• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بیرسٹر فہد ملک کے قاتلوں کو قانون کے مطابق سزا دی جائے، واجد خان


لندن(مرتضیٰ علی شاہ) لیبر رکن یورپی پارلیمنٹ واجد خان نے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ کے نام خط میں کہا ہے کہ برٹش پاکستانی بیرسٹر فہد ملک کے قاتلوں کو قانون کے مطابق سزا دی جانی چاہئے تاکہ اوورسیز پاکستانیوں کا اپنے وطن کے نظام انصاف پر اعتماد برقرار رہے۔ نارتھ ویسٹ انگلینڈ سے یورپی پارلیمنٹ کے رکن واجد خان نے اپنے خط میں مزید کہا کہ گزشتہ خط میں تمام حقائق سامنے نہ آنے کے سبب ایسی باتیں سامنے آئیں جن سے یہ تاثر ابھرا کہ میں دہشت گردی سے متاثرہ افراد کے مخالفین کا ساتھ دے رہا ہوں۔ انہوں نے وضاحت کی کہ مقتول کے بھائی جواد ملک نے قتل کے محرکات اور اس میں ملوث افراد سے متعلق مجھے حقائق سے آگاہ کیا ہے۔ بیرسٹر فہد ملک برطانوی شہری تھے اور یہاں اپنے خاندان کے ساتھ سکون کی زندگی بسر کررہے تھے لیکن اپنے آبائی وطن کی تعمیر وخوشحالی کی خاطر انہوں نے پاکستان جانے کو ترجیح دی۔ یہ انتہائی دکھ کی بات ہے کہ انہیں جوانی میں ہی بے دردی کے ساتھ قتل کردیا گیا اور اب ان کے لواحقین انصاف کے حصول کے لئے کوشاں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسے شخص کے قاتلوں کو نشان عبرت بنانا ضروری ہے تاکہ اوورسیز پاکستانیوں کو حوصلہ ملے اور یہ ظالموں کو یہ پیغام جائے کہ قانون سے کوئی بھی ماورا نہیں ۔


