوں کی صحت کے اشاریے اچھے ہیں۔ صحت کی سہولتیں لوگوں کا بنیادی حق ہیں، لیکن آج دنیا بھر میں صحت کے شعبے میں صنعت کاروں اور اصلاح پسندوںکے درمیان جنگ کی سی کیفیت ہے۔ جمہوریت کا بھی صحت سے تعلق ہوتا ہے۔ اس کی مثال برطانیہ کا صحت کااچھا سرکاری نظام اور امریکا کا بُرا نظام ہے۔ طب و صحت سے متعلق اداروں میں بھی جمہوریت ہونی چاہیے۔ ادویات کی صنعت کے لیے بھی سخت اخلاقی اصول ہیں، مگر وہاں بہت گڑبڑ ہے۔

پہلے وطنِ عزیز میں طبّی، نیم طبّی عملے اور مریضوں اور ان کے عزیزوں کے حقوق و فرائض کے بارے میں زیادہ بات نہیں ہوتی تھی، لیکن اب ہونے لگی ہے،جو اچھی علامت ہے۔یہ درست ہے کہ طبّی اخلاقیات کو مدِنظر رکھ کر متعلقہ اداروں کو اپنی پالیسیز بنانی چاہییں، لیکن حقوق کے نام پر مریضوں کی جانب سے عملے پر تشدد اور بد اخلاقی سے پیش آنے کے واقعات غلط ہیں۔ مغرب میں بھی طبیبوں کے خلاف قانونی کارروائیاں ہوتی ہیں، لیکن وہاں فوج داری مقدمات کے بجائے دیوانی مقدمات بنتے ہیں۔بعض ماہرینِ صحت کے بہ قول یہ درست ہے کہ اس وقت ملک میں صحت کے شعبے میں بد عنوانی کی ایک بڑی وجہ ادویات تیار کرنے والے بعض اداروں کی پالیسیز بھی ہیں۔ ان کا بعض طبیبوں کے ساتھ گٹھ جوڑ ہے، جسے توڑنا ضروری ہے اور یہ اسی وقت ہو گا، جب طبیبوں کو حیاتیاتی اخلاقیات پڑھائی اور سکھائی جائیں گی۔

ضابطہ اخلاق کی اشد ضرورت

یہ 30اکتوبر 2017کی بات ہے۔پاکستان کی نیشنل بایو ایتھکس کمیٹی کےاس وقت کے ایک رکن، پروفیسر عامر جعفری نے ایک عالمی نشریاتی ادارے کے نمائندے سے گفتگوکرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان میں ڈاکٹروں کے لیے جدید دور کے تقاضوں کے مطابق ضابطہ اخلاق کی اشد ضرورت ہے۔پاکستان میں ان قوانین کی غیر موجودگی کے بارے میں کیے گئے سوال پر پروفیسر عامر جعفری کا کہنا تھا کہ 'پاکستان کی نیشنل بایو ایتھکس کمیٹی کے کام کا طریقہ ایسا ہے کہ اس کی توجہ کسی مسئلے کی جانب مبذول کرائی جاتی ہے جس پروہ سفارشات کے تحت عمل کرتی ہے۔اب تک تو سوشل میڈیا کے حوالے سے کوئی نئی تجویز نہیں آئی ہے، لیکن ہو سکتا ہے کہ پی ایم ڈی سی اور بایو ایتھکس کمیٹی اس بارے میں کوئی قوانین مرتب کریں۔اس گفتگو کے دوران پروفیسر عامر کا کہنا تھا کہ 'پاکستان میں میڈیکل اسکول اور اعلیٰ تعلیم کے مراکز میں بھی ڈاکٹروں کو اخلاقیات کے بارے میں تعلیم و تربیت نہیں دی جاتی اور سوشل میڈیا کے حوالے سے تو انہیں کوئی علم ہی نہیں ہے۔ اس لیے ضابطہ اخلاق کی اشد ضرورت ہے۔پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی) کا بنایا ہوا اخلاقیات کا ضابطہ بہت پرانا ہے اور سوشل میڈیا کے حوالے سے مسائل اب سامنے آ رہے ہیں۔دنیا بھر میںیہ نئے مسائل حل کرنے کے لیے ضابطہ اخلاق بنائے جا رہے ہیں اور اب نہ صرف پی ایم ڈی سی بلکہ اداروں اور میڈیکل کالجز کو بھی لازمی طور پر یہ قوانین بنانے چاہییں۔

پروفیسر عامر کا کہنا تھا کہ اس وقت کسی بھی قانون کی غیر موجودگی کی وجہ سے ڈاکٹرز کا سوشل میڈیا کا استعمال ذاتی فعل ہے اور ہر شخص اپنی حدود خود مقرر کر رہا ہے۔ پہلے ڈاکٹر اور مریض کا تعلق محدود حد تک تھا،لیکن اب سوشل میڈیا کی وجہ سے بڑھ گیا ہے اور ان کی ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی کا فرق مٹ سکتا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ ڈاکٹروں کو تعلیم دی جائے اور بتایا جائے کہ سوشل میڈیا کو کس طرح استعمال کرنا چاہیے۔ امریکا اوربرطانیہ میں ڈاکٹرزکے لیے مختلف قسم کے ضابطہ اخلاق موجود ہیں۔

تازہ ترین