• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:سید علی جیلانی…سوئٹزرلینڈ
اسلام کا اصل مقصد انسان کی پوری زندگی کو اللہ تعالیٰ کی عبادت بنادینا ہے۔ انسان عبد پیدا ہوا ہے اور عبدیت اس کی عین فطرت ہے اس لئے عبادت یعنی خیال و عمل میں اللہ کی بندگی کرنے سے کبھی ایک لمحہ کیلئے بھی اس کو آزاد نہ ہونا چاہئے۔ ایمانی شعور کے ساتھ روزہ رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی جن حقیقتوں پر ایمان لایا ہے وہ اس کے ذہن میں تازہ ہوں خدا کی عظمت کا احساس، اس کے حضور جواب دہی کا تصور اس کے وعدوں پر یقین، اسکے غضب سے بچنے کی فکر، اس کے عذاب کا خوف، حضرت محمد ﷺ سے قلبی تعلق، ان کی سنت پر چلنے کا عزم یہ ساری باتیں ہمارے ذہن میں ہونی چاہئیں۔ رمضان المبارک وہ مہینہ ہے جس میں نیکیاں فروغ پاتی ہیں اور شیاطین کی کارفرمانی رک جاتی ہے۔ چونکہ تمام مسلمان بیک وقت روزہ رکھتے ہیں اور انفرادی حیثیت میں کوئی الگ الگ روزہ نہیں رکھتا اس لئے بیک وقت روزہ رکھنے سے پوری امت کے اندر اللہ تعالیٰ کی طرف ’’رجوع‘‘ کا ایسا ماحول میسر آتا ہے جس کا تصور ہم اور دنوں میں نہیں  کرسکتے۔ اس مبارک مہینے رمضان میں تمام مسلمان ’’تراویح‘‘ پڑھتے ہیں تراویح دراصل ترویحہ کی جمع ہے اور ترویحہ ہر چار رکعت کے بعد بیٹھنے کو کہتے ہیں، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص صدق دل اور اعتقاد صحیح کے ساتھ رمضان میں قیام کرے یعنی (تراویح پڑھے) تو اس کے پچھلے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔ اس حدیث سے تراویح کی فضیلت و اہمیت واضح ہوجاتی ہے۔ تراویح کا اہتمام آپ ﷺ کے زمانہ مبارکہ میں ہی ہوا، آپﷺ نے دو یا تین راتیں تراویح پڑھائیں اس کے بعد صحابہ کرامؓ آپﷺ کا انتظار کرتے رہے کہ آپ تشریف لائیں مگر آقا ﷺ باہر تشریف نہ لائے آپﷺ نے فرمایا اگر میں باہر آجاتا تو تراویح تم پر فرض ہوجاتی۔ حضور اکرمﷺ کے جلیل القدر صحابی حضرت ابوزرغفاریؓ فرماتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺکے ساتھ نماز پڑھی (تراویح) رمضان المبارک کی 23ویں رات کو ایک تہائی تک حضورﷺ نے کھڑے ہوکر نماز پڑھائی، 24ویں رات کو آپﷺ تشریف نہیں لائے، 25ویں رات کو تشریف لائے نصف شب تک نماز پڑھائی ہم نے عرض کیا اگر حضور ہمیں آج پوری رات نفل پڑھاتے تو خوب ہوتا آپﷺ نے فرمایا جو شخص امام کے ساتھ نماز ختم ہونے تک باجماعت میں کھڑا رہا اسے پوری رات کا ثواب ملے گا۔ 26ویں شب حضور اکرم ﷺ تشریف نہ لائے پھر27ویں شب آپ ﷺ لائےاور اہل بیت اطہار کو جمع کیا اور صحابہؓ کو ساتھ لےکر نماز پڑھائی یہاں تک کہ ہمیں خوف ہوا کہ ہماری سحری فوت نہ ہوجائے۔ تراویح ویسے تو حضور اکرم ﷺ کے زمانے میں شروع ہوئی لیکن اس کا خصوصی اہتمام حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ہوا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ ارشاد فرماتے ہیں کہ حضرت عمرؓ فاروق نے مجھ سے جب نماز تراویح کی حدیث سنی تو آپ نے اس پر عمل فرمایا۔ لوگوں نے دریافت کیا ’’امیرالمومنین وہ حدیث کیا ہے آپ نے ارشاد فرمایا ’’عرش الٰہی کے اردگرد ایک جگہ ہے جس کا نام خطیرہ القدس ہے وہ نور کی جگہ ہے اس میں اتنے فرشتے ہیں کہ جن کی تعداد کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا وہ عبادت الٰہی میں مصروف رہتے ہیں اور اس میں ایک لمحہ بھی کوتاہی نہیں کرتے اور جب ماہ رمضان المبارک کی راتیں آتی ہیں یہ اپنے رب سے زمین پر اترنے کی اجازت طلب کرتے ہیں اور وہ تمام بنی آدم کے ساتھ مل کر نماز پڑھتے ہیں امت محمدیہ میں سے جس امتی نے ان کو چھوا یا انہوں نے کسی کو چھوا تو وہ ایسا نیک بخت و سعید بن جاتا ہے کہ پھر کبھی بدبخت و شقی نہیں بنتا۔ یہ سن کر حضرت عمر فاروقؓ نے ارشاد فرمایا جب اس نماز تراویح کی یہ شان ہے تو ہم اس کے زیادہ حقدار ہیں پھر آپ نے تراویح کی جماعت قائم کرکے اس کو سنت قرار دیا اور آپ کے دور خلافت میں تراویح کی نماز ہمیشہ پڑھی گئی درحقیقت تراویح کو رائج کرنا اور اس کی باقاعدہ جماعت کرانے کا سہرا حضرت عمرفاروقؓ کے سر ہے۔ حضرت عمر فاروق جب رمضان المبارک کی ابتدائی رات میں گھر سے باہر تشریف لاتے اور مسجدوں میں تلاوت قرآن سنتے تو فرماتے ’’اے اللہ عمر کی قبر کو روشن کردے کہ انہوں نے اللہ کی مسجدوں کو قرآن سے منور کیا‘‘ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ حضرت عمر فاروق کے زمانے میں 8رکعت تراویح پڑھی جاتی تھی یہ بات حقائق پر مبنی نہیں اور اس کا کوئی ثبوت نہیں۔ صحابہ کرام کے قول سے ثابت ہے کہ حضرت عمر فاروق کے زمانے میں بیس20رکعت ہی تراویح پڑھی جاتی تھی۔ حضرت سائب بن یزیدؓ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق کے زمانے میں مسلمان رمضان میں بیس رکعت تراویح پڑھتے تھے۔ حضرت یزید ابن رومانؓ فرماتے ہیں کہ لوگ (صحابہ و تابعین) حضرت عمرفاروقؓ کے زمانے میں 20رکعت تراویح مع وتر پڑھتے تھے اس کو حضرت امام مالک نے موطا میں اور بیہقی سنن کبریٰ میں بیان فرمایا۔ حضرت عطا تابعیؓ فرماتے ہیں کہ میں نے صحابہ کو بیس رکعت تراویح مع وتر پڑھتے ہوئے پایا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے رمضان شریف میں قاریوں کو بلایا اور ان میں سے ہر ایک کو حکم دیا کہ لوگوں کو بیس رکعت پڑھائے اور خود حضرت علیؓ ان کو وتر پڑھاتے تھے۔ حضرت علامہ ابن عابدین شامیؒ فرماتے ہیں کہ بیس رکعت جمہور کا قول ہے اور ساری دنیا کا اسی پر عمل فقہ کے چاروں امام حضرت ابو حنیفہ، حضرت امام شافعی، حضرت امام مالک اور حضرت امام احمد بن حنبل ہمیشہ بیس رکعت ہی پڑھتے رہے اگر کہیں 8رکعت تراویح کا ثبوت ہوتا تو ان میں سے ایک ضرور پڑھتا۔ امام شعرانی فرماتے ہیں امام مالک 36رکعت ادا کرتے تھے غرض بیس رکعت تراویح سے کم کسی بھی امام کا منصب نہ ہوا۔ حضرت امام غزالی فرماتے ہیں کہ تراویح حضورﷺ کی سنت ہے اور وہ بیس رکت ہے۔ علماء کرام نے اس کی حکمت بھی بتائی ہے کہ بیس رکعت رات دن میں  فرض و واجب ہیں سترہ رکعت فرض اور تین وتر اس لئے رمضان المبارک میں بیس رکعت تراویح مقرر کی گئی ہے تاکہ فرض و واجب کے مدارج  اوربلند ہوجائیں اور ان کی خوب تکمیل ہو جائے غرض یہ کہ صحابہ کرام،خلفاء راشدین، تابعین تمام امام، غوث الاعظم، عبدالحق محدث دہلوی سب کے نزدیک تراویح کی 20رکعت ہیں۔ تراویح نبی کریم ﷺکی ایسی سنت ہے جس کو تمام صحابہ نے نہ صرف یہ کہ حضور اکرم ﷺ کے ظاہری زمانہ مبارک میں اپنایا بلکہ بعد میں جب تک وہ زندہ رہے اس پر پوری طرح عمل کرتے رہے۔ تراویح میں ایک مرتبہ قرآن کریم ختم کرناسنت موکدہ ہے اور دو مرتبہ فضیلت اور تین مرتبہ افضل ہے۔ تراویح کی بیس رکعتیں دس سلام سے پڑھنا چاہئےیعنی ہر دو رکعت کےبعد سلام پھیرے۔ تراویح میں جماعت سنت کفایہ ہے اگر محلہ کے سب لوگ چھوڑ دیں گے تو سب گناہ گار ہوں گے۔ ہر دو رکعت تراویح کی الگ الگ نیت کرے اور اگر ایک ساتھ بیس رکعت کی نیت کرلی تو بھی جائز ہے نابالغ کے پیچھے بالغین کی تراویح نہیں ہوگی رمضان میں وتر جماعت کے ساتھ پڑھنا افضل ہے خواہ اسی امام کے پیچھے یا دوسرے کے پیچھے۔ تراویح بیٹھ کر پڑھنا بلاعذر مکروہ ہے۔ اگر امام غلط پڑھتا ہو تو دوسرے محلہ کی مسجد میں جاسکتے ہیں اور اگر دوسری مسجد کا امام خوش آواز ہو یا ہلکی قرآت کرتا ہو تو دوسری مسجد جانا جائز ہے۔ امام سے غلطی ہوئی کوئی سورت یا آیت چھوٹ گئی تو مستحب یہ ہے کہ اسے پڑھ کر امام آگے بڑھے سلام پھیرنے کے بعد کوئی کہتا ہے کہ 2رکعت ہوئیں کوئی کہتا ہےکہ3 ہوئیں تو امام کے ذہن میں جو ہو اس کا اعتبار ہے مسلمان عبادت کرکے ہی اپنے رب کی رضا حاصل کرتا ہے یہ رمضان کے 30دن ہیں جس میں ہم اپنے آپ کو تبدیل کرسکتے ہیں آیئے عہد کریں کہ اللہ کے عبادت گزار اور نیک بندے اس رمضان میں بن کر دکھائیں گے۔
تازہ ترین