• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اے ماہِ رمضان سلام تجھ پر... اے ماہِ قرآں سلام تجھ پر

مہمانانِ گرامی: ڈاکٹر منظور چوہدری اینڈ فیملی

عکّاسی و اہتمام: عرفان نجمی

لے آؤٹ: نوید رشید

’’رمضان المبارک‘‘ کا عشرئہ مغفرت بھی روزے داروں، اللہ کے پیاروں کے لیے عفوودرگزر، بخشش و مغفرت کے کئی دَر کھول کے خود سامانِ رخصت باندھے کھڑا ہے۔ آج غروبِ آفتاب سے پہلے پہلے اللہ کے کئی چُنیدہ بندے صرف اور صرف اپنے رَب کو راضی کرنے کی خاطراپنا گھربار چھوڑ کے، دنیاوی لذائذ سے باز رہ کے، اِک مُعیّنہ مدّت کے لیے مساجد میں گوشہ نشینی (اعتکاف میں بیٹھنے) اختیار کرنے جارہے ہیں، تو کئی مومنات، محصنات گھروں میں اعتکاف نشیں ہوں گی۔

اللہ عزّوجل کے اپنے مہینے، باقی تمام مہینوں کے سردار، ’’ماہِ صیام‘‘ کے اَن گنت رحمتوں، برکتوں سے مزیّن، فضائل و مناقب سے بھرپور و مالا مال دو عشرے تمام ہوئے، اور پتا بھی نہ چلا۔ اب فضیلت و اہمیت کے اعتبار سے سب سے اہم عشرہ یعنی نارِ جہنّم سے نجات کے دس یوم نصیب والوں، خوش بختوں کا مقدّر بننے جارہے ہیں اور کون جانے کس کی ان دس دِنوں کی عاجزی و انکساری، عبادت و ریاضت، گریہ زاری، آہ وبکا، مناجاتیں، عرضیاں، دُعائیں، التجائیں مالکِ کون و مکاں کے دربار میں ایسی مقبولیت حاصل کرلیں کہ دین و دنیا دونوں ہی سنور جائیں۔

ابوالفرج ابنِ جوزی ؒنے ماہِ صیام اور سال کے بقیہ گیارہ ماہ کو حضرت یعقوب علیہ السلام کے بارہ بیٹوں سے تشبیہ دیتے ہوئے کیا ہی خُوب صُورت بات کی کہ ’’جس طرح حضرت یعقوب علیہ السلام کے بارہ بیٹوں میں سے حضرت یوسف ؑانتہائی پیارے، لاڈلے، دل کی ٹھنڈک، آنکھ کا تارا تھے، اسی طرح پروردگارِ عالم کو بھی سال کے بارہ مہینوں میں سے، اپنا یہ ایک مہینہ بہت پیارا، لاڈلا، بے حد عزیز ہے۔ اور جس طرح ربِ کائنات نے حضرت یعقوب علیہ السلام کے صرف ایک بیٹے، حضرت یوسف ؑ کی دُعا کی بدولت بقیہ گیارہ بیٹوں کے سب گناہ معاف فرمادیئے تھے، بعینہ یہ اِک ماہِ مقدّس، ہم گناہ گاروں، عاصیوں کے بھی باقی گیارہ ماہ کے سارے اعمالِ بد کی معافی و بخشش کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ ‘‘ اسی طرح حضرت مجدّد الف ثانی ؒنے اپنے ’’شاہ کار مکتوبات‘‘ میں ایک جگہ لکھا کہ ’’جس کا رمضان منتشر اور بے ترتیب گزرے گا، اُس کا پورا سال انتشار و بے ترتیبی کا شکار رہے گا اور جس کا رمضان منظّم و مجتمع ہوگا، پھر اُس کا پورا سال بھی ایسا ہی ہوگا۔‘‘ جب کہ سیّد ابوالاعلیٰ مودودی ؒ کی ایک تحریر سے اقتباس ہے کہ ’’سکتے کے مریض کا آخری امتحان اس طرح کیا جاتا ہے کہ اُس کی ناک کے پاس آئینہ رکھ دیتےہیں۔

اگرآئینےمیں کچھ دھندلاہٹ پیدا ہو، تو سمجھتے ہیں کہ ابھی جان باقی ہے، ورنہ اُس کی زندگی کی آخری اُمید بھی ختم ہوجاتی ہے۔ اِسی طور مسلمانوں کی کسی بستی کاامتحان لینا مقصود ہو، تو اُسے رمضان کے مہینے میں دیکھنا چاہیے۔ اگرتقویٰ، خوفِ خدا، نیکی کے ابھار کے جذبات نظر آئیں، تو سمجھیں ابھی زندہ ہے اور اگر اس ماہ بھی نیکی کا بازار سرد، فسق و فجور کے آثار نمایاں اور اسلامی حُسن مُردہ نظر آئے، تو پھر، ’’انالِلہ واِنا الیہ راجعون‘‘ پڑھ لیں۔‘‘

