• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بچے کی زندگی میں ابتدائی چند سال بہت ہی اہم تصور کئے جاتے ہیں کیونکہ اس میں بچے کی جسمانی، ذہنی اور انفرادی نش ونما بہت تیزی سے ہوتی ہے۔ یہ چند سال بچے کی زندگی پر محیط صلاحیتیں اور علم سیکھنے میں بہت مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ ابتدائی تعلیم بچوںکی ذہنی نش و نما اور ارتقاء میں بنیادی سنگ میل کا کردار ادا کرتی ہے۔ یہ زندگی کا وہ دورانیہ ہے جس میں پہلی بار بچے کا گھر سے باہر کی دنیا سے تعارف ہوتا ہے۔ یہ حیرت و استعجاب کا دور ہوتا ہے، جب ہر چیز اچھوتی اور انوکھی لگتی ہے۔ کسی بھی بچے کی ابتدائی تعلیم میں پہلا تعارف سب کے لئے ایک چیلنج ہوتا ہے۔ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پری اسکول، کنڈرگارٹن اور پرائمری ایجوکیشن کا بنیادی کردار کیا ہے؟ ہم کیسے بچوں کی ذہنی و دانش مندانہ صلاحیتوں کو اُجاگر کرکے انھیں معاشرے کا فعال اور کامیاب فرد بناسکتے ہیں؟ یہ وہ سوالات ہیں جن پر ماہرین تعلیم غور و خوض کررہے ہیں۔تحقیق سے یہ بات ثابت ہے کہ جو بچے بہتر ابتدائی تعلیم حاصل کرتے ہیں، وہ عام بچوں کی نسبت پرائمری، مڈل اور میٹرک کی سطح پر اچھے نتائج دیتے ہیں اور ان کی اسکول چھوڑنے کی شرح بھی بہت کم ہوتی ہے۔

کورے ذہن پر امن و محبت کی تصویر

باہر کی دنیا سے بچے کا پہلا رابطہ اسکول کے ذریعے ہوتا ہے۔ وہ کورے ذہن کے ساتھ نیکی و صداقت اور امن و محبت کا سبق سیکھتا ہے، یہ سبق اُسے عمر بھریاد رہتا ہے۔ بچے کی یہی تربیت اُسے بزرگوں، اساتذہ اور ساتھی طالب علموں کے ساتھ احترام کی طرف مائل کرتی ہے۔ یہیں سے بچے کی تہذیبی زندگی کا سفر شروع ہوتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جب والدین اور اساتذہ کی ذمہ داریاں دہری ہو جاتی ہیں کہ وہ ابتدائی تعلیم میں بچوں کی ذہن سازی کے لئے دوستانہ ماحول مرتب کریں اور ایسی فضا بنائیں جہاں صحت مند مسابقت ہو۔

انسانی اقدار کی بار آوری

بنیادی اور ابتدائی تعلیم میں بچے کو صرف پڑھنے لکھنے کی صلاحیتیں اور فن ہی درکار نہیں ہوتا بلکہ سوچ کے تعین کی بھی ضرورت پڑتی ہےجس میں ماحول، مذہب، زبان، ثقافت اور رسم و رواج اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ بچوں کی ذہنی نش و نما میں ارد گرد کے ماحول کے ساتھ مطابقت اور ذہنی وسعت کے ساتھ اساتذہ کو ان کی اخلاقی تربیت میں اس بات کا خاص دھیان بھی رکھنا ہوگا کہ وہ دنیا کے بدلتے ہوئے انداز میں اپنی شناخت کو قائم رکھ سکیں۔ سائنس کے ساتھ ادب کی تعلیم دیتے ہوئے بچوں کے ذہن میں وسعت نظری لانے میں استاد کے قائدانہ کردار کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔

اسکلز ڈیویلپمنٹ ٹریننگ

ڈیجیٹل دور کے سائبر اور ورچوئل ورلڈ میں آن لائن تعلیم اور یونیورسل ایجوکیشن کی ابتدا ہو چکی ہے۔ اسمارٹ فون اور سوشل میڈیا کی دنیا میں جینے والے بچوں کو مطالعے اور سیکھنے کے عمل کو فاسٹ لرننگ کے ہنر سے آراستہ کرنا ہوگا۔ بچے ٹی وی اور اسمارٹ فون سے گھر میں ہی آشنا ہوجاتے ہیں، جس پر آپ انھیں مختلف یوٹیوب چینلز پر موجود دنیا بھر کے اساتذہ کی ایجوکیشنل ویڈیوز دکھاکر ان کو بہت سی باتیں سکھاسکتے ہیں۔ زمانہ روشنی کی رفتار سے چل رہا ہے، ہمیں بھی اسی رفتار سے چلتے ہوئے بچوں کو فاسٹ ریڈنگ اور لرننگ اسکلز کی طرف مائل کرنا ہو گا۔ بر وقت اور تیز رفتار کام کی اس دنیا میں اساتذہ کو بچوں کی ذہنی و ہنر سازی کیلئے متحرک(Active)ہونا ہوگا۔ یہ دور حاضردماغی اور مستقل مزاجی سے عبارت ہے، جہاں سوئے ہوئے خوابیدہ ذہن جاگتی دنیا کے خواب نہیں دیکھ سکیں گے۔

حرفِ آخر

بچے کے ساتھ استاد کا پہلا تعارف ہی اس کی ذہانت کا تعین کرتا ہے،اس لیے پرائمری ٹیچر کی ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں۔ اس بنیادی مرحلے پر اساتذہ کی کوئی بھی تنگ نظری اور بری مثال بچے کے ذہن کو ہمیشہ کے لیے متاثر کرسکتی ہے۔ اساتذہ اور والدین آپس میں باہمی رابطے بڑھا کر بچوں کی ابتدائی تعلیم کو نہایت آسان اور اسے بچوں کیلئے تفریحی بنا سکتے ہیں، اس طرح بچہ تعلیم کی جانب زیادہ مائل ہو گا، مستقبل کے معماروں کیلئے آسانیاں پیدا کر کے ان کی اچھی تعلیم کے ساتھ اچھی پرورش بھی کی جا سکتی ہے۔ ہمارے والدین اوراساتذہ نے ہمیں جو پہلا سبق پڑھایا،وہ اب بھی ذہن پر نقش ہے،’’سب کا بھلا سب کی خیر! باادب بانصیب،بے ادب بے نصیب!‘‘۔ یاد رکھیے حسنِ سلوک چاہتے ہیں تو حسن سلوک کرنا ہوگا۔ بچوں کے کورے ذہن کو مذہب کی آفاقی تعلیم سے روشناس کراتے ہوئے انھیں دنیاوی علم کے حصول میں تنگ نظری سے بچانا ہوگا۔ سائنسی بنیادوں پر پروان چڑھتے ہوئے بچے کی ذہنی وسعت اسے اقوامِ عالم کے مہذب اور تعلیم یافتہ بچوں میں شامل کر دے گی۔

تازہ ترین