• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نئے پاکستان میں کچھ بھی نہیں بدلا، یہاں تک کہ چاند پر تنازع بھی حسبِ سابق ہے، یوں اس نئے پاکستان میں ماسوائے غریب عوام سے نئے نئے مذاق کے سب کچھ پرانا ہی ہے، لہٰذا کیوں نہ ہم ایک پرانے کالم کے کچھ اقتباسات ہی پڑھ لیں۔ ہم نے ایک سال قبل لکھا تھا: آپ نے اکثر سنا ہوگا کہ دنیا چاند پر پہنچ گئی ہے اور ہم وہیں کے وہیں ہیں۔ حالانکہ ایسا کہنے والوں کو یہ نظر ہی نہیں آ سکا ہے کہ ہم برسوں پہلے چاند پر نہ صرف یہ کہ پہنچ چکے ہیں بلکہ یہ بھی دریافت کر لیا ہے کہ چاند ایک نہیں دو ہیں! اور یہ کارنامہ کسی اور نے نہیں، ان صاحبان کا ہے جن کے متعلق یہ بدگمانی عام ہے کہ وہ سردرد کی دوا یا ایک بلب سے لے کر وہ تمام اشیا جن سے انسان کی صحت و فلاح وابستہ ہے، نہیں بنا سکتے۔ ایسے صاحبان نے ایک کی بجائے دو چاند دریافت بلکہ ایجاد کرکے یہ ثابت کر دیا کہ تسخیر کائنات کیلئے سائنس و ٹیکنالوجی کی قطعی ضرورت نہیں۔ جب ایک فتویٰ سے ایک صوبے میں ایک چاند اور دوسرے فتویٰ سے اگلے دن دوسرا چاند پیدا کیا جا سکتا ہے پھر دیگر اشیاء کی تسخیر کیونکر مشکل ہو سکتی ہے! وطن عزیز میں سادہ لوگ سوال کرتے ہیں کہ رمضان اور عید کے چاند کے علاوہ دیگر دس مہینوں کے چاند پر تنازع کیوں اُٹھ کھڑا نہیں ہوتا؟ امر واقعہ یہ ہے کہ یار لوگوں نے اب چاند پر بھی عوام کو تقسیم کر دیا ہے۔ کراچی میں کہا جاتا ہے کہ پٹھانوں کا چاند ایک دن پہلے نکلتا ہے جبکہ خود پختون بھی پختونخوا کے مولوی صاحب کے چاند ہی کو اپنا چاند سمجھتے ہیں، کاش وہ ہماری نصیحت دامن گیر کر لیں۔

تو اِسے اپنی تمنائوں کا مرکز نہ بنا (اے پٹھان)

