حالیہ دور میں سائنس کے میدان میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین نے بھی گراں قدر خدمات انجام دی ہیں، جس کا اندازہ سائنس کے مختلف شعبہ جات میں خواتین کی جانب سے نوبل انعام پانے کے اعدادوشمار کو دیکھ کر بھی لگایا جاسکتا ہے۔29سالہ کیٹی بومن بھی ایک ایسی ہی باصلاحیت کمپیوٹر سائنٹسٹ ہیں، جن کے نام کی ان دنوں دنیا بھر میں بہت دھوم ہے۔
بلیک ہول کیا ہے؟
بلیک ہول آنکھ سے نہیں دیکھا جاسکتا اور وہ 40ارب کلومیٹر طویل یا زمین سے 30لاکھ گنا بڑا ہے۔ اس بلیک ہول کا حجم ہمارے پورے نظام شمسی سے بھی بڑا ہے۔
کیٹی بومن کا کارنامہ
یہ امریکا سے تعلق رکھنے والی نوجوان کمپیوٹر سائنٹسٹ کیٹی بومن کا ہی کارنامہ ہے کہ آج دنیا بلیک ہول یعنی روزن سیاہ کی پہلی تصویر دیکھ پائی ہے۔ کیٹی بومن کی قیادت میں ان کی ٹیم نے وہ کمپیوٹر پروگرام بنایا، جس کے ذریعے یہ سائنسی کارنامہ ممکن ہو سکا، جو کہ کچھ عرصہ پہلے تک ناممکنات میں شمار ہوتا تھا۔ تصویر میں زمین سے 500ملین ٹریلین یعنی 5 ہزار کھرب کلومیٹر دور ایک بلیک ہول دیکھا جاسکتا ہے، جس میں دھول اور گیس کا ہالا نظر آرہا ہے۔ اس سے قبل سائنسی حلقوں میں یہ تصور تھا کہ اس طرح کی تصویر لینا شاید ممکن نہ ہو۔ کیٹی بومن اس بڑے کارنامے پر انتہائی خوش ہیں۔
منصوبے کا آغاز
یہ تین سال قبل کی بات ہے جب کیٹی بومن، میساچوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں گریجویشن کی طالب علم تھیں کہ انھوں نے بلیک ہول کی تصویر لینے والا الگورتھم بنانا شروع کیا۔ وہاں وہ اس منصوبےکی سربراہ تھیں، جب کہ اس کے لیے انھیں کمپیوٹر سائنس اینڈ آرٹیفیشل انٹیلی جنس لیبارٹری ایم آئی ٹی، ہارورڈ اسمتھ سونین سینٹر فار ایسٹرو فزکس اور ایم آئی ٹی ’ہئے ا سٹیک آبزرویٹری‘ کی معاونت بھی حاصل رہی۔
بلیک ہول کی تصویر
بلیک ہول کی یہ تصویر ایونٹ ہورائزن ٹیلی اسکوپ یا ای ایچ ٹی نے بنائی جو کہ آٹھ دور بینوں کا ایک دوسرے سے جڑا نیٹ ورک ہے۔ لیکن ان الگ الگ دوربینوں کی بنائی ہوئی تصویروں کو ’رینڈر‘ یا یکجا ڈاکٹر کیٹی بومن کے الگورتھم نے کیا۔ بلیک ہول کی غیرمعمولی تصویر جاری ہونے کے بعد چند ہی گھنٹوں میں ڈاکٹر کیٹی بومن، بین الاقوامی سطح پر معروف نام بن گئیں اور ان کا نام ٹوئٹر پر ٹرینڈ کرنے لگا۔ ایم آئی ٹی اور اسمتھ سونین نے بھی سوشل میڈیا پر ان کی تعریف کی۔
ایم آئی ٹی میں دورانِ تعلیم یہ منصوبہ شروع کرنے والی ڈاکٹر کیٹی بومن اس وقت امریکا کے کیلیفورنیا انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ ڈاکٹر بومن اس کامیابی میں اپنی ٹیم کو بھی برابر کا کریڈٹ دیتی ہیں اور کہتی ہیں کہ ان کی ٹیم نے ہی اس خواب کو حقیقت بنایا۔ ’’ان میں سے کوئی بھی ایک شخص اپنے طور پر یہ کام نہیں کر سکتا تھا۔ یہ اس لیے ممکن ہوسکا، کیونکہ مختلف طرح کا کام کرنے والے بہت سارے لوگ اس پر مل کر کام کر رہے تھے‘‘، وہ کہتی ہیں۔ بلیک ہول کی تصویر لینے کے لیے انٹارکٹیکا سے لے کر چلی تک پھیلے ہوئے دوربینوں کے نیٹ ورک کا استعمال کیا گیا اور اس کام میں200سے زیادہ سائنسدان شامل تھے۔
اس بات کو اس طرح بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ ڈاکٹر بومن اور دیگر سائنسدانوں نے مل کر ایسے الگورتھمز کا سلسلہ تشکیل دیا، جنھوں نے مختلف دوربینوں سے حاصل ہونے والے ڈیٹا کو اس تاریخی فوٹوگراف میں تبدیل کیا۔ میتھ میٹکس اور کمپیوٹر سائنس میں الگورتھم ایک ایسا عمل یا اصولوں کا مجموعہ ہے، جن کے ذریعے پیچیدہ مسائل کا حل نکالا جاتا ہے۔ کوئی ایک ٹیلی سکوپ بھی اتنی طاقتور نہیں ہے، جو بلیک ہول کی تصویر بنا سکتی ہو، اس لیے انٹرفیرومیٹری نامی تکنیک استعمال کرتے ہوئے آٹھ دوربینوں کا ایک نیٹ ورک قائم کیا گیا۔ ان دوربینوں کو سیکڑوں کمپیوٹرز پر محفوظ کیا گیا اور انھیں امریکا کے شہر بوسٹن اور جرمنی کے شہر بون میں قائم مرکزی پراسسنگ سینٹرز میں بھیجا گیا۔
اس کے بعد ان الگورتھمز کا تجزیہ چار الگ الگ ٹیموں نے کیا تاکہ ان کی دریافت کے بارے میں مکمل اعتماد کیا جاسکے۔ کیٹی بومن کہتی ہیں، ’’ہماری ٹیم میں فلکیات دان، فزکس کے ماہرین، ریاضی دان اور انجینئرز شامل تھے، اسی وجہ سے ہم اتنی بڑی کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکے، جو کہ پہلے ناممکن تصور کی جاتی تھی‘‘۔