کبھی کبھار یونہی بیٹھے بٹھائے ماضی کا کوئی پل انگلی تھام کر اپنے ساتھ لے جاتا ہے تو ضلع جہلم میں واقع اپنا گائوں لدھر منارہ نظروں کے سامنے گھوم جاتا ہے، جہاں میری بچپن کی بیشتر عیدیں گزریں۔ یہ گائوں منگلا کے پہاڑوں میں ہے اور دریائے جہلم اس گائوں کی مٹی کو چوم کر گزرتا ہے۔ اگر مطلع صاف ہو تو اس گائوں سے ہمالیہ کے پہاڑ بھی نظر آتے ہیں۔ ہمارا خاندان چونکہ ایک پرانا سیاسی خاندان ہے، اس وجہ سے ہماری عیدیں بڑی پُررونق ہوا کرتی ہیں، ہزاروں لوگ ملنے آتے ہیں اور کئی کئی روز تک ایک میلا سا لگا رہتا ہے۔ اپنے والد، چچا، تایا اور ماموں، جو اب اس دنیا میں نہیں رہے، ان سب لوگوں کے ساتھ عید کی خوشگوار یادیں جڑی ہوئی ہیں۔ اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ مذہبی تہوار سے ہٹ کر بھی عید ایک بہت اہم تہوار ہے، اس سے ہم مسلمانوں کی بہت زیادہ یادیں وابستہ ہوتی ہیں، بالخصوص ہماری بچپن کی بے شمار یادیں اس تہوار سے منسلک ہوتی ہیں، یہ ایک ثقافتی تہوار بھی ہے، ایک Cultural Ethosہے جو عید سے جڑا ہوا ہے۔
جہاں عید کے ساتھ اتنی خوشگوار یادیں وابستہ ہیں، وہیں پر عید کے حوالے سے کچھ تلخ اور ناخوشگوار یادیں بھی ہیں اور وہ ہیں دو، دو عیدوں کی۔ ہم نے ہمیشہ سے یہی دیکھا ہے کہ رویتِ ہلال کمیٹی کی جانب سے ایک اعلان کیا جاتا ہے، پشاور سے ایک اور اعلان کیا جاتا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں ایک ایسا وقت بھی آیا جب ملک بھر میں تین تین عیدیں منائی گئیں۔ سوال یہ ہے کہ جب ایک طرف دنیا بلیک ہول تک پہنچنے کے حیلے کر رہی ہے، ہمارے ہاں ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ میرے خیال میں جس طرح ریاست نے اپنے کام ترک کر دئیے ہیں، اسی طرح یہ کام بھی ترک کر دیا گیا ہے۔ ہم نے ان تمام ضروری کاموں کو پرائیوٹائز کر دیا ہے۔ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے، اگرچہ ہم مذہب کو جبری مسلط نہیں کر سکتے مگر اس حوالے سے درست رہنمائی فراہم کرنا تو ریاست ہی کی ذمہ داری ہے۔ ریاست کے اداروں میں پارلیمان ہے، اسلامی نظریاتی کونسل ہے، اس کے علاوہ ہم نے ایک رویتِ ہلال کمیٹی قائم کر رکھی ہے۔
ہم مسلمان ہیں جن کے بارے میں حدیث شریف میں آتا ہے کہ مسلمان قوم ’’قوم العلم‘‘ یعنی علم کی قوم ہے۔ اس لیے کہا گیا کہ علم حاصل کرو، خواہ چین ہی کیوں نہ جانا پڑے۔ اب سوال یہ ہے کہ جب رویتِ ہلال کمیٹی بن گئی تھی تو وہ سائنس و ٹیکنالوجی کا استعمال کرتی ہے اور اس حوالے سے شبہات کا ازالہ کرکے ایک یقینیت قائم کرتی۔ لیکن ایسا ہوا نہیں۔ ہر دفعہ چاند کی مختلف پیشگوئیاں ہونے کے باعث لوگ متحد ہونے کے بجائے زیادہ منقسم ہوئے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس حوالے سے سائنس کیا کہتی ہے۔ سائنس کا علم چاند کے حوالے سے بہت آگے جا چکا ہے۔ 1960کی دہائی میں انسان نے چاند کو تسخیر کر لیا تھا۔ اب ہمیں بالکل درست پتا ہوتا ہے کہ چاند کب، کہاں اور کس وقت نظر آتا ہے، اس کی پیدائش کہاں ہوتی ہے۔ چاند کی پیدائش سے مراد یہ ہے کہ جب زمین، سورج اور چاند ایک قطار میں ہوں گے تو اس کا مطلب ہے کہ چاند پیدا ہو گیا ہے۔