تو اب ماہِ مبارک، رمضان کریم کا محض ایک عشرہ ہی باقی بچا ہے۔ گرچہ عظمت و فضیلت، قدر و قیمت کے اعتبار سے باقی دو عشروں کی نسبت اس کی کہیں زیادہ اہمیت ہےکہ اِسی میں وہ ایک رات پوشیدہ ہے، جو ہزار مہینوں (کم و بیش اسّی سال) سے افضل ہے۔ جس کی عبادت کا ثواب ہزار ماہ کی عبادات سے زیادہ ہے۔یہ وہ رات ہے، جس میں دنیائے انسانیت کو قرآنِ مجید جیسا اَن مول تحفہ عنایت کیا گیا۔ یہ وہ رات ہے، جس میں ملائکہ اور روح الامین (حضرت جبرائیل علیہ السلام) اپنے رب کےحکم سےہر کام کےلیے(اللہ تعالیٰ سال بھر کے تقدیر کے فیصلے فرشتوں کے حوالے فرمادیتےہیں تاکہ وہ اپنے اپنے وقت پر اُن کی تکمیل کرتے رہیں)اُترتے ہیں اور یہ رات طلوعِ فجر تک سراسر امن و سلامتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس رات کی جلالت و منزلت اور مقام و مرتبے کے سبب اس کا نام ’’لیلۃ القدر‘‘رکھااور اسےرمضان کے آخری عشرے میں تلاش کرنا مستحب ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسی مبارک رات کی تلاش کے لیے اعتکاف فرماتے اور آخری عشرے میں پوری پوری رات عبادت میں مشغول رہتے۔

حضرت عائشہ صدیقہ؅ فرماتی ہیں کہ ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آخری عشرے میں اتنا مجاہدہ کیا کرتے، جتنا دوسرے دنوں میں نہیں کیا کرتے تھے۔ رات بھر بیدار رہتے۔ کمرکس لیتے اور اپنے گھر والوں کو بھی جگاتے تھے۔‘‘ (صحیح بخاری، صحیح مسلم)۔ صحیحین کی حدیث میں ہے، حضرت ابوہریرہ؄ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جو شخص شبِ قدر کو ایمان اور اجروثواب کی نیّت سے عبادت کرے، اُس کے سارے پچھلے گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں۔‘‘ یعنی ابھی بھی وقت ہے دین و دنیا کی بھلائی، سلامتی، اصلاح و فلاح کے لیے نہایت خشوع و خضوع، عجز و انکساری کے ساتھ گڑگڑا گڑگڑا کے، گریہ و زاری کرکے، ضد لگاکے، منّت سماجت کرکے دعائیں مانگی اور قبول کروائی جاسکتی ہیں۔

خالقِ کون و مکاں کی ناراضی کو رضامندی میں بدلا، کایا پلٹی، بگڑی بنائی جاسکتی ہے۔ بس ضرورت صرف اور صرف خلوصِ نیّت، صدقِ دل سے اِک بارربّ کریم کو پکارنے کی ہے کہ وہ تو منتظر رہتا ہے اپنے بندوں کی پُکار، توبہ استغفار کا۔ اس کے نزدیک تو وہ اِک آنسو، جو تنہائی میں خوفِ خدا سے نکلے، درّنایاب سے افضل ہے۔ وہ سارا سال ہمارے کتنے ایسے عیبوں، گناہوں کی پردہ پوشی کرتا ہے کہ جن میں سے کوئی ایک عیاں ہوجائے، تو ہم خود سے بھی نہ نظریں ملاسکیں، تو کیا اس پیارے، لاڈلے مہینے میں کہ جسے پروردگار خود اپنا مہینہ قرار دیتا ہے، جس کے اجرو ثواب کو اُس نے اپنی رحمت و عنایت سے مشروط کردیا ہے، ہم خلوصِ نیّت، رقیق القلبی سے اپنی دنیا و آخرت کی بھلائی مانگیں گے، تو وہ نہیں دے گا۔ یقیناً دے گا۔

پورے تیقّن کے ساتھ اس ماہِ مبارک کی باقی تمام تر ساعتوں کو اپنے لیے بخشش و نجات کا ذریعہ بنالیں۔ خود کو اس قدر منظّم و مجتمع کرلیں کہ پھر سال بھر کسی انتشار و بے ترتیبی کا کھٹکا نہ رہے۔ دنیا کو اپنے زندہ ہونے کا بھرپور احساس دلائیں۔ جس قدر بھی فیوض و برکات، فضائل و مناقب سمیٹ سکتے ہیں، جھولیاں بھر بھر سمیٹ لیں کہ کیا خبر، اگلے برس یہ مقدّس و محترم ساعتیں ہمارے مقدر میں لکھی بھی ہیں یا نہیں۔

ماہِ صیام کی کچھ قیمتی، زرّیں، اَن مول ساعتوں کی صُورت، یہ اِک چھوٹی سی بزم برائے تحفۂ رمضان المبارک حاضر ہے۔ گرقبول اُفتد،زہےعزّو شرف ۔

تازہ ترین