واشنگٹن: جیمز پولیتی، کورٹنی ویور
بیجنگ: ٹام مچل، یوآن یانگ
ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے جارحانہ ٹوئیٹ نے مذاکرات کے بارے میں بیان میں ایک بڑی تبدیلی کی نشاندہی کی اور اور اس امکان کو اٹھایا کہ بیجنگ مذاکرات کے اس ہفتے ہونے والے راؤنڈ کو ملتوی یا منسوخ کرسکتا ہے۔حالیہ ہفتوں میں مذاکرات کی حالت کے بارے میں ڈونلڈ ٹرمپ پہلے ہی اپنے تبصرے پر پریشان ہوگئے تھے۔
تجارتی مذاکرات میں رعایت کرنے کیلئے بیجنگ پر تیزی سے دباؤ بڑھانے اور چینی اور یورپی اسٹاک کو نیچے بھیجنے کیلئےڈونلڈ ٹرمپ نے تمام چینی درآمدات پر ٹیرف میں 25 فیصد اضافہ کی دھمکی دی ہے۔
تجارتی مذاکرات کے بدھ کو شروع ہونے والے حتمی مرحلے جس سے ان کے کامیابی یا ناکامی کا نتیجہ نکلے گا، سے محض چند روز قبل اتوار کو اپنی دو ٹوئیٹس میں امریکی صدر نے دھمکی دی۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے لکھا کہ لیویز گزشتہ سال چینی مصنوعات پر بیجنگ کے ساتھ تجارتی جنگ کے حصہ کے طور پر عائد کیا گیا تھا،جو ہمارے بڑے اقتصادی نتائج کا جزوی طور پر ذمہ دار تھے اور ہماری مصنواعت پر اس کے اثرات تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ دوسو ارب ڈالر کی چینی اشیا پر موجودہ 10 فیصد ٹیرف جمعہ کو 25 فیصد تک بڑھادیا جائے گا،اور 325 ارب ڈالر کی اضافی چینی اشیا جن پر اس وقت ٹیکس نہیں تھا،ان پر جلد ہی 25 فیصد کی شرح ہوگی۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ چین کے ساتھ تجارتی معاہدہ کیلئے مذاکرات جاری ہیں، لیکن بہت سست روی کے ساتھ، جیسا کہ انہوں نے دوبارہ مذاکرات کی کوشش کی، نہیں۔
چین کےبڑے شنگھائی اور شینزین میں درج اسٹاک سی ایس آئی 300 انڈیکس پیر کو زیادہ سے زیادہ 6.1 فیصد نیچے آگیا اور 8.5 فیصد پر بند ہوا، فروری 2016 سے یہ اس کا بدترین دن بنادیا۔ایس اینڈ پی 500 فیوچرززیادہ سے زیادہ 1.2 فیصد گرگیا جبکہ یورپ میں فرینکفرٹ کا زیٹرا ڈیکس انڈیکس 2.2 فیصد اور سی اے سی 40 3.2 فیصد نیچے آگئے۔
چین کا آن شور رینمینبی،جسے چین کے مرکزی بینک کی جانب سے روزانہ کے وسطی پوائنٹ سیٹ 2 فیصد دونوں طرف تجارت کی اجازت ہے،0.5 فیصد نیچے جانے سے فی ڈالر 7659.6 رینمینبی ہوگیا،یہ جنوری سے اب تک نچلی ترین سطح ہے۔۔آئل بنچ مارک برینٹ کرڈ 7.1 فیصد تھا۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے جارحانہ ٹوئیٹ نے مذاکرات کے بارے میں بیان میں ایک بڑٰ تبدیلی کی نشاندہی کی اور اور اس امکان کو اٹھایا کہ بیجنگ مذاکرات کے اس ہفتے ہونے والے راؤنڈ کو ملتوی یا منسوخ کرسکتا ہے۔حالیہ ہفتوں میں مذاکرات کی حالت کے بارے میں ڈونلڈ ٹرمپ پہلے ہی اپنے تبصرے پر پریشان ہوگئے تھے۔