جب چاند پیدا ہو جائے تو پھر ایکویٹر (Equator)یعنی زمین کے گرد اپنے مدار پہ مختلف طریقوں سے نظر آئے گا۔ سائنس و ٹیکنالوجی اس قدر ترقی کر چکی ہے کہ موسم خواہ کیسا ہی کیوں نہ ہو، چاند کے حوالے سے اب پہلے ہی بتایا جا سکتا ہے یہ کب اور کہاں کس وقت نظر آئے گا۔ اس حوالے سے سائنس ہمیں پورا چارٹ، پورا سٹرکچر فراہم کرتی ہے۔ اور ایسا صرف ایک دو یا چند روز تک کے لیے نہیں بلکہ اگلے کئی سالوں تک کی چاند کی نقل و حرکت کی پیش گوئی کی جا سکتی ہے۔ جب سائنس اس قدر معلومات فراہم کرتی ہے تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کو استعمال کیوں نہ کیا جائے؟ یہ منطق سمجھ سے بالاتر ہے کہ چاند کو پرانی دوربین سے دیکھنا کیونکر جائز ہے اور اس حوالے سے نئی ٹیکنالوجی استعمال کرنے میں کیا امر مانع ہے۔
اگر مسئلہ رویت کا ہے تو اس حوالے سے ہم ایک موبائل ایپ بنا رہے ہیں جس کے ذریعے ہمیں چاند کے حوالے سے علم ہو سکے گا کہ چاند کب اور کہاں کس وقت نظر آ سکے گا۔ ہماری کوشش محض یقینیت لانے کی ہے، ہم کوئی بھی چیز جبری طور پر مسلط نہیں کر سکتے۔ میری وزارت یعنی وزارتِ سائنس و ٹیکنالوجی کا مطمحِ نظر صرف یہ ہے کہ اس حوالے سے ہم علماء کرام اور عامۃ المسلمین کی مقدور بھر مدد کر سکیں۔ اور یہ کوئی انہونی بات نہیں ہے۔ اس حوالے سے اگر دیکھا جائے تو گھڑی بھی ایک ایسی ہی ایجاد ہے۔ علامہ جاوید غامدی اور بہت سے دوسرے علماء کرام اس موقف کے حامی ہیں اور اس کی دلیل یہ ہے کہ جس طرح اسلامی کیلنڈر کا تعلق چاند سے ہے اسی طرح بعض عبادات کا تعلق یعنی نماز اور روزے کا تعلق سورج سے ہے، پہلے لوگ سورج کو دیکھ کر نماز کے اوقات کا اندازہ کرتے تھے لیکن آج ہم سورج کو نہیں دیکھتے کہ وہ کس پوزیشن پر ہے، ہم گھڑی دیکھتے ہیں اور نماز پڑھ لیتے ہیں، روزہ رکھنے یا کھولنے کے لیے بھی ہم سورج کو نہیں دیکھتے کہ وہ غروب ہو گیا یا نہیں بلکہ ہم گھڑی دیکھتے ہیں اور روزہ کھول لیتے ہیں کیونکہ سائنس و ٹیکنالوجی نے ہمیں سورج کے ہر لمحے کی پوزیشن کا پہلے سے بتا دیا ہوا ہے۔
ٹیکنالوجی نے اب بہت سی چیزوں کو تبدیل کر دیا ہے اور دنیا میں وہی قومیں ترقی کرتی ہیں جو علم سے استفادہ کرتی ہیں۔ قدامت پسند سوچ کی وجہ سے ہی ہم آج انحطاط کا شکار ہیں۔ ماضی میں اگر ہم دیکھیں تو دنیا کے تین براعظموں پر محیط سلطنتِ عثمانیہ میں دو سو سال تک پرنٹنگ پریس کی مخالفت کی جاتی رہی اور مغرب ہم سے دو سو سال آگے بڑھ کر آج ہم پر ہی نہیں، پوری دنیا پر غلبہ پائے ہوئے ہے۔ یہ غلبہ مغرب کا نہیں، علم اور سائنس و ٹیکنالوجی کا غلبہ ہے۔ لائوڈ اسپیکر کو حرام قرار دیا گیا، ٹرین پر سفر کرنے والوں کے خلاف فتوے دیئے گئے، تاہم ایسے اور بہت سے معاملات ہیں جنہیں وقت کے ساتھ ساتھ پذیرائی ملی، کیونکہ بالآخر بہتری اور اچھائی کو تسلیم کر ہی لیا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے ہمیں اُمید ہے کہ یہ جو مخالفت ہے، وقتی ہے، وقت کے ساتھ ساتھ یہ معاملہ حل ہو جائے گا۔