KK


کنگز کالج ہاسپٹل کے پوسٹ نیٹل وارڈ میں بیڈ بگز کی موجودگی کا انکشاف


لندن (نیوز ڈیسک) کنگز کالج ہاسپٹل کے پوسٹ نیٹل وارڈ میں بیڈ بگز کی موجودگی کا انکشاف ہوا ہے۔ یونٹ میں بیڈ بگز کی موجودگی کا علم ہونے کے بعد میٹرنٹی وارڈ میں کام کرنے والا سٹاف حفاظتی کپڑے پہن رہا ہے۔ڈنمارک ہل، سائوتھ لندن میں واقع کنگزکالج ہاسپٹل نے کہا ہے کہ بیڈ بگز کی موجودگی کا پتہ چلنے کے بعد بڑی تعداد میں بستروں کو جراشیم سے پاک کر دیا گیا جاسکے گا۔ ٹیکس ایمنسٹی سکیم کے تحت رئیل سٹیٹ کے علاوہ اندرون اور بیرون ملک غیر ظاہر شدہ اثاثہ جات کو 4 فیصد شرح ٹیکس کی ادائیگی پر سفید کرایا جاسکے گا۔ نقد رقومات بنک اکائونٹس میں رکھ کر ڈکلیئر کرائے سکیں گی، رئیل سٹیٹ ( پراپرٹی ) کی ایف بی آر ویلیوکے ڈیڑھ گنا قیمت پر 1.5فیصد کی شرح سے ٹیکس کی ادائیگی پر ڈکلیئر ہوگی۔ بیرون ملک دولت کو واپس ملک میں لانا ہوگا اور بیرون ملک اثاثہ جات ملک میں نہ لانے کی صورت میں دوفیصد مزید ٹیکس جمع کرانا ہوگا اور ان کیلئے مجموعی ٹیکس کی شرح 6فیصد ہوگی۔ یہ اعلان وزیراعظم کے مشیر امور خزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ نے ایف بی آر ہیڈ کوارٹر میں پریس کانفرنس میں کیا۔ اس موقع پر وزیر مملکت ریونیو حماد اظہر، معاون خصوصی اطلاعات ڈاکٹرفردوش عاشق اعوان، چیئرمین ایف بی آر شبرزیدی بھی موجود تھے۔ ڈاکٹر حفیظ شیخ نے کہا کہ اس اسکیم سے ماضی و حال میں حکومتی عہدے رکھنے والے مستفید نہیں ہو سکیں گے۔ سکیم کا مقصد ریونیو جمع کرنا نہیں معیشت کی دستاویز بندی کرنا ہے۔ اس وقت وہ کر رہے ہیں جس کی ملک کو ضرورت ہے۔ ٹیکس ایمنسٹی سکیم کا بنیادی مقصد ریونیو اکٹھا کرنا نہيں بلکہ اثاثوں کو معیشت میں شامل کر کے انہیں فعال کرنا ہے۔ کوشش کی ہے کہ یہ اسکیم بہت آسان ہو ، تاکہ لوگوں کو دقت نہ ہو اور اس پر عملدرآمد بھی آسان ہو ، کیونکہ اس کے پیچھے فلسفہ لوگوں کو ڈرانا دھمکانا نہيں بلکہ قانونی معیشت میں حصہ ڈالنے کے لیے حوصلہ افزائی کرنا ہے۔ حفیظ شیخ نے کہا کہ اس سکیم میں پبلک آفس ہولڈرز کے علاوہ ہر پاکستانی حصہ لے سکے گا۔اگر ملک باہر کے اثاثے ڈکلیئر کیے جائيں گے تو شرط یہ ہے کہ وہ کسی بینک اکاؤنٹ میں رکھے جائيں۔ملک سے باہر لے جائی گئی رقم پر چار فیصد دے کر اسے سفید کیا جاسکے گا اور وہ رقم پاکستان کے بینک اکاؤنٹ میں رکھنا ہوگی تاہم اگر کوئی شخص رقم سفید کروا کر پاکستان سےباہر ہی رکھنا چاہتے ہیں تو اس کو 6فیصد ٹیکس کی ادائیگی کر نا ہوگی۔حفیظ شیخ نے کہا کہ بے نامی اثاثوں کوبھی سفید کرایا جاسکے گا۔ بے نامی قانون جو حال ہی میں منظور ہوا اس کے تحت بے نامی اثاثہ جات ضبط کئے جاسکتے ہیں اور جیل میں بھی بھیجا جاسکتا ہے۔ اس لئے ان کو ایک موقع دیا جارہا ہے۔ ڈاکٹر حفیظ شیخ نے سوالوں کے جواب میں کہا کہ گزشتہ پانچ برسوں میں پاکستان کی برآمدات میں رتی برابر بھی اضافہ نہیں ہوا۔ انہوں نے بتایا کہ سال 2000 کے بعد سرکاری عہدہ رکھنے والے ٹیکس ایمنسٹی سکیم سے فائدہ نہیں اٹھاسکیں گے اور یہ سکیم تمام افراد اور کمپنیوں پر لاگو ہوگی۔ دنیا کے 28 ممالک سے ڈیڑھ لاکھ اکائونٹس کی معلومات مل چکی ہیں۔ ٹیکنالوجی کو استعمال میں لاکر مالیاتی ریگولیٹرز اداروں ایس ای سی پی، ایف بی آر، ایس ای سی پی، ایف آئی اے کی معلومات کو باہم مربوط کیا جائیگا اور ٹیکس نظام کیلئے استعمال کیا جائیگا۔ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ملک کی برآمدات، بیرونی سرمایہ کاری کم رہی۔ سرکاری ادارے خسارے میں رہے۔ اگر ان بڑے چیلنجز کو نمٹنے میں کامیاب نہ ہوئے تو پھر دوبارہ یہ خطرات سامنے آئیں گے۔

تازہ ترین