چین کے نائب صدر اور اعلیٰ سطح کے تجارتی مذاکرات کار لیو ہی کی زیر سربراہی وزارت تجارت اور دیگر سرکاری ایہجنسیوں کی جانب سے 100 حکام پر مشتمل مضبوط مذاکراتی ٹیم کو دراصل پیر کو واشنگٹن کیلئے پرواز کرنا تھی۔ڈونلڈ ٹرمپ کی تازہ ترین دھمکی کیلئے بیجنگ کے ردعمل سے آگاہ ایک شخص نے کہا کہ چین کی وزارت تجارت سیخ پا ہے۔وہ گھات لگائے لگائے تھک چکے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اسی طرح کے ردعمل کے بعد گزشتہ سال ستمبر میں لیو ہی نے واشنگٹن کا دورہ منسوخ کردیا تھا، اور چینی حکام نے اکثر کہا کہ وہ ہماری گردن پر چھری رکھنے جیسی صورتحال میں مذاکرات نہیں کریں گے۔
قومی اخبار گلوبل ٹائمز کے ایڈیٹر ہوشن جن نے ٹوئٹر پر خیال ظاہر کیا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹوئیٹ کے بعد لیو ہی اپنا واشنگٹن کا دورہ منصوخ کردیں گے۔ ہو شن جن نے اپنی ٹوئیٹ میں کہا کہ ایٹ دی ریٹ رئیل ڈونلڈ ٹرمپ نے جب سے اس طرح کی دھمکی دی ہے، میرے خیال میں نائب صدر لیو ہی کے اس ہفتے امریکا جانے کا امکان نہیں ہوگا۔ ڈونلڈ ٹرمپ ٹیرف بڑھاتے ہیں، چلو دیکھتے ہیں کب تجارتی مذاکرات دوبارہ شروع ہوسکتے ہیں۔
امریکی کاروباری گروپ جو تجارتی جنگ کے خاتمے کیلئے معاہدے کیلئے زیادہ تر زور دے رہے ہیں، نے ٹیرف میں نئے اضافے کی ڈونلڈ ٹرمپ کی کی دھمکی پر مایوسی کا اظہار کیا۔ امریکی ملبوسات اور فٹ ویئر ایسوسی ایشن کے صدر رک ہیلفنبین نے کہا کہ ہم صدر پو اضافی ٹیرف عائد کرنے سے بازر ہنے اور اس کی بجائے مذاکارت کرنے اور چین کے ساتھ تجارتی معاہدہ کرنے پر زور دیتے ہیں۔
دی نیشنل ریٹیل فیڈریشن نے کہا کہ امریکیوں کو کاروبار میں خلل، زیادہ قیمتوں اور ملازمتوں سے محرومی کے ذریعے قیمت ادا کرنا ہوگی۔
تاہم ڈونلڈ ٹرمپ کے کم از کم ایک سیاسی مخالف کی جانب سے مختلف ردعمل سامنے آیا۔امریکی سینیٹ میں اعلیٰ ڈیموکریٹ چک شومر نے ٹوئٹر پر لکھا کہ چین پر سختی رکھو۔ پیچھے نہیں ہٹو۔ چین کے ساتھ جیتنے کا واحد راستہ طاقت ہے۔
چینی نائب صدر لیو ہی رواں ہفتےامریکی تجارتی نمائندے رابرٹ لیتھیزر اور ارمریکی وزیر خزانہ اسٹیو منچن کے ساتھ مذاکرات کے اہم دور کی واشنگٹن پہنچنے کیلئے تیار ہیں۔ مذاکرات سے آگاہ افراد نے کہا ہے کہ اس سیشن کا مقصد معاہدے کو حتمی شکل دینا، ممکنہ طور پر جون کے وسط میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور چینی صدر شی جنگ پنگ کے مابین دستخطی سربراہی اجلاس کیلئے مرتب کرنا تھا۔
