بریڈفورڈ کازندہ جسم برف کے سفید کفن میں لپٹا ہواتھا۔کہیں کہیں کوئی کالی گاڑی سیاہ پرندے کی طرح پھڑپھڑا تی تھی تو شہر کی مردہ پیشانی پر ہلکی سی شکنیں نمودار ہوتی تھیں ۔عرصہ کے بعد اتنی برف گری تھی ۔موسمیات کی مشینوں کے اندازے غلط ہو گئےتھے ۔سڑکوں اورگلیوں میں نمک چھڑکا نہیں جا سکا تھا۔سوایکسلیٹر دینے سے گاڑیوں کے ویل ایک ہی جگہ برف میں گھومنے لگتے تھے۔برف باری پچھلی رات سے ہورہی تھی ۔ کہیں کسی کالے پرندے کی پھڑپھڑاہٹ سے دم بھر کو منظر کی یک رنگی چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم ہوتی تھی اور بریڈ فورڈ کی آرٹ گیلری میں کسی بلیک اینڈ وائٹ پینٹنگ کا اضافہ ہوجاتا تھا۔ میرےکاروباری شریک ورما کی بیگم روناکی ایک امریکی دوست ایانا اپونی مضطرب تھی ۔وہ ٹیمپا سے بریڈفورڈ آئی تھی ۔ قدیم کیتھڈرلز پر تحقیق کررہی تھی۔ بریڈفورڈ کیتھڈرل کا سربراہ بشپ جارج کک میرا جاننے والا تھا ۔اسلئے مجھے اسے ساتھ لے کر جانا تھا۔بشپ سے وقت مقررتھا ۔ایانا کو اگلے دن واپس جانا تھا اُسکا اضطراب فطری تھی ۔وہ ورما کے گھر مقیم تھی ۔ پاس ہی میرا فلیٹ تھا ، صبح صبح میں یہاں آ گیا تھا۔ کیتھڈرل تقریباًڈیڑھ میل کے فاصلے پر تھا۔میں نے پیدل جانے کا اعلان کیا تو ایانانے اپنے نفیس سینڈلز کی طرف دیکھا۔جن پر روشنی منعکس کرنے والے موتی جڑے تھے ،ورما کی بیگم اپنے لانگ بوٹ نکال لائی ،ایانا انہیں دیکھ کر کھل اٹھی۔اس نے اپنی ٹانگوں پر دبیزلیگز چڑھا لیں اور لانگ بوٹ پہن لئے۔ پھرہم دونوں لمبے کوٹ پہنے،چھتریاں اٹھا ئے ،برف باری ہی میں سائوتھ فیلڈ اسکوائرسے نکلے اورلمب لین پر آگئے وہاں سے ویسٹ گیٹ کی طرف چل پڑے ۔برف میں پائوں دھنستے تھے ۔ایانا کو تحقیق کا جنون تھا اورمیرے لاشعور میں شاید ایانا۔میں نے بائیں عمارت کی طرف اشارہ کیااور کہا ۔’’یہ جو مکان ہے یہاں کتابیں مکین ہیں ۔‘‘ اس نے کہا ’’ یعنی یہ لائبریری ہے ‘‘ ۔میں نے جواب دیا’’ ہاں اس میں سینکڑوں قلمی نسخے بھی ہیں ‘‘۔اس نے پوچھا ’’کیا انہیں دیکھا جا سکتا ہے ‘‘میں نے کہا ۔’’یہ تمہارے کسی کام کی نہیں ،عربی ، فارسی اور اردومیں ہیں ‘‘ وہ بولی ’’یہاں کس نے جمع کر رکھی ہیں ۔انہیں تو برٹش لائبریری میں ہونا چاہئے ‘‘۔میں نے کہا ’’یہ پیرسید معروف حسین نوشاہی کے ذاتی مخطوطات ہیں ‘‘۔تھوڑا سا آگے آئے تو ایک بہت بڑی مسجد تھی اس نے دیکھ کرحیرت سے کہا ۔’’خوبصورت ،بہت دلکش گنبدہے۔مجھے گنبد بہت اچھے لگتے ہیں‘‘۔ میں نے کہا۔ ’’میں جب یہاں آیا تھا ، یہ سٹرک ریڈ لائٹ ایریا کے طور پر استعمال ہوتی تھی پھر اِس کی قسمت بدل گئی۔ یہاں پاکیزگی کی خرید و فروخت شروع ہو گئی ۔یہاں مسلمان آباد ہو گئے ۔مسجدیں اور لائبریریاں بن گئیں ‘‘۔ ہم ویسٹ گیٹ سے ہوتے ہوئے کریک گیٹ تک آئے۔ ٹائون سنٹر میں داخل ہو گئے ۔بولٹن روڈ پکڑی اور اسٹول ہل پر پہنچ گئے ۔اب کیتھڈرل کی سیڑھیاں ہمارے پائوں میں تھیں۔ایاناکا چہرہ کھِل اُٹھا ۔ مجھ پراچٹتی سی نظر ڈال کربولی ۔ ’’ارے یہ تو گوتھِک فنِ تعمیر کا شاہکارہے ۔ یہ آبنوسی محرابی دروازہ دیکھ رہے ہو ۔اِسے اوپر سے کیسی ہنرمندی کے ساتھ نوکدار بنایا گیا ہے ۔ مجھے تو اپنی تحقیق مکمل ہوتی نظر آتی ہے ۔‘‘ مگر میں اُس پندرہ سالہ بچی کی طرف متوجہ تھا جو اپنی چھتری کی نوک سے برف پر I am in love لکھ چکی تھی اوراس کے ساتھ دل بنا رہی تھی۔ ایاناآگے بڑھ گئی ۔میں نے تیزی سے تین سیڑھیاں اکٹھی عبور کیں کہ اسکے ساتھ چل سکوں ، قریب پہنچا تو پائوں پھسل گیا ۔سنبھلنے کیلئے اُسی کا سہارا لینا پڑا۔ موسم سرد تھا۔ کیتھڈرل کے وسیع دالان میں اُگے سرو برف سے ڈھکے تھے ۔کیتھڈرل سُرخی مائِل بھورے پتھر سے تعمیر شدہ تھا ۔ ابھی ہمیں مرکزی دروازے تک کچھ سیڑھیاں عبور کرنی تھیں ۔ مگر اُس کی رنگین شیشوں سے آراستہ کھڑکیاں ہمیں باہر روک رہی تھیں ۔بڑی بڑی کھڑکیوں کے چمکتے شیشوں پربنائے گئے سیکسن دور کےجنگجو تھے ، سرخ، سبز اور نارنجی شیشوں کی آرائش سے عیسائیت کے مرکزی کرداروں کو اُبھارا گیا تھا ، کہیں صلیبیں جھلک رہی تھیں ۔شایدایانا کےساتھ میں بھی اس خاموش داستان کے سناٹے میں جھانکنے لگا تھا۔تحقیق کے آئینے نے مجھے اپنی طرف متوجہ کر لیاتھا۔ایاناکی آواز سنائی دی ۔’’یہ رنگین شیشوں سے سجی کھڑکیاں مختلف حوالوں سے پہچانی جاتی ہیں ۔ یہ دیکھو اسٹینڈ گلاسس سے بنی یہ بڑی سی گول کھڑکی روز وِنڈو کہلاتی ہے ۔یہ کیتھرین وِنڈو ہے اور سینٹ نیٹیلی کے حوالے سے نیٹیلی وِنڈو بھی ۔ سینٹ نیٹیلی کو تاروں والے پہیےسے باندھ کرمار دیا گیا تھا۔ ‘‘ایانااپنی تحقیق سے میرے علم میں اضافہ کررہی تھی ۔ اچانک پلٹ کر میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولی۔’’تم کہیں بور تو نہیں ہورہے میری باتوں سے ۔‘‘ میں خود تو اسے اِس کیٹھڈرل تک لے کر آیا تھا میں کہاں اُکتا سکتا تھا ۔میں نے کہا۔ ’’ ارے نہیں میں تو دلچسپی سے سن رہا ہوں ۔ ایاناتم میری معلومات وسیع کررہی ہو ۔ میں تمہارا شکرگزار ہوں‘‘ ۔ وہ گفتگو کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے بولی ۔ ’’یہ اسٹینڈ گلاس سے آرائشی کھڑکیوں کی ابتدا قدیم روم سے جاملتی ہے ۔ (یادداشت میں ایانا سے میری گفتگو جاری ہےمگر مدرس اور مساجد کے موضوع پرمیرے کالم کی طویل تر تمہید ختم ہو چکی ہے ) میرا سوال صرف اتنا ہے کہ ہمارے اہل علم ، ہمارے صاحبان ِ تحقیق مساجد اور مدارس کے قریب کیوں نہیں جانتے ۔ایانا کی طرح کوئی طالب علم ہماری مساجد پر تحقیق کیوں نہیں کر سکتا ۔ ہمارے مدارس کیوں ایک مخصوص طبقے تک محدود ہو گئے ہیں ،شاید اسلئے مدارس کانصاب کوئی اور شخصیت بنا رہی ہے اور کالج کا نصاب کوئی اور۔کسی حکومت نے پہلی مرتبہ اس طرف توجہ دی ہے،مدارس کو وزارت تعلیم کے تحت لانے کا فیصلہ قابلِ ستائش ہے۔اگر عملدر آمد ہو گیا تو یہ علم و قلم کیلئےانقلابی قدم ثابت ہوگا۔ مدارس کیساتھ ساتھ اسکے مثبت اثرات کالجوں اور یونیورسٹیوں پر بھی مرتب ہونگے ۔عمران خان نے ایک نظام ِ تعلیم کا نعرہ لگایا وہ یہاں انتہائی ضروری ہے۔جب مدارس سے نکلنے والا طالب علم کیمبرج اور آکسفورڈ یونیورسٹی کی ہسٹری پر تحقیق کرےگا اور گورنمنٹ کالج لاہور کاا سٹوڈنٹ جامعہ نعیمہ کی تاریخ پر ریسرچ کریگا توروشنی کی خوشبو پھیلے گی ۔جب دینی اور دنیاوی علوم آپس میں ہم آغوش ہونگے تو نئے پاکستان کے اصلی خدو خال نمایاں ہونگے۔