• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مسرت راشدی

دور حاضر میں دنیا کے ہر شعبے میں خواتین مردوں کے شانہ بشانہ ہیں۔ سائنسی میدان میں فی الحال ان کی تعداد مردوں کےمقابلے میں خاصی کم ہے لیکن اب اس میں بتدریج اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ خواتین کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ صرف تعلیم اور طب ہی نہیں بلکہ ہر شعبے میں مردوں کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر آگے بڑھیں۔ اسی نکتہ نظر کی وجہ سےوہ مختلف شعبوں میں نمایاں کارکردگی دکھا رہی ہیں۔یہ امر قابل ستائش ہے کہ پاکستان کی خواتین سائنسدانوں کی 25.6 فیصد تعداد نیچرل سائنس سے منسلک ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق خواتین اور بھی دلچسپی لیں تو اس شرح کو مردوں کے برابر لایا جاسکتا ہے۔ ان کے مطابق سن 2030 میں یہ فرق ختم ہو جائے گا۔

دنیا بھر کی طرح پاکستانی خواتین بھی سائنسی ترقی میں حصہ لے