رمضان المبارک کے روزوں سے متعلق مسلمانوں کو کسی طبّی تحقیق ،عقلی دلیل کی ضروت نہیں۔ یہ الہامی حُکم ہے، جس پر مِن و عن عمل ہم پر فرض ہے۔ تاہم، علمائے کرام اور محقّقین کی بے شمار تصانیف اور تحقیقات میں روزے کے روحانی، نفسیاتی، سماجی اور طبّی سمیت متعدد دیگر فوائد پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ مسلمانوں کو روزے رکھنے کا حُکم دینے کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اس حقیقت کی جانب بھی اشارہ کیا کہ پچھلی اُمّتوں پر بھی روزے اسی طرح فرض کیے گئے تھے، جیسے تم پر کیے جا رہے ہیں۔ چناں چہ عبادت کی یہ قسم تقریباً تمام مذاہب میں روزہ، فاسٹنگ، برت، اپاس، لنگھن، غرہ، صوم اور تیاگ وغیرہ کے نام سے موجود ہے، جب کہ مختلف انسائیکلو پیڈیاز میں روزے کا ذکر کچھ اس انداز میں کیا گیا ہے ۔’’روزہ یعنی غذا سے مکمل یا جزوی پرہیز، ایک ایسا آفاقی عمل ہے، جو مشرق و مغرب کی تقریباً سبھی تہذیبوں میں پایا جاتا ہے۔‘‘’’خاص مقاصد کے لیے یا اہم مقدّس اوقات کے دوران یا ان سے قبل روزہ رکھنا، دُنیا کے بڑے مذاہب کا خاصّہ ہے۔‘‘ ’’روزے کو یوں بیان کیا جاتا ہے کہ مذہبی اور اخلاقی مقاصد کے حصول کے لیے خوش دلی سے جسم کو ایک مقرّرہ مدت تک غذاؤں سے محروم رکھنا۔ اسی اساس کو دُنیا کے تمام مذاہب میں بہت مقبولیت حاصل رہی ہے۔تاہم، مختلف مذاہب اور اقوام میں اس کے محرّکات اور شکلیں مختلف رہی ہیں۔‘‘ ’’کوئی بھی شخص مذہبی روزوں کو کتنی ہی کم اہمیت کیوں نہ دے۔ یہ بات واضح ہے کہ اکثر قدیم اقوام نے بھی اس کو اپنایا ۔ مصریوں، فونیشیوں اور آشوریوں کے ہاں بھی ایسے ہی روزے پائے جاتے ہیں، جیسے یہودیوں کے ہاں پائے جاتے ہیں۔‘‘
روزے کی حقیقی روح
اسلام دُنیا کا دوسرا بڑا مذہب ہے اور روزہ اس کے پانچ ستونوں میں سے ایک ہے، جس کا مقصد طویل عبادت اور صبر کے ذریعے روحانیت میں اضافہ کرنا ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ رمضان ایک سالانہ تربیتی ورکشاپ ہے، جس میں نفس کو لگام دینے اور دوسرے کی بُھوک و پیاس کا کرب محسوس کرنے کے علاوہ انسانوں کی حاجت روائی اور قلب اور رُوح کی صفائی کی جاتی ہے اور یہی روزے کی حقیقی رُوح ہے۔ قرانِ کریم میں ارشادِ ربّانی ہے کہ ’’اے ایمان والو، تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں، جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے، تاکہ تم پرہیزگار بنو۔‘‘ (سورۃ البقرہ / 183) روزہ صبر کا دوسرا نام ہے اور صبر کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ’’صبر کرنے والوں کو بے حد وحساب اجر دیا جائے گا۔‘‘ اس لیے اس میں ریاکاری کا شائبہ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’روزہ میرا ہے، مَیں ہی اس کا بدلہ دوں گا، بندہ میری وجہ ہی سے اپنے کھانے پینے کو چھوڑتا ہے۔‘‘ قرآنِ کریم سے معلوم ہوا کہ روزے کا حقیقی مقصد تقویٰ کا حصول ہے اور تقویٰ وپرہیزگاری عبادات کی رُوح ہے۔ قرآنِ کریم اور احادیثِ نبویﷺمیں کم و بیش ہر عبادت اور نیک عمل کا بنیادی مقصد تقویٰ ہی کو قرار دیا گیا ہے۔
روزے کے مقاصد
روزے کا بنیادی مقصد تقویٰ، پرہیز گاری اور طہارت کا حصول ہے۔ جو خود بُھوکا نہ ہو، اسے بُھوک کی اور جو خود پیاسا نہ ہو، اُسے پیاس کی تکلیف کا احساس کیوںکر ہو؟ روزہ اسی احساس اور ایثار اور رحم دلی کے جذبات کو بیدار کرتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ’’حضور اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا، بہت سے روزہ دار ایسے ہیں کہ انہیں روزے کے ثمرات میں بجز بُھوکا و پیاسا رہنے کے کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا اور بہت سے شب بیدار ایسے ہیں کہ انہیں رات کے جاگنے (کی مشقت) کے سوا کچھ بھی نہیں ملتا۔‘‘ (ابن ماجہ، نسائی) یعنی وہ روزہ رکھنے کے باوجود دروغ گوئی، غیبت، چوری اور رشوت خوری سمیت دیگر گناہوں سے نہیں بچتے۔ لہٰذا، ہمیں اپنے روزوں کی قبولیت کی فکر کرنی چاہیے۔ حضرت ابوہریرہ ؓہی سے روایت ہے کہ ’’رسولِ اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا، ’’روزہ ڈھال ہے، لہٰذا روزہ رکھنے والا نہ بے ہودہ بات کرے اور نہ جاہلوں والے کام کرے، اگر کوئی اُس سے جھگڑا کرے یا اُسے بُرا بھلا کہے، تو وہ کہہ دے کہ مَیں روزہ دار ہوں۔‘‘ ایک حدیثِ قدسی حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ’’رسولِ اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا، ابنِ آدم کے ہر عمل کا ثواب بڑھتا رہتا ہے، اُسے ایک نیکی کا ثواب دس گُنا سے سات سو گُنا تک ملتا ہے، اور اس سے زاید اللہ جتنا چاہے، اُتنا ملتا ہے، مگر روزے سے متعلق اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ وہ تو میرے لیے ہے اور مَیں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔ روزہ دار اپنی خواہشات اور کھانے پینے کو میری وجہ سے چھوڑتا ہے۔‘‘ایک اور موقعے پر آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’’کتنے ہی روزہ دار ایسے ہیں کہ انہیں روزے سے بُھوک اور پیاس کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔‘‘ (مشکٰوۃ) رسولِ اکرمﷺ کا ارشادِ گرامی ہے کہ’’جب تُو روزہ رکھے، تو تیرے کان، تیری آنکھ، تیری زبان، تیرے ہاتھ اور تیرے تمام اعضاء ناپسندیدہ اور حرام باتوں سے رُکے رہیں۔‘‘
روزے کی حکمتیں
روزہ نہ صرف رُوح کی غذا ہے، بلکہ اس کے پسِ پردہ ایسی بے شمار دینی و دُنیاوی حکمتیں اور رموز کار فرما ہیں، جو صرف اللہ تعالیٰ روزہ دار کو عطا فرماتا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے کہ ’’اور روزہ رکھ لینا تمہارے لیے بہتر ہے، اگر تمہیں سمجھ ہو۔‘‘ (سورۃالبقرہ184 ) ٭ روزے کی پہلی حکمت تقویٰ ہے۔ تقویٰ حرام اشیا سے اجتناب کانام ہے، لیکن ایک روزہ دار تو روزے کی حالت میں حلال و طیّب چیزوں سے بھی دُور رہتا ہے۔ ٭روزے کی ایک حکمت صبر و شُکر کا حصول ہے۔ اس حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ انسان کسی نعمت سے محرومی پر شکوے شکایت کی بہ جائے صبر سے کام لے۔ روزہ ایک مسلمان سے صرف صبر ہی نہیں، بلکہ اس سے بھی بلند تر مقام یعنی مقامِ شکر پر پہنچنے کا تقاضا کرتا ہے۔ ٭ ایک روزہ دار جب بُھوک اور پیاس کے کرب سے گزرتا ہے، تو اس کے دل میں ایثار اور قربانی کا جذبہ اُبھرتا ہے۔ وہ عملاً اس کیفیت سے گزرتا ہے، جس کا سامنا معاشرے کے مفلوک الحال افراد روزانہ کرتے ہیں۔ اس احساس کا بیدار ہونا روزے کا لازمی تقاضا ہے۔٭ روزے کی چوتھی حکمت تزکیۂ نفس ہے۔ روزہ انسان کے قلب و باطن کو ہر قسم کی آلودگی اور کثافت سے پاک و صاف کر دیتا ہے۔ ٭روزے کی پانچویں حکمت رضائے خداوندی کا حصول ہے۔ اللہ تعالیٰ روزہ دار کو مقامِ رضا پر فائز دیکھنا چاہتا ہے اور مقامِ رضا یہ ہے کہ رب اپنے بندے سے راضی ہوجائے۔
بُھوک، انسانی جبلّت پر حاوی
درحقیقت، بُھوک، انسانی جبلت پر حاوی ہے۔ رمضان المبارک کا ایک مقصد کھانے کی مقدار میں کمی ہے، تاکہ بُھوک پر قابو پایا جا سکے۔ رمضان المبارک میں ایک وقت کا کھانا کم ہو جاتا ہے اور ہونا تو یہ چاہیے کہ عام دنوں کے مقابلے میں اس مہینے میں اشیائے خور و نوش کا تصرّف کم ہوجائے، لیکن ہمارا دسترخوان سُکڑنے کی بہ جائے پھیل جاتا ہے، جو روزے کی رُوح کے منافی ہے۔ روزے کا بنیادی مقصد لالچ، طمع اور ہوس کا خاتمہ ہے، تاکہ روزہ دار اپنی تمام تر توانائیاں عبادات پر صَرف کرے، لیکن ہم سحر و افطار میں عام دنوں سے بھی کھاتے پیتے ہیں، جس کے سبب بد ہضمی سمیت دیگر امراض کا شکار ہو جاتے ہیں۔ نیز، بیش تر افراد سحری کرنے کے بعد دن بَھر سوئے رہتے ہیں اور اپنی ذمّے داریوں سے غافل رہتے ہیں۔ یعنی رمضان المبارک میں صرف ہمارے کھانے پینے کے اوقات ہی بدلتے ہیں۔ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ کو کسی برتن کا بھرنا اتنا ناپسند نہیں، جتنا پیٹ کا بھرنا ناپسند ہے، ابنِ آدم کے لیے چند لقمے ہی کافی ہیں، جن سے کمر سیدھی رہے، اگر زیادہ ہی کھانا ہے، تو ایک تہائی پیٹ کھانے کے لیے رکھے، ایک تہائی پینے کے لیے اور ایک تہائی سانس کے لیے۔‘‘ (ترمذی شریف)
اہتمام کے نام پر غیر صحت بخش پکوانوں کی بھرمار
جو کھانے (ڈِشز یا پکوان) ہم سال بَھر نہیں کھاتے، ماہِ صیام میں اُن سے خوب انصاف کرتے ہیں۔ رمضان المبارک کے آغاز ہی سے خواتین چٹ پٹے پکوانوں کی تیاری میں مصروف ہو جاتی ہیں، جن میں چنے کی چاٹ، چٹنی، سموسے، پکوڑے، دہی بَھلے، بریانی، پلائو، شامی کباب، کھجلہ، پھینی، پراٹھے، پھلکیاں، کچوریاں اور فروٹ چاٹ نمایاں ہیں۔ پورا مہینہ ہی ان تَلی ہوئی، مرغّن غذائوں کی لذّت ہمارے حواس پر چھائی رہتی ہے، جو ہمیں روزے کی اصل رُوح سے دُور لے جاتی ہے۔ نیز، یہ غذائیں ہماری جسمانی صحت کے اعتبار سے بھی موزوں نہیں ہوتیں، جن میں شکر اور نمک کا ضرورت سے زاید استعمال کیا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ ایک اندازے کے مطابق غیر صحت بخش غذا سے دُنیا میں سالانہ ایک کروڑ 10لاکھ افراد کی موت واقع ہوتی ہے۔
شکر، نمک ، تَلی ہوئی چیزوں سے پرہیز کریں، خُوب نیند لیں
رمضان المبارک میں روزہ داروں کو نیند کو بھی اہمیت دینی چاہیے، کیوں کہ بھرپور نیند سے کھانے کی طلب میں کمی واقع ہوتی ہے۔ سحر و افطار کے دوران بہت زیادہ شکر، نمک اور تَلی ہوئی اشیا سے پرہیز کرنا چاہیے اور دسترخوان پر غذائیت کی حامل اشیائے خورونوش ہی موجود ہونی چاہئیں۔ افطار کے وقت مرغّن کھانے کھانے کے سبب رات کے کھانے کی گنجائش نہیں رہتی۔ لہٰذا، افطار کا دسترخوان ہلکی پُھلکی غذاؤں پر مشتمل ہونا چاہیے، تاکہ رات کا کھانا ترک نہ کرنا پڑے۔ سحر و افطار میں ایسی صحت بخش خوراک کھائیں کہ جو دیر سے ہضم ہوتی ہو، تاکہ آپ کو بُھوک اور نقاہت محسوس نہ ہو اور آپ دل جمعی کے ساتھ اپنے معمولات انجام دے سکیں۔ علاوہ ازیں، ہلکی پھلکی ورزش کو معمول بنائیں۔ یاد رہے کہ سحری کے بعد 8گھنٹے تک جسم معمول پر رہتا ہے اور اس دوران معدے میں موجود خوراک ہضم ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد جسم میں ذخیرہ شدہ گلوکوز کے استعمال کا مرحلہ آتا ہے۔ پھر جسم چربی کو توانائی کے حصول کے لیے استعمال کرتا ہے، جس کے نتیجے میں وزن اور کولیسٹرول میں کمی واقع ہوتی ہے اور ذیابطیس کا خطرہ بھی کم ہو جاتا ہے۔
کم خوراک، طویل زندگی
دُنیا بَھر میں بسیاری خوری کے باعث قبل از وقت اموات کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے، جب کہ اس کے مقابلے میں فاقہ کشی کرنے اور کم خوراک لینے والے افراد کی اموات کے تناسب میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ یعنی کم مقدار میں کھانے والے افراد ہی صحت مند اور طویل زندگی بسر کرتے ہیں۔ روزے کا ایک مقصد بُھوک پر قابو پانا اور بسیار خوری سے بچنا بھی ہے، جب کہ بسیار خوری سے بہت سی بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ امریکا کے ’’نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ‘‘ کے مطابق امریکا میں پھیلنے والے 80فی صد امراض کا تعلق خوراک سے ہے، جب کہ ایک جرمن جریدہ خوراک کے زاید استعمال کو مُہلک بتاتا ہے۔ چکنائی کے زاید استعمال سے خون میں شکر کی مقدار بڑھ جاتی ہے اور بلڈ پریشر میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں، خون میں ٹرائی گلیسرائیڈ کی مقدار زیادہ اور کولسٹرین کی کم ہو جاتی ہے۔ بسیار خوری کے باعث فربہی کا شکار ہونے والے افراد میں ذیابطیس، عارضۂ قلب، فالج اور کینسر جیسی مُہلک بیماریاں عام ہیں۔ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق عارضۂ قلب سے ایک کروڑ، کینسر سے 91ہزار 300اور ٹائپ ٹو ذیابطیس سے سالانہ 3لاکھ 39ہزار اموات ہوتی ہیں اور ان تمام امراض کا تعلق خوراک کے بے ہنگم استعمال سے ہے۔
مسلمانوں کی اوسط عُمر کم کیوں؟
اس وقت کُرّۂ ارض پر 224خود مختار ممالک یا ان کے ماتحت علاقے موجود ہیں اور ایک اندازے کے مطابق ان میں سے 58اسلامی ممالک ہیں۔ اگر ان ممالک کے باشندوں کی اوسط عُمر کا موازنہ کیا جائے، تو سب سے زیادہ اوسط عُمر مناکو کے باشندوں کی ہے، جو 89.40سال بنتی ہے۔ اس کے بعد جاپانی باشندوں کا نمبر آتا ہے، جن کی اوسط عُمر 85سال سے زاید ہے، جب کہ اوسط طویل عُمر کے لحاظ سے سرِفہرست 49ممالک میں کوئی اسلامی مُلک شامل نہیں۔79سال کی اوسط عُمر کے ساتھ بحرین کے باشندے 50ویں نمبرپر ہیں۔پہلے ایک سو ممالک کی فہرست میں صرف8اسلامی ممالک شامل ہیں، جب کہ اس فہرست میں پاکستان168ویں نمبرپر ہے اور پاکستانیوں کی اوسط عُمر68سال ہے۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر غیر اسلامی ممالک یا مغرب میں شراب نوشی سمیت دیگر برائیوں کی کثرت کے باوجودان ممالک کے باشندوں کی اوسط عُمرمسلمانوں کے مقابلے میں زیادہ کیوں ہے؟ خیال رہے کہ میڈیکل سائنس یہ ثابت کرچُکی ہے کہ روزہ رکھنے سے بڑھاپے کا عمل سُست ہو جاتا ہے، جسم میں نئے ہارمونز تخلیق پاتے ہیں اور عُمر میں اضافہ ہوتا ہے، تو کہیں ہم روزے کی رُوح سے تو دُور نہیں ہوگئے۔
معالج کب روزہ نہ رکھنے کا مشورہ دیتے ہیں؟
اگر ذیابطیس کے مریض کو دن میں دو مرتبہ سے زاید انسولین لینی پڑتی ہو، خون میں شکر کی سطح میں مسلسل کمی بیشی کا سامنا ہو، گزشتہ 6ماہ میں خون میں شکر کی سطح بلند ہونے سے اسپتال میں زیرِ علاج رہا ہو، لو بلڈ پریشر میں علامات ظاہر نہ ہوں، گردے، جگر، دل اور کم زور بینائی سمیت دیگر امراض کا سامنا ہو یا حاملہ ہو، تو ایسی صورت میں معالج روزہ نہ رکھنے کا مشورہ دے گا۔ نیز، اگر کسی فرد کو درمیانے درجے کی ذیابطیس لاحق ہے اور مریض پیچیدگیوں میں مبتلا نہیں، تو وہ بھی ڈاکٹر کی اجازت کے بغیر روزہ نہ رکھے، لیکن اگر متوازن غذاکی وجہ سے ذیابطیس قابو میں ہے، تو روزہ رکھا جاسکتا ہے۔
کس صورت میں روزہ توڑ دیں؟
اگر ذیابطیس کے مریض روزے سے ہوں اور اس دوران ہائپو گلائی سیمیا (خون میں شوگر کی کم سطح) کا شکار ہو جائیں، یعنی بلڈ شوگر59.4ملی گرام فی ڈیسی لیٹر یا اس سے کم ہو جائے یا اگر انسولین استعمال کرتے ہوں اور روزہ رکھتے وقت بلڈ شوگر 70.2ملی گرام فی ڈیسی لیٹر ہو، تو روزہ توڑ دیں اور فوری طور پر خالص پھلوں کا جوس پی لیں یا 5،7گلوگوز کی گولیاں یا جیلی نُما5ٹافیاں کھالیں۔
میڈیکل سائنس، روزے کی افادیت کی معترف
انسان پوری زندگی ہی روحانیت اور مادیّت کی کشمکش میں مبتلا رہتا ہے اور روزے کا مقصد رُوح کو نفسانی خواہشات کے اثرات سے بچانا ہے۔ روزہ عبادت تو ہے ہی، لیکن اس کے ساتھ ہی صحتِ انسانی کے لیے بھی بے حد مفید ہے۔ جدید طبّی سائنس روزے کی افادیت کی معترف ہے اور معالجین متعدد سرجریز اور طبّی معائنوں سے پہلے مریض کو خالی پیٹ رہنے کی تاکید کرتے ہیں۔ یعنی انہیں ایک مقرّرہ دورانیے میں کھانے پینے سے منع کیا جاتا ہے۔ ارشادِ خداوندی ہے کہ’’ تم روزہ رکھو، اس میں تمہارے لیے بھلائی ہے، جسے تم نہیں جانتے‘‘ (البقرہ)۔ علمِ تشریح الاعضاء بتاتا ہے کہ معدے کا بالائی حصّہ، فنڈس اپنے مقام کے اعتبار سے ڈایا فرام کے بالکل نیچے واقع ہوتا ہے، جو پھیپھڑوں کو حرکت دینے اور سانس لینے کے لیے اہم عضو ہے۔ جب ہم معدے کو کھانے سے بَھر لیتے ہیں، تو ڈایا فرام کو حرکت میں مشکل پیش آتی ہے اور اس صورت میں سانس لینا دشوار ہو جاتا ہے۔ محقّق، ایلن کاٹ لکھتا ہے کہ ’’روزے سے انسان کے نظامِ انہظام اور مرکزی دماغی یا اعصابی نظام کو مکمل آرام ملتا ہے اور غذا کے ہضم کرنے کا عمل نارمل حالت میں آجاتا ہے۔‘‘ بھارتی ماہرِ طب، شانتی رنگوانی’’دی میریکل آف فاسٹنگ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’روزے میں جسم کو نئی غذا نہیں ملتی۔ اس لیے جسم میں زہریلے مادّے پیدا نہیں ہوتے اور جگر یک سوئی سے پُرانے زہریلے مادّوں کو صاف کرتا ہے۔ چُوں کہ جسم کو ایندھن کی ضرورت ہے اور وہ پہلے سے موجود زہریلے مادّوں کو سب سے پہلے استعمال کرتا ہے، تو اس عمل سے خون صاف ہو جاتا ہے اور جلد پر تازگی آجاتی ہے۔‘‘ امریکی محقّق، ڈاکٹر جیمز بالچ لکھتے ہیں کہ ’’روزے کی حالت میں جسم ہضم کے عمل میں مشغول نہیں ہوتا، اس لیے جسم سے زہریلے مادّوں کا اخراج ممکن ہو جاتا ہے۔‘‘روزہ اندرونی جسمانی اعضاء کو آرام مہیا کرتا ہے، جس سے بڑھاپے کا عمل سُست اور زندگی طویل و صحت مند ہو جاتی ہے۔ عام دنوں میں ہم ضرورت سے زیادہ کیلوریز لیتے ہیں، جس کے سبب جسم کو دوسرے ضروری کاموں مثلاً اپنی مرمّت کے لیے مناسب وقت نہیں مل پاتا، جب کہ روزے کی صورت میں جسم اپنی توجّہ دوسرے افعال کی طرف مرکوز کر لیتا ہے۔ روزہ جسم کو مندمل ہونے اور جراثیم کا مقابلہ کرنے میں مدد دیتا ہے۔ متعدد تحقیقات کے نتائج سے پتا چلتا ہے کہ روزے رکھنے سے جسم اور خون کی کیمسٹری پر منفی اثرات مرتّب نہیں ہوتے۔ ایک ماہ تک یومیہ 17گھنٹے کھانے پینے سے اجتناب کرنے سے ہارمونز پر بھی کوئی اثر نہیں پڑتا۔ نیز، قوتِ مدافعت اور عُمر میں اضافہ ہوتا ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ روزہ رکھنے سے کئی فواید حاصل ہوتے ہیں، جن میں حد سے زاید وزن سے نجات بھی شامل ہے۔ روزہ رکھنے سے جینز میں بھی تبدیلی پیدا ہوتی ہے اور آئی جی ایف ون نامی ہارمون کی نشوونما میں کمی سے عُمر رسیدگی کا عمل سُست اور بڑھاپے کی بیماریوں کا خطرہ کم ہو جاتا ہے۔ جنوبی کیلی فورنیا یونی ورسٹی کے پروفیسر والٹر لونگو کہتے ہیں کہ ’’روزہ رکھنے سے آئی جی ایف ون کی سطح میں کمی واقع ہوتی ہے اور جسم ’’ری پیئر نگ مَوڈ‘‘ میں آ جاتا ہے اور کئی جینز متحرک ہو جاتے ہیں۔ گرچہ آئی جی ایف ون کی سطح بہت کم ہونے سے انسان کا قد چھوٹا رہ جاتا ہے، لیکن وہ دو اہم بیماریوں، کینسر اور ذیابطیس سے محفوظ رہتا ہے۔‘‘ شکاگو کی الونوا یونی ورسٹی سے وابستہ ڈاکٹر کرسٹا ویراڈی کا کہنا ہے کہ ’’اگر آپ پابندی سے روزے رکھیں، تو آپ کو دل کی بیماریوں کا خطرہ نہیں رہتا، چہ جائیکہ آپ عام دنوں میں زیادہ کھاتے ہیں یا کم۔‘‘ معالجین کا ماننا ہے کہ روزہ رکھنے سے جسم میں کوئی نقص یا کم زوری واقع نہیں ہوتی۔ 24گھنٹوں میں جسم کو مجموعی طور پر اتنے حرارے اور پانی کی اس قدر مقدار مل جاتی ہے، جتنی عام دنوں میں ملتی ہے۔ روزہ رکھنے سے دل کو آرام ملتا ہے۔ اسی طرح پھیپھڑوں پر بھی روزے کے براہِ راست اثرات مرتّب ہوتے ہیں اور اگر پھیپھڑوں میں خون منجمد ہو جائے، تو روزے کی وجہ سے بہت جلد یہ شکایت رفع ہو جاتی ہے۔ روزے کی حالت میں جب خون میں غذائی مادّے کم ترین سطح پر ہوتے ہیں، تو ہڈیوں کا گوداحرکت پزیر ہو جاتا ہے۔ خون میں سُرخ ذرّات کی تعداد زیادہ اور سفید کی کم پائی جاتی ہے ، مگر ایک مشاہدے کے دوران معلوم ہوا کہ صرف 12روز مسلسل روزے رکھنے سے خون کے خلیات کی تعداد 5 لاکھ سے بڑھ کر 36 لاکھ تک پہنچ گئی۔
’’ تمہارے جسم کا بھی تم پر حق ہے‘‘، فرمانِ نبویﷺ
اسلام دینِ فطرت ہے، کیوں کہ اس کے تمام تقاضے فطرت کے عین مطابق ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب کہتی ہے کہ ’’اللہ کسی پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔‘‘ ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ ’’نبی کریم ﷺ نے فرمایا، دین آسان ہے، لیکن جو اس میں سختی برتے گا، دین اسے پچھاڑ دے گا۔ اس لیے تمہیں چاہیے کہ سیدھی راہ پر چلو، میانہ روی اختیار کرو۔ لوگوں کو انعام کی نوید بھی دو اور صبح و شام اور رات کے خوش گوار وقتوں میں اللہ کی بندگی بجا لایا کرو۔‘‘ (بخاری، کتاب الایمان) عبداللہ بن عُمر کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسولﷺ نے اُنؓ سے فرمایا، ’’تم سمجھتے ہو کہ مجھے خبر نہیں ہوتی، حالاں کہ مَیں جانتا ہوں کہ تم رات بَھر قیام کرتے ہو اور دن میں روزہ رکھتے ہو۔‘‘ تو عبداللہ بن عُمرؓ نے جواب دیا، ’’جی ہاں، مَیں ایسا کرتا ہوں۔‘‘ یہ سُن کر آپ ﷺ نے فرمایا کہ ’’تم ایساکرتے ہو، تو یاد رکھو کہ تمہاری آنکھیں اندر دھنس جائیں گی، جسم کم زور ہو جائے گا، جب کہ تمہیں خیال رکھنا چاہیے کہ تمہارے جسم کا بھی تم پر حق ہے اور تمہارے گھر والوں کا بھی۔ اس لیے روزے رکھو، تو وقفہ بھی کرو۔ رات میں قیام کرو، تو سویا بھی کرو۔‘‘(بخاری، کتاب التہجد)
ماہِ صیام… مسلمانانِ عالم کی ثقافتی سرگرمیاں
زہد و تقویٰ سے قطع نظر، رمضان کا مبارک مہینہ مسلمانوں کو ایک دوسرے کے قریب لا کر اجتماعیت کو بھی فروغ دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماہِ صیام میں رواداری، احساسِ قُربت اور ایثار کی مثالیں جا بہ جا دکھائی دیتی ہیں۔ نیز، کئی ممالک میں ثقافتی سرگرمیاں بھی دیکھنے میں آتی ہیں اور گلیوں کو برقی قمقموں سے سجا کر رمضان کا استقبال کیا جاتا ہے۔ گرچہ گلی کُوچوں میں لالٹین آویزاں کر کے استقبالِ رمضان کا آغاز مصر سے ہوا، لیکن آج کئی ممالک میں ماہِ صیام کے دوران گھروں، شاپنگ مالز، کاروباری مقامات اور مساجد کو قِندیلوں سمیت دیگر برقی قمقموں سے منوّر کرنے کا رواج عام ہے، جب کہ انڈونیشیا کے جاوا جزائر پر ماہِ رمضان کی تیاری کے سلسلے میں چشموں میں غسل کرنے کی روایت قائم ہے۔ پھر افطار ایک سماجی ملاپ کا انداز اختیار کر چُکا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں مختلف ہوٹلوں، ریستورانوں اور میدانوں میں افطار کی تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ اسی طرح لبنان کے دارالحکومت، بیروت میں افطار کے خصوصی کٹورے تیار کیے جاتے ہیں۔ ممبئی کی گلیوں میں سحری کے لیے اُٹھانے والے زور زور سے دروازے پر دستک دیتے اور آوازے لگاتے ہیں، جب کہ دہلی کی جامع مسجد کے گرد و نواح میں ’’رمضان واک‘‘ کا دل چسپ سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔ رمضان کے مہینے میں بیش تر عرب ممالک کے باشندے بلا امتیازِ مذہب و ملّت دن میں کُھلے عام کھانے پینے سے گریز کرتے ہیں، جب کہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارت اور قطر سمیت کئی عرب ممالک میں تو روزہ نہ رکھنے والے مسلمانوں کے دن میں کھانے پینے پر قانوناً پابندی عاید ہے اور اس کی خلاف ورزی کرنے والوں کو سزا بھی ہو سکتی ہے۔
محدود وقت کے لیے کھانا ترک کرنےکا جدید تصوّر
محدود وقت کے لیے کھانا پینا چھوڑ دینا ایک قدیم رواج ہے اور مختلف ادوار میں اس طریقۂ کارکو صحت کا راز قرار دیا گیا۔ محدود وقت کے لیے فاقہ کَشی کو Intermittent Fasting ( آئی ایف) کہا جاتا ہے اور یہ دُنیا کے مقبول صحت و تن دُرستی کے رجحانات میں سے ایک ہے۔ محدود وقت کی فاقہ کشی کے اس طریقۂ کار میں دِل چسپی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 2000ء کے بعد اس کی آن لائن سرچ میں 10ہزار فی صد اضافہ دیکھا گیا۔ آج مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے افراد وزن میں کمی، صحت کی بہتری اور اپنے طرزِ زندگی کو سادہ بنانے کے لیے اس طریقۂ کار پر عمل پیرا ہیں۔ آئی ایف کوئی ڈائٹنگ پلان نہیں ہے، بلکہ اس میں عام طور پر ہفتے میں ایک مرتبہ 16یا 24کا فاقہ کیا جاتا ہے۔ مقبول طریقۂ کار میں سرِفہرست ’’لینگینز پرٹوکول‘‘ ہے، جس میں ناشتا ترک کر دیا جاتا ہے ۔ 8گھنٹے تک کچھ نہیں کھایا جاتا اور اس کے بعد 16گھنٹے فاقہ کیا جاتا ہے۔ دوسرے طریقے میں ہفتے میں دو مرتبہ 24گھنٹے کی فاقہ کَشی کی جاتی ہے اور ایک ڈنر سے اگلے ڈنر تک کچھ نہیں کھایا جاتا۔ تیسرے طریقے میں مسلسل دو روز 500سے600کیلوریز لی جاتی ہیں۔ ماہرین کے مطابق آئی ایف سے زندگی میں سادگی آتی ہے اور تناؤ ختم ہو جاتا ہے۔
نیز، جب آپ بُھوکے رہتے ہیں، تو جسم زندگی کی طوالت کا راستہ تلاش کرتا ہے۔ 1945ء کی ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ اس طریقۂ کار کو سب سے پہلے چوہوں پر آزمایا گیا، جس کے نتیجے میں وہ زیادہ عرصے تک زندہ رہے۔ علاوہ ازیں، آئی ایف سے کینسر کے خطرات بھی کم ہو جاتے ہیں۔ کینسر کے 10مریضوں پر کی گئی تحقیق میں بتایا گیا کہ علاج سے قبل فاقہ کرنے سے کیمو تھراپی کے منفی اثرات میں کمی واقع ہوئی۔ اس طریقۂ کار سے کینسر کے خطرات اور دل کے امراض میں بھی کمی دیکھی گئی۔ ڈائٹنگ کی بہ جائے یہ وزن کم کرنے کا مناسب طریقہ ہے۔ آئی ایف کے دیگر فواید میں چربی میں کمی، خون میں موجود شکر کی سطح میں کمی، ذیابطیس ٹو سے ممکنہ بچاؤ، ذہنی صحت میں بہتری، جسمانی توانائی میں اضافہ، بلڈ کولیسٹرول میں بہتری اور الزائمر کے خطرات میں کمی شامل ہے۔
دیگر مذاہب میں روزے کا تصوّر
’’روزے کا تصوّر کسی نہ کسی صُورت میں دُنیا کے تقریباً ہر مذہب اور ہر قوم میں پا یا جاتا ہے۔‘‘ (تفسیر ماجدی) بودھ مَت کے قریباً تمام فرقوں سے تعلق رکھنے والے افراد سال میں چند روز ضرور روزہ رکھتے ہیں۔ مورمونز سے تعلق رکھنے والے افراد ہر مہینے کے پہلے اتوار کو روزہ رکھتے ہیں۔ بہائی مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد بہائی سال کے 19ویں مہینے میں،جو ’’ایلا‘‘ کہلاتا ہے، یعنی 2سے 20مارچ تک روزے رکھتے ہیں۔ جین مت میں روزے کی سخت شرائط ہیں اور ان کے ہاں 40،40دن تک کا روزہ ہوتا ہے۔علاوہ ازیں، پارسیوں کے ہاں بھی روزے کا تصوّر موجود ہے۔ذیل میں اسلام کے علاوہ تین مذاہب میں روزے کا تفصیلی ذکر بیان کیا جارہا ہے:
یہودیت :یہودیت میں دو روزے فرض ہیں، جن میں’’یوم کپور‘‘(یومِ کفّارہ) اور’’ تشاباؤ‘‘ کا روزہ شامل ہے۔ یہ روزہ غروبِ آفتاب سے اگلے روز اندھیرا چھا جانے تک ہوتا ہے اور اس کا دورانیہ تقریباً 25گھنٹے ہوتا ہے۔ یہودیوں کے روزے میں کھانے پینے، نہانے، چمڑے کے جوتے پہننے، کریم یا لوشن، تیل یا پرفیوم استعمال کرنے اور ازدواجی تعلقات قائم کرنے کی ممانعت ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ بھی 4روزے ہیں، جو صبحِ صادق سے غروبِ آفتاب تک ہوتے ہیں۔ نیز، یہودی مذہبی رہنماؤں کی صوابدید پر بھی کچھ روزے رکھے جاتے ہیں۔ یہودی دولھا اور دلہن پاکیزگی اور تقدّس کے ساتھ اپنی ازدواجی زندگی شروع کرنے کے لیے اپنی شادی کے دن روزہ رکھتے ہیں۔ پرہیزگار یہودی ہر جمعرات اور پیر کو روزہ رکھتے ہیں۔ ان کا عقیدہ ہے کہ موسٰیؑ جمعرات کو طورِ سینا پر گئے اور پورے 40روز بعد پیر کو واپس آئے۔ علاّمہ شبلی نعمانی اور سیّد سلیمان ندوی اپنی مشہورِ زمانہ تصنیف،سیرت النبیﷺ کی جلد سوم میں لکھتے ہیں کہ ’’یہودیوں میں روزہ فریضۂ الٰہی ہے۔ حضرت موسیٰؑ نے کوہِ طور پر 40دن بُھوکے پیاسے گزارے، چناں چہ عام طور سے یہود حضرت موسیٰؑ ؑ کی پیروی میں 40دن روزہ رکھنا اچھا سمجھتے ہیں، لیکن 40دن کا روزہ ان پر فرض ہے، جو ان کے ساتویں مہینے (تشرین) کی دسویں تاریخ کو پڑتا ہے۔ اسے عاشورہ (دسواں) بھی کہتے ہیں۔ اسی دن موسی ٰ ؑ کو تورات کے 10احکامات عنایت ہوئے،اسی لیے تورات میں روزے کی نہایت تاکید آئی۔ان کے ہاں روزے کا ایک مقصد روحانیت پر توجّہ مرکوز کرنے کے لیے جسمانی سرگرمیوں کو کم کرنا ہے۔‘‘
عیسائیت :ابتدائی دور کے عیسائی ایسٹر سے پہلے 40دن تک روزے رکھتے تھے،مگراتوار کا استثنیٰ ہوتا تھا۔ انجیل کی تعلیمات کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے 40دن اور 40رات روزے رکھے تھے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے روزے کے بارے میں اپنے حوّاریوں کو یہ ہدایت بھی فرمائی ہے کہ روزہ خوش دلی کے ساتھ رکھا جائے ، چہرہ اداس نہ بنایا جائے اور نہ ہی بُھوک و پیاس سے پریشان ہو کر چہرہ بگاڑا جائے۔ بائبل میں لفظ، روزہ (fast) عبرانی زبان کے لفظ، سم (sum) سے اخذ کیا گیا ہے، جس کا مطلب ہے، ’’منہ کو ڈھکنا‘‘ یا یونانی لفظ، nesteuo سے ماخوذ ہے، جس کا مطلب ’’پرہیز کرنا‘‘ ہے۔ عیسائیت میں روزہ رکھنے کا اصل مقصد کھانے پینے سے مکمل پرہیز ہے۔ عیسائیت میں 7قسم کے روزے ہیں، جن میں THE JESUS ،THE APOSTLE PAUL،
THE MOSES،THE JOHN, THE BAPTIST ،THE JOELاورTHE JONAH کے نام سے موسوم روزے شامل ہیں۔آج کل عیسائیوں کے مختلف فرقوں میں روزوں سے متعلق الگ الگ نظریات پائے جاتے ہیں۔ کیتھولک سے تعلق رکھنے والے افراد ’’ایش وینس ڈے‘‘ اور ’’گڈ فرائیڈے‘‘ کو روزہ رکھتے ہیں اور نفس کشی کی مدّت میں آنے والے تمام جمعے کے دنوں میں گوشت کھانے سے پرہیز کرتے ہیں، جب کہ پروٹسٹنٹ فرقے میں اب روزے کو انسان کی مرضی پر چھوڑ دیا گیا ہے۔
ہندو مت :برت(روزہ) ہندو مذہب کے بنیادی معمولات میں سے ہے۔ اس مذہب کے پیرو کاروں کو دیوی اور دیوتاؤں کی خاطر ہفتے میں ایک، دو یا تین مرتبہ برت رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ہر ہندی مہینے کی گیارہ اور بارہ تاریخ کو اکاوشی کا روزہ ہوتا ہے اوراس حساب سے سال میں 24روزے بنتے ہیں۔ سماجی حیثیت سے قطع نظر، 8سال سے 80برس تک کے تمام افراد کواس دن کھانے اور پانی دونوں سے پرہیز کرنا ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں، نئے چاند کے موقعے پر، شیوراتری اور سرسوتی جیسے تہواروں پر برت رکھنا عام ہے۔بعض جوگی چلّہ کشی کرتے ہیں ، یعنی چالیس دن تک کھانے پینے سے پرہیز کرتے ہیں، جب کہ بعض برہمن کارتک کے ہر پیر کو برت رکھتے ہیں۔بعض برت صرف خواتین کے لیے مخصوص ہیں۔ مثال کے طور پر شادی شدہ اور غیر شادی شدہ ہندو خواتین کارتک کے مہینے میں پورے چاند کی چوتھی رات میں اپنے شوہر یا منگیتر کی صحت، تندرستی اور طویل عُمرکے لیے ’’کڑوا چوتھ‘‘ نامی تہوار مناتی اور اس دن برت رکھتی ہیں ۔ پھر وہ دن ختم ہونے پر چاند کو چھلنی کے ذریعے دیکھ کر اپنے شوہر یا منگیتر کی شکل دیکھنے کے بعد برت کھول لیتی ہیں۔ہندومت میںروزے کا بنیادی مقصد روحانی فوایدحاصل کرنا ہے۔ عموماً برت کا دورانیہ طلوعِ آفتاب سے غروب ِآفتاب تک 12گھنٹے یا رات12بجے سے اگلی رات 12بجے تک یعنی 24گھنٹے ہوتا ہے۔