• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
صدائے تکبیر … پروفیسر مسعودا ختر ہزاروی
روزہ امم سابقہ میں بھی فرض رہا اور اس کے بے شمار فوائد اور حکمتیں ہیں،امریکی ڈاکٹر (Paul Bragg) نے روزے کے فوائد اور حکمتوں پر ایک جامع کتاب بعنوان’’ The Miracle of Fasting‘‘ لکھی اس کتاب میں موصوف ڈاکٹر صاحب نے روزے کے جسمانی، ذہنی اور روحانی فوائدپر انتہائی تفصیل اور سائنسی استدال کے ساتھ روشنی ڈالی ہے۔خیر و برکت، روحانی تربیت اور احتسابِ ذات کا مہینہ ’’رمضان المبارک‘‘ عنقریب جلوہ گر ہونے والا ہے۔ قدرتی طور پر اس موسم میں مسلمانوں کے مذہبی جذبات میں تازگی آتی ہے اور عبادات کی طرف وفورشوق بیدار ہو جاتا ہے۔ رمضان المبارک باری تعالیٰ کا اک انوکھا نرالا فیضان ہے جس میں علم و عرفاں، خود آشنائی اور خدا آشنائی کی موسلادھار بارش ہوتی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ مسلمانوں کو دین سے وابستہ رکھنے کیلئے رمضان کے موسم بہار کا شاندار ماضی ہے یہ اسلامی سال کا نواں مہینہ ہے۔ اس کے روزوں کی فرضیت کا حکم شعبان المعظم 2ہجری میں آیا، اس طرح نبی کریمﷺ نے روزوں کی فرضیت کے بعد اپنی مبارک زندگی میں اللہ تعالیٰ کی تجلی ذات کے مظہر اتم ’’رمضان المبارک‘‘ کے نو سال گزارے۔ قرآن پاک میں ہے کہ کل مہینے بارہ ہیں اور چار ان میں سے حرمت والے ہیں (رجب، ذیقعد، ذوالحج اور محرم)۔ لیکن قرآن مجید میں صراحت کے ساتھ نام کسی کا بھی ذکر نہیں ہے۔ اسلامی کیلنڈر کے بارہ مہینوں میں سے صرف ایک رمضان المبارک کا ہی مہینہ ہے جس کا نام صراحت کے ساتھ قرآن پاک میں موجود ہے۔قرآن پاک کی رو سے روزہ کی مقصدیت حصولِ تقویٰ ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ایک شخص صبح صادق سے غروب آفتاب تک کھانے، پینے اور مباشرت وغیرہ سے اجتناب کرتا ہے تو اس سے متقی، پرہیزگار اور خشیت و للہیت کا حامل کیسے بن جائے گا؟ صورت حال یوں ہے کہ حالتِ روزہ میں کئی مواقع ایسے میسر آتے ہیں کہ ایک طرف بھوک اور پیاس کی شدت ہے تو دوسری طرف لذیذ اورخوش ذائقہ کھانے اور ٹھنڈے مشروبات بھی موجود ہیں۔ حالتِ خلوت ہے اور بظاہر دیکھنے والا بھی کوئی نہیں۔ دل میں کھانے کی خواہش پیدا ہوتی ہے اور ہاتھ کھانے اور پینے کی طرف بڑھنے کی کوشش کرتا ہے لیکن عین اسی وقت روزہ دار کا ذاتِ باری تعالیٰ پر غیر متزلزل ایمان اور یقین آڑے آجاتا ہے۔ اس کا ضمیر بیدار ہو جاتا ہے اور اسے جھنجھوڑ کر بتاتا ہے کہ تجھے وہ ذات دیکھ رہی ہے جو تیری شہ رگ سے بھی قریب تر ہے۔ دل کی دھڑکنوں سے ایک آواز آتی ہے اور نادیدہ سی قوت اسے کھانے پینے سے روک دیتی ہے کہ تو حالت روزہ میں ہے لہذا اِس وقت یہ عمل تیرے لئے حرام ہے اور تیرے مالک حقیقی نے اس سے اجتناب کرنے کا حکم فرمایا ہے۔ اسی طرح یہ سلسلہ ہر روز حالت روزہ میں ایک طویل دورانیہ میں میں جاری رہتا ہے۔ پھر ایک مہینہ تک اس کی مشق ہوتی ہے۔ جب یہ ماہ مبارک اپنے اختتام کو پہنچ جائے تو نفس امارہ اور شیطانی وساوس جب پھر کسی حرام کی طرف رغبت دلائیں گے تو وہاں یہی مشق کام آئے گی۔ اُس کے دل سے آواز اٹھے گی کہ ’’تیرے رب ذوالجلال نے اسے تیرے لئے حرام کیا ہے لہذااس سے باز آجا‘‘ اور وہ اس سے رک جاتا ہے۔ یہی کیفیت قلبی جو دل میں نیکی کی الفت ومحبت اور گناہ کی نفرت کا جذبہ اور تڑپ پیدا کر دے ’’تقویٰ‘‘سے تعبیر کی جاتی ہے۔ یہی روزہ کا مقصود اصلی ہے۔اگرچہ دیگر عبادات کا مقصد بھی حصول تقویٰ ہے لیکن ایک ماہ کے طویل عرصے تک تربیت کی ایک خاص مشق کی امتیازی اور انفرادی حیثیت اسلام کے نظام عبادات میں صرف روزہ کو حاصل ہے۔ حدیث قدسی ہے ’’کل عمل ابن آدم لہ الا الصیام فانہ لی و انا اجزی بہ (بخاری۔ مسلم۔ نسائی بحوالہ ریاض الصالحین عن ابی ہریرۃ) کہ ’’اولاد آدم کا ہر عمل اس کیلئے ہے سوائے روزہ کے۔ یہ فقط میری خوشنودی کیلئے ہوتا ہے اور اس کی جزا بھی میں خود ہی دوں گا‘‘ اسی طرح آپﷺ نے ارشاد فرمایا ’’من صام رمضان ایمانا و احتسابا غفر لہ ما تقدم من ذنبہ‘‘ (بخاری، مسلم، احمد بحوالہ ریاضالسالحین) یعنی جس نے اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہوئے اور اس کی رضا جوئی کیلئے رمضان المبارک کے روزے رکھے، اس کے سابقہ تمام گناہوں کو معاف کر دیا جائے گا۔ایک اور پہلو بھی قابل توجہ ہے کہ جوشخص مخصوص اوقات میں اللہ کی خوشنودی کیلئے اور حکم الہیٰ کی تعمیل میں عارضی طور پر اپنی خون پسینے اور حق حلال کی کمائی کو کھانے پینے اور جائز عمل مباشرت تک سے رک جاتا اور ایک ماہ تک اس کی تربیت پاتا ہے، اگر روزہ کے مفہوم کو حقیقی معنوں میں سمجھ کر اس نے روزے رکھے تو بعد از رمضان کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ کسی حرام خوری کی طرف راغب ہو یاحرام کاری کی طرف جائے۔ علاوہ ازیں حالت روزہ میں یہ پہلو بھی قابل غور ہے کہ عارضی طور پر حرام کی ہوئی چیزوں سے تو بچے اورجو ہمیشہ کیلئے حرام ہیں (مثلاً غیبت، جھوٹ، چوری چکاری، رشوت خوری، بد نظری یا بد دیانتی وغیرہ) ان سے باز نہ آئے تو پھر بھی روزہ کا وجود تو رہتا ہے لیکن اس کی روح پرواز کر جاتی ہے۔روزے کی منجملہ حکمتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہو سکتا ہے کسی کی زندگی اس قدر پر آسائش ہو کہ اسے کبھی بھوک اور پیاس کی شدت کا احساس ہی نہ ہوا ہو۔ بھوک لگی تو طرح طرح کے کھانے موجود اور حالت پیاس میں مشروبات دستیاب چونکہ روزہ ہر امیر و غریب پر فرض ہے اس لئے پیاس اور بھوک کی شدت کا احساس پا کر یقیناً بھوکوں اور پیاسوں کی تکلیفوں کا احساس اجاگر ہوتا ہے اسی سے سماج میں بھوکوں، پیاسوں اور غمزدہ لوگوں کو دیکھ کر ان کیلئے ہمدردی اور غمگساری کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ اس طرح روزہ معاشرتی طور پر بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی میں توازن اور حقوق العباد کی ادائیگی میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ہمارے کتنے ہی عزیز و اقارب اور دوست احباب ہوں گے جو گزشتہ سال ہمارے ساتھ موجود تھے لیکن آج منوں مٹی کے نیچے قبروں میں مدفون ہیں، کچھ وہ بھی ہیں جنہیں ہم نے پچھلے سال صحیح سلامت دیکھا تھا لیکن آج وہ بستر علالت پر ہیں۔ اور کچھ وہ بھی جو موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔ کیا معلوم کہ عنقریب آنے والا رمضان شریف کا مہینہ ہم میں سے کس کس کی زندگی کا آخری رمضان ہو۔ اس لئے آؤ کہ ان لمحات کو غنیمت جانتے ہوئے خیر و خوبی کے ساتھ رمضان المبارک کا استقبال کریں۔ نہ جانے زندگی میں پھر یہ پر کیف ساعتیں نصیب ہوں کہ نہ ہوں دعا ہے کہ مسلم امہ کیلئے یہ ہلال ِرمضان خیرو عافیت کا پیام لائے۔ ہمیں ہوش کے ناخن لینے کی توفیق ملے۔ اسلام کی عظمت رفتہ بحال ہو اور ہماری زندگیوں میں ایک مرتبہ پھر صبح پرنور کا سویرا طلوع ہو (آمین ثم آمین)
آئیے روزہ کے ان تینوں مقاصد کو مزید گہرائی سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں:
ایمان کی مضبوطی:بغیر دیکھے اورچوں و چرا کئے بغیر اللہ کو اس کے تمام اختیارات اور حکمتوں کے ساتھ مان لینا ہی اصل ایمان ہے۔ انسان خواہ علم کی کتنی ہی اعلیٰ و ارفع منزلوں تک کیوں نہ پہنچ جائے، اللہ کی تمام حکمتوں کا احاطہ نہیں کر سکتا۔ لہٰذا ہماری بہتری اسی میں ہے کہ اللہ کے تمام احکامات کوپہلے تو بغیر کسی دلیل اور توجیح کے قبول کر لیں، پھر اپنے علم اور عقل کے مطابق ان احکامات کے اندر پوشیدہ مصلحتوں کو سمجھنے کی کوشش کریں، روزہ کے تعلق سے جدید سائنس نے جتنے حیرت انگیز انکشافات کئے ہیں، انہیں آج سے کچھ سال قبل تک سمجھ پانا ممکن نہیں تھا۔ طبی نقطۂ نظر (Medical Point of View) سے روزہ کتنا مفید ہے، اسے سمجھنا ہے تو ’’یو ٹیوب‘‘ پر غیر ملکی ڈاکٹروں کے کئی ویڈیوز دیکھے جا سکتے ہیں، امریکی ڈاکٹر پائول براگ(Paul CBragg) (پیدائش 1895، وفات:1976) نے اپنی کتاب The Miracle of Fasting میں روزے کے جسمانی، ذہنی اور روحانی فوائدپر انتہائی تفصیل اور سائنسی استدال کے ساتھ روشنی ڈالی ہے۔ طوالت کے پیش نظر مثال سے گریز کر رہا ہوں۔ پائول براگ نے اسی کتاب میں گاندھی جی کی تحریک کا تجزیہ کرتے ہوئے گاندھی جی کا ایک قول نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اُن کی کامیابی کا اصل راز ’ورت‘ یعنی روزہ میں ہی مضمر تھا۔گاندھی جی کا قول نقل کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں:
All the vitality and energy I have comes to me,because my body is purified by fasting.– Gandhi
مصنف نے اس کے علاوہ بھی کئی بڑی اور کامیاب ترین شخصیات کی زندگی کا جائزہ لیتے ہوئے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ تاریخ کی بیشتر بڑی شخصیات کی کامیابی کا اصل راز اس نکتے میں پوشیدہ ہے کہ انہوں نے اپنی بھوک پر قابو رکھا۔
عبادات کی رغبت: ایمان لانے کے بعد اسلام کا دوسرا بڑا تقاضا اللہ تبارک وتعالیٰ کی عبادت ہے۔ عبادت جسم کے چند اشاروں اور رسومات کا نام نہیں ہے۔ عبادت ’’عبد‘‘ سے مشتق ہے جس کے معنی آخری درجے کی عاجزی و انکساری ہے۔ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ ’عبادت‘ کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’عربی زبان میں عبودۃ، عبودیہ اور عبدیہ کے اصلی معنی خضوع اور تذلل کے ہیں۔یعنی تابع ہو جانا، رام ہو جانا، کسی کے سامنے اس طرح سپر ڈال دینا کہ اس کے مقابلہ میں کوئی مزاحمت یا انحراف و سرتابی نہ ہو، اور وہ اپنے منشا کے مطابق جس طرح چاہے خدمت لے۔‘‘