گزشتہ سال ارجنٹائن میں جی 20 سربراہی اجلاس کے بعد شی جنگ پنگ اور ڈونلڈ ٹرمپ کے ان کے تجارتی جنگ سے نکلنے کیلئے راستہ تلاش کرنے کو کوشش پر اتفاق کے بعد سے لیو ہی اور رابرٹ لیتھزر مذاکرات کررہے ہیں۔
تاہم حل تلاش کرنا مشکل چابت ہوا۔ چینی اور امریکی حکام دونوں بہتر شرائط کیلئے زور دینے کیلئے معاہدے کے وقت کو بار بار ملتوی کررہے ہیں۔ دراصل ڈونلڈ ٹرمپ کوامید تھی کہ مارچ تک مذاکرات مکمل ہوجائیں گے۔
مذاکرات میں سب سے بڑے کشمکش والے پوائنٹس میں چینی اشیا پر موجودہ ٹیرف کے مستقبل کا ہے، جو بیجنگ ختم ہونا دیکھنا پسند کرے گا۔ معاہدے کی تعمیل کیلئے چینر پر دباؤ برقرار رکھنے کیلئے کے حصے کے طور پر واشنگٹن انہیں برقرار رکھنا پسند کرے گا۔
تاہم ساختی اقتصادی اصلاحات پر چینی رعایتوں پر مذاکرات سودے بازی کررہے ہیں، امریکی جانب اس حقیقت کے ساتھ نمٹ رہی ہے کہ چین صنعتی سبسڈیز،دانشورانہ جائیداد کی چوری اور مختلف صنعتوں کی اس کی امرکیٹ تک رسائی میں رکاوٹوں میں اس حد تک قابو پائے گا۔یہ بھی غیرواضح ہے کہ چین امریکی اشیاء کی بڑے پیمانے پر خریداری کا وعدہ کرنے میں چین کس حد تک جائے گا۔
اتوار کو ڈونلڈ ٹرمپ کی مداخلت آنے والے مذاکرات کے کاروباری مفاد کو بڑھانے کیلئے کے حتمی دور اعلیٰ درجے کی مذاکراتی حکمت عملی ہوسکتی ہے اور واشنگٹن میں چین کے جنگجو کو یقین دہانی کیلئے کہ وہ کمزور معاہدے کیلئے تیار نہیں ہوں گے۔ تاہم حالیہ ایکویٹی مارکیٹس میں اضافے اور مستحکم لیبر مارکیٹ کے اعدادوشمار ،جس نے امریکی معیشت میں سست روی کے خوف کو ختم کردیا ہے،کی وجہ سے وہ امریکی صدر کے معاہدہ کرنے کیلئے کم دباؤ محسوس کرنے کی نشاندہی بھی کرسکتے ہیں۔اس سے زیادہ امکان یہ ہوسکتا ہے کہ چین کے ساتھ مذاکرات مکمل طورپر ختم ہوسکتے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹوئیٹس سے قبل امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے فاکس نیوز کو بتایا کہ چین کے خلاف امریکی امریکی غلبے کیلئے، سنجیدہ متفقہ کوشش کی ضرورت ہوگی اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ جیسے صدر،جو چین کو واپس دھکیلنے کیلئے تیار ہیں،چاہے وہ تجارت یا فوجی طاقت یا دانشورانہ ملکیت کی چوری پر ہو۔
انہوں نے مزید کہا کہ چین سے درپیش چیلنجز کے خلاف امریکا کو تحفظ دینے میں سنجیدہ ہوگا ہمیں ایسے صدر کی ضرورت ہے۔
گزشتہ ہفتے،سابق نائب سدر جوبائیڈن، جنہوں نے 2020 میں ڈیمو کریٹک صدارتی نامزدگی کیلئے مہم کا شروع کی ہے، نے اس آئیڈیا کو چیلنج کیا ہے کہ چین کو امریکا کے حریف کے طور پر دیکھنا چاہیے۔یہ ڈونلڈ ٹرمپ سے بغاوت کی تصویر کشی کرتا ہے اور اس بحث کی تجدید کہ آیا چین کے حوالے سے بات چیت یا مخالفت سب سے مؤثر پالیسی تھی۔