چاند ہرجائی ہے ہر گھر میں اُتر جاتا ہے

جس روز پختونخوا میں روزہ تھا، کراچی میں ایک دوست جذباتی انداز میں گویا ہوئے، دیکھئے یہ لوگ ہمارے (پختونخوا) کے چاند کو تسلیم نہیں کرتے... ہم نے استفسار کیا کہ کیا آپ کا کراچی میں آج روزہ ہے، کہنے لگے نہیں، میں نے کہا پھر تو آپ بھی پختونخوا کے چاند کو تسلیم نہیں کرتے! خاموش ہو گئے۔ ہم نے یہ بھی گزارش کی کہ خود پختونخوا کے عوام بھی ’’اپنے‘‘ چاند پر متفق نہیں، چند اضلاع میں اگر روزہ ہے تو متعدد میں نہیں، اور ایسا ہر سال عید پر بھی ہوتا ہے کہیں عید ہوتی ہے اور کہیں روزہ۔ ہم نے اپنے دوست کو حوصلہ دیا، یارِ من چاند کسی کا نہیں، صرف مولوی محترم کا ہے۔ اب اگر اسفند یار ولی، محمود خان اچکزئی اور منظور پشتین کہتے کہ چاند ہو گیا ہے اور پختون روزہ رکھ لیتے تو کہا جا سکتا تھا کہ یہ پختونوں کا چاند ہے!! لوگ پھر سوال کرتے ہیں کہ سچا کون ہے، سادہ جواب تو یہ ہے کہ کوئی لاکھ کہے لیکن چاند تو ایک ہی ہے۔ لہٰذا سچے بھی ایک ہی مولوی صاحب ہوں گے۔ بعض حلقوں کا یہ اعتراض بھی قابل توجہ ہے کہ ریاست نے جو ایک مرکزی رویت ہلال کمیٹی تشکیل دی ہے، کیا اس کے مقابل خود ساختہ کمیٹی، ریاست کے اندر ریاست نہیں ہے! خیر پاکستان میں تو قدم قدم پر ریاست کے اندر ریاستیں ہیں لیکن جو حضرات صبح دوپہر شام یہ باور کراتے ہیں کہ امیر کی اطاعت سے روگردانی فتنہ پروری ہے، وہ تمام مکاتبِ فکر کے متفقہ امیر مفتی منیب الرحمٰن صاحب کے مقابل ہر سال دو مبارک مہینوں میں کیوں متوازی عدالت لگا دیتے ہیں، پھر جنابِ پوپلزئی باقی دس مہینوں میں غائب کیوں ہو جاتے ہیں؟ ایک قوم پرست جماعت کے کارکن جو یہ کہتے ہیں کہ اہالیانِ پاکستان ایک پختون مولوی کے چاند کو برسوں سے قبول کرنے پر آمادہ نہیں تو ان کی خدمت میں عرض ہے کہ مفتی منیب الرحمٰن صاحب بھی تو پختون ہیں۔ ایسے جذباتی دوستوں کی خدمت میں یہاں یہ عرض کئے دیتے ہیں کہ جب سے فوج نے کہہ دیا ہے کہ طالبان را کے ایجنٹ ہیں تو ہر کوئی ان کے خلاف ہو گیا ہے لیکن کل جب طالبان کی دہشت عام تھی، ہمارے اکثر بڑے بڑے رہنما انہیں بچے اور بھٹکے ہوئے بھائی کہتے ہوئے نہیں تھکتے تھے، یہ مفتی منیب الرحمٰن صاحب اور صوفیائے کرام کے ماننے والے ہی تھے جنہوں نے ہر قسم کی دہشت گردی کے خلاف آواز بلند کی۔ جو لوگ چاند کو بھی نسلی قبا پہنانے میں برسوں سے منہمک ہیں، یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے 1979ء میں روس کے خلاف امریکی جہاد کو بھی صرف پختونوں کا جہاد بنا ڈالا تھا اور اس نام نہاد جہاد میں 40لاکھ پختون ہی لقمہ اجل بنے تھے۔ کاش پختون یہ سوچتے کہ جہاد تو وہ ہوتا ہے کہ جس میں تمام مسلمان شریک ہوں، یہ کیسا جہاد تھا جس میں سندھ، بلوچستان اور پنجاب کے لوگ شریک ہی نہ تھے، کیا یہ لوگ مسلمان نہیں؟ سو فیصد ہیں۔ تاہم یہ جان گئے تھے کہ یہ جہاد نہیں ہے۔ افسوس وہی مذہبی عناصر جنہوں نے نام نہاد امریکی جہاد کو پختونوں کا جہاد بنا ڈالا تھا، آج ’’بوجوہ‘‘ چاند کو بھی نسلی بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ یہ مسلہ مسلکی ہو یا کوئی اور بہر صورت پختونوں کا قومی مسئلہ نہیں ہے۔ اگرچہ حضرت فواد چوہدری نے اس مسئلے کے حل کا بیڑہ اُٹھا لیا ہے، دیکھتے ہیں کہ کس کا بیڑا پار ہوتا ہے اور کس کا....!! تاہم تمام پاکستانیوں کو بہرصورت یہ سوچنا چاہئے کہ آخر ہم کب تک حضرت انشا جی کی زبان میں یہی گلہ کرتے رہیں گے۔

انشاجی یہ اور نگر ہے، اس بستی کی ریت یہی ہے

سب کی اپنی اپنی آنکھیں، سب کا اپنا اپنا چاند

تازہ ترین