(قرآن کی چار بنیادی اصطلاحات)
رمضان در اصل تربیت (Training) کا مہینہ ہے، اسی لئے اس مہینہ میں کثرت سے عبادات کا اہتمام کیا جاتا ہے۔عبادت کا مطلب عام طور سے نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ و، جہاد وغیرہ سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ عبادت کا مفہوم بہت ہی وسیع ہے۔ پیارے نبیﷺ نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا:جس مسلمان نے بھی درخت لگایا یا کھیتی کی پھر اس درخت یا کھیتی سے چڑیا یا انسان یا جانور کھائے تو یہ ضرور اس کی طرف سے ’صدقہ‘ہوگا۔ آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ:مسکین اوربیوہ کے لئے دوڑ دھوپ کرنے والے کا مرتبہ خداکی راہ میں جہاد کرنے والے، روزہ دار اوررات میں نماز پڑھنے والے کے برابر ہے۔ ایک بار نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا کہ میں تم کو نفل روزہ و نماز اور صدقہ سے بھی بڑھ کردرجہ کی چیز نہ بتائوں۔ صحابہ نے عرض کیا: یارسول اللہ ضرور ارشاد فرمائیں۔ آپﷺ نے کہا: وہ ہے آپس کے تعلقات کا درست کرنا۔ سورہ بقرہ کی ابتدائی آیات میں چونکہ اختصار کے ساتھ ایمان کی تین بنیادی علامتیں بتائی گئی ہیں۔ اس لئے عبادات کا ذکر کرتے ہوئے ’ام العبادات‘ نماز کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس میں بھی بڑی حکمتیں پوشیدہ ہیں۔ نماز دن بھر میں پانچ بار فرض ہے۔ یعنی دن بھر میں کم از کم پانچ بار ہمیں اپنی بندگی اور عاجزی کا ثبوت پیش کرنا ہے۔ نماز کے علاوہ اور کوئی ایسی عبادت نہیں ہے جس کے لئے اس طرح وقت متعین ہے۔ زکوٰۃ کبھی بھی دی جاسکتی ہے۔ خدمت خلق کیلئے بھی کوئی وقت مقرر نہیں ہے۔ اسی طرح دوسری عبادات بھی ہم اپنی سہولت اور سامنے والے کی ضرورت کے مطابق کسی بھی وقت انجام دے سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سارے لوگ صدقہ خیرات کرنے اور سماجی و فلاحی کاموں میں تو پیش پیش رہتے ہیں لیکن نماز کے معاملہ میں ان کے یہاں وہ اہتمام نہیں پایا جاتا جس کا تقاضا قرآن اور احادیث مبارکہ میں بار بار کیا گیا ہے۔ شادی بیاہ اور تقریبات کے موقع پر، کالج اور یونیورسٹیوں میں، دفتر میں، دورانِ سفر نماز کا قضا کر دینا یا چھوڑ دینا، ہماری تساہلی کو ظاہر کرتا ہے۔
سماجی زندگی میں خدائی احکامات پر عمل آوری:
تقویٰ کا تیسرا بڑا تقاضا سماجی زندگی میں خدائی احکامات پر عمل آوری ہے۔ اسلام دین فطرت ہےوہ صرف ہم سے عبادات کا ہی تقاضا نہیں کرتا بلکہ معاشرے میں رہتے ہوئے، معاشرے کے تقاضوں کو بھی پورا کرنے کا حکم دیتا ہے روزہ میں ایک بڑی حکمت یہ بھی ہے کہ روزہ کی حالت میں بھوکے پیاسے رہ کر ہمیں اپنے معاشرے میں رہنے والے ایسے بے شمار لوگوں کی حالت کا اندازہ ہوتا ہے جو غربت و افلاس کی وجہ سے کئی کئی وقت بھوکے رہتے ہیں۔ ہم اخبارات، ٹیلی وژن اور سوشل میڈیا پر غربت و افلاس کی وجہ سے خود کشی کی خبریں دیکھتے ہیں۔ کئی علاقوں کی سروے رپورٹ دیکھ کر افسوس کا اظہار کرتے ہیں لیکن ہم اس کیفیت کا اندازہ اسی وقت صحیح طور پر کر سکتے ہیں جب ہم خود اس حالت سے گزر کر دیکھیں۔ روزہ کی حالت میں کئی گھنٹوں تک بھوکے پیاسے رہ کر ہمیں یہ احساس بخوبی ہو جاتا ہے کہ بھوک و پیاس ہی وہ بنیادی عوامل ہیں جو ہمارے معاشرے میں جرائم کو جنم دیتے ہیں۔
رمضان کے اثرات کو دیگر مہینوں میں کیسے قائم رکھیں:جیسا کہ پہلے بتایا گیا کہ رمضان دراصل تربیت (Training) کا مہینہ ہے یہ تربیت اسی وقت کامیاب سمجھی جا سکتی ہے کہ رمضان کے بعد دیگر مہینوں میں بھی اس کے اثرات ہماری زندگی میں نظر آئیں اگر ہم چاہتے ہیں کہ رمضان کی ٹریننگ کے اثرات ہمیشہ ہماری زندگی میں قائم رہیں تو ان چند نکات کو پیش نظر رکھا جا سکتا ہے:
٭ دورانِ رمضان ہمیشہ یہ خیال رکھا جائے کہ ہم تربیت کے مرحلے سے گزر رہے ہیں اور رمضان میں کی گئیں عبادات اور اعمال کو بعد کے مہینوں میں بھی قائم رکھنا ہے ٭ جس طرح رمضان کے مہینہ میں کالج، یونیورسٹی، کوچنگ اور ملازمت(Job) میں رہتے ہوئے بھی ہم نے نماز اور خاص طور سے باجماعت نماز کیلئے وقت نکالے تھے، رمضان کے بعد بھی جہاں تک ممکن ہو سکے نماز باجماعت کا اہتمام کیا جائے ٭ رمضان کے بعد بھی تلاوت قرآن کا اہتمام کیا جائے۔ کوشش کریں کہ روزانہ کم سے کم ایک رکوع ہی سہی ترجمہ کے ساتھ پڑھا جائے۔ ترجمہ کا انتخاب آپ اپنی پسند اور سہولت کے مطابق کر سکتے ہیں ٭ کم از کم ہر مہینہ میں ایک دن روزہ رکھنے کی کوشش کی جائے۔ اس کے لئے اتوار یا چھٹی کا دن منتخب کیا جا سکتا ہے۔ اگر گرمیوں کے دنوں میں روزہ رکھنا دشوار معلوم ہو تو سردی کے موسم میں ایک دو روزے رکھے جا سکتے ہیں ٭ ہفتہ میں کم سے کم ایک دن کسی ایک وقت کسی غریب پڑوسی کی دعوت کی جائے، اگر یہ ممکن نہ ہو والدین کی اجازت سے کسی غریب کے گھر کھانا پہنچانے کا اہتمام کیا جائے ٭بھوک صرف کھانے کی ہی نہیں ہوتی۔ بہت سے ذہین بچے والدین کی معاشی حالت (Economical Condition) ٹھیک نہیں ہونے کی وجہ سے اپنا تعلیمی سفر بیچ میں ہی چھوڑ دیتے ہیں۔ ایسے بچوں کی تعلیمی کفالت یقیناً ایک طالب علم تو نہیں کر سکتا۔ آپ اس بات کا خیال رکھ سکتے ہیں کہ آپ کی جماعت میں اگر کوئی طالب علم معاشی تنگی کا شکار ہے۔ اس کے پاس ضرورت کی کتابیں، نوٹس، کاپیاں وغیرہ نہیں ہیں، تو آپ دوستوں کی مدد سے اُس کی مدد کرنے کی کوشش کریں ٭ رمضان کے علاوہ عام دنوں میں بھی قیام الیل (رات میں اٹھ کر نفل نماز پڑھنا) کی کوشش کریں۔ شروع میں آپ اس طرح کر سکتے ہیں کہ جس دن نصف رات میں کسی ضرورت کے تحت آپ کی آنکھ کھل جائے تو اسی وقت وضو کر کے کم سے کم دو رکعت نفل نماز ضرور پڑھیں ٭ جس طرح رمضان میں آپ کی زندگی ایک اصول اور Routineکے مطابق گزر رہی تھی، عام دنوں میں بھی اپنے وقت کا صحیح استعمال کرنے کی کوشش کیجیے۔
تازہ ترین