کراچی(جنگ نیوز)سینئر تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ، ایم کیو ایم کی سیاست پہلے دن سے الطاف حسین کے گرد چل رہی ہے متحدہ میں دراڑیں پیدا ہونا ایم کیو ایم اور الطاف حسین کیلئے لمحہ فکریہ ہے، الطاف حسین پر شراب پینے کا الزام لگاتے ہیں تو پھر یہ لوگ کاغذ پنسلیں لے کر اس شرابی آدمی کی تقریریں کیوں نوٹ کرتے تھے۔مظہر عباس، سلیم صافی، افتخار احمد، حسن نثار، امتیاز عالم اور بابر ستار نے ان خیالات کا اظہار جیو نیوز کے پروگرام ”رپورٹ کارڈ“ میں میزبان عائشہ بخش سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ مظہر عباس نے کہا کہ رضا ہارون کی مصطفی کمال گروپ میں شمولیت ایم کیو ایم کیلئے زیادہ بڑا دھچکا نہیں ہے، ایم کیو ایم میں فرد اہم نہیں ہوتا ہے،ایم کیو ایم کی سیاست پہلے دن سے الطاف حسین کے گرد چل رہی ہے، ایم کیو ایم کی سیاست کی بنیاد منزل نہیں رہنما چاہئے کا نعرہ تھا جس کے گرد پوری پارٹی ہے، آج بھی الطاف حسین کے بارے میں کچھ بھی کہیں لیکن ووٹر انہیں ہی ووٹ دیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مصطفی کمال ، انیس قائم خانی اور رضا ہارون ایم کیو ایم کے نمایاں چہرے تھے، جو مزید لوگ مصطفی کمال کے ساتھ آنے والے ہیں وہ بھی تنظیمی سطح پر بڑے کامیاب لوگ رہے ہیں، ایم کیو ایم کیلئے سوچنے کی ضرورت ہے کہ وہ کیوں اپنے اسٹرکچر کو بچا نہیں پارہی ہے، الیکشن میں بڑی کامیابی کے بعد ایم کیوا یم میں دراڑیں پیدا ہونا ایم کیو ایم اور الطاف حسین کیلئے لمحہ فکریہ ہے،انہیں ان وجوہات کا ادراک کرنا ہوگا جس کی وجہ سے لوگ انہیں چھوڑ کر جارہے ہیں۔مظہر عباس کاکہناتھا کہ ایم کیو ایم کے فاشزم کے دائرے کی تحقیقات کی جائیں تو بہت سے نان سویلین کردار بھی سامنے آتے ہیں، جنہوں نے ایم کیو ایم ، عسکریت پسندی اور شہر میں قتل و غارت گری کو پروموٹ کیا، 92ء کے آپریشن میں جس طرح ایم آئی اور آئی ایس آئی کی آپس میں لڑائی ہوئی وہ ہمارے لئے مثال ہے کہ کس طرح سے سندھ کی سیاست کو کبھی را کے چکر میں، کبھی عسکریت پسندی کے چکر میں، کبھی پنجابی کو مہاجر سے لڑایا گیا، کبھی بلوچ کو مہاجر سے لڑایا گیااور سندھی مہاجر تنازع پیدا کیا گیا، کراچی کے مسئلہ کو سمجھنے کیلئے یہ ساری چیزیں دیکھنا پڑیں گی۔ امتیاز عالم کا کہنا تھا کہ مصطفی کمال گروپ میں رہنماؤں کی شمولیت کا ڈرامہ ابھی چلنا ہے، ایک ایک کر کے رہنماؤں کا سامنے آنا میڈیا وار کا حصہ ہے، مجھے ان میں سے کوئی لیڈر نظر نہیں آتا، یہ زیرو جمع زیرو جمع زیرو برابر زیرو ہیں، یہ بات پریشان کن ہے کہ یہ سب اچانک کیسے بلوں سے نکل آئے، انہیں اچانک عقل کیسے آگئی، لگتا یہی ہے کہ یہ سب دباؤ میں ہیں اور کوئی ان کی ڈوری ہلارہا ہے، یہ جو ڈرامہ چل رہا ہے ہم ماضی میں بھی دیکھتے آئے ہیں، جن لوگوں کو سیاسی انجینئرنگ کا شوق ہے وہ خدارا اب یہ شوق بند کردیں،رینجرز کی ایم کیو ایم کیخلاف کارروائیاں، رہنماؤں پر پل کے پار جانے کا دباؤا ور الطاف حسین کی زبان بندی ملتی جلتی کڑیاں ہیں۔امتیاز عالم کا کہنا تھا کہ مصطفی کمال کی بے نام پارٹی کے مقاصد ابھی تک سامنے نہیں آئے، ایسی پارٹی میں نے زندگی میں نہیں دیکھی جس کا نہ نام ہو اور نہ مقاصد کا پتا ہو، مصطفی کمال گروپ دہشتگردی ، بھتہ خوری کے بار ے میں کیا کہتا ہے، انیس قائم خانی اور دیگر خود ان کاموں میں ملوث رہے ہیں یہ کون کون سے جرائم کا اعتراف کرنے کیلئے تیار ہیں، کیا مصطفی کمال کا بارہ مئی سے تعلق نہیں تھا، کیا انیس قائم خانی کا بوری بند لاشیں ملنے سے تعلق نہیں تھا، کیا مصطفی کمال اور ان کے ساتھی ان جرائم کی مذمت کرتے ہوئے اپنا اقرار کرتے ہیں۔ امتیاز عالم نے کہا کہ مصطفی کمال کا عام معافی دینے کا مطالبہ کیسے قبول کیا جاسکتا ہے، سانحہ بلدیہ ٹاؤن کے ذمہ داروں یا معصوم شہریوں کو مارنے والے لوگوں کو کیسے معافی دی جاسکتی ہے، مصطفی کمال ایسے لوگوں کے وکیل کیوں بن رہے ہیں، کیا یہ اپنا فاشسٹ گروپ بنانا چاہتے ہیں، اگرریاست بھی بلدیہ ٹاؤن کے ملزمان کو معاف کرنے کا فیصلہ کرتی ہے تو وہ انسانیت کے خلاف جرم کرے گی۔ حسن نثار نے کہا کہ ایم کیو ایم کے رہنماؤں کی وقفہ وقفہ سے مصطفی کمال گروپ میں شمولیت حکمت عملی کا حصہ ہے، رضا ہارون اور دیگر رہنماؤں کی مصطفی کمال گروپ میں شمولیت ایم کیو ایم کیلئے بڑا دھچکا ہے، ایم کیوا یم تبدیل ہوچکی ہے۔سلیم صافی نے کہا کہ مصطفی کمال اور انیس قائم خانی کو ماضی میں آفاق احمد اور عامر خان سے تشبیہ دینا مناسب نہیں ہے، مصطفی کمال اگر ایم کیو ایم کیخلاف کچھ کرنے کے بجائے تشدد سے نتھی لوگوں کیخلاف بولیں گے تو یہ ان کیلئے زیادہ فائدہ مند ہوگا، لیکن اگر وہ کسی اور کے ایجنڈے پر چلتے ہوئے مہاجر کمیونٹی اور ایم کیو ایم کے کاز کو نقصان پہنچانے کی کوشش کریں گے تو یہ ان کیلئے بہتر نہیں ہوگا،ایم کیو ایم میں موجود گھٹن اب ختم ہونے والی ہے۔افتخار احمد نے کہا کہ مصطفی کمال کی کامیابی کا اندازہ 23 مارچ کو ہوگا، مصطفی کمال ایک ایسی پارٹی کو جنم دینے جارہے ہیں جو کراچی میں مزید اختلافات پیدا کرے گی، اگر مصطفی کمال اور ان کے ساتھی رہنما الطاف حسین پر شراب پینے کا الزام لگاتے ہیں تو پھر وہ لوگ کاغذ پنسلیں لے کر اس شرابی آدمی کی تقریریں کیوں نوٹ کرتے تھے، میرے خیال میں کچھ لوگوں کے بیان کے بعد ایم کیو ایم کو سپریم کورٹ میں جاکر پابندی لگادی جائے گی، کروڑوں لوگ ایم کیو ایم کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں، ان کیلئے اپنی سوچ کو بدلنا اور اس سوچ کے بدلنے کے عمل میں کوئی غلطی ہوگئی تو اس کا نقصان کراچی اور کراچی کے عوام کو ہوگا۔ افتخار احمد نے بتایا کہ آج میری مصطفی عزیز آبادی سے بات ہوئی ہے جنہوں نے مجھے یقین دلایا ہے کہ چند روز میں وہ بھی ایک سرپرائز دیں گے، افتخار احمد نے مزید بتایا کہ مصطفی عزیز آبادی نے انہیں کہا کہ 23مارچ کو ہونے والا جلسہ ہونے دیجئے ایسے جلسوں کی ضرورت ہے تاکہ مزید لوگ بھی ایکسپوز ہوں، ہم کچھ بھی نہیں ہیں اصل طاقت کارکن ہیں، ہم تب دیکھیں گے جب کارکن اپنے فیصلے کا اعلان کریں گے، مصطفی کمال کے ساتھ جو لوگ ہیں وہ اپنے مفادات کے تحت کہیں بھی جاسکتے ہیں، الطاف حسین نے لندن میں بی بی سی کے پاکستانی نمائندے سے بات کی ہے، ایم کیو ایم اتنی بڑی پارٹی ہے جو اتنی آسانی سے ختم نہیں ہوگی جیسا کہ کچھ لوگ چاہتے ہیں۔ افتخار احمد نے بتایا کہ مصطفی عزیز آبادی نے بھی مجھ سے مصطفی کمال کے بارے میں یہی سوال کیے جو ابھی امتیاز عالم نے اٹھائے ہیں، پہلا سوال لسانیت، دوسرا ان کا مقصد کیا ہے، تیسرا ان کی جماعت کا نام کیا ہے اور انہیں یکدم کیسے خیال آگیا کہ اب ہمیں پاکستان کی ٹکٹیں کٹا کر پاکستان جانا چاہئے، مصطفی عزیز آبادی نے حیرانگی کا اظہار بھی کیا کہ سوشل میڈیا پر قائم خانی موومنٹ کا قیام عمل میں آگیا ہے، ابھی سے قائم خانی موومنٹ علیحدہ ہوگئی ہے، دیکھنا ہوگا کہ یہ قائم خانی موومنٹ کیا چیز ہے۔ بابر ستار نے کہا کہ ایم کیو ایم مصطفی کمال کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ کا نعرہ لگا کر اپنے خلاف الزامات کا جواب نہیں دے رہی ہے، ایم کیوا یم وقت کے ساتھ کمزور ہوئی ہے، الطاف حسین کا شکنجہ کمزور ہوا ہے اور لوگ باہر نکل کر بات کرنے کی ہمت کررہے ہیں، مصطفی کمال اور دیگر رہنماؤں کی علیحدگی کے بعد ایم کیو ایم کو تبدیل ہونا پڑے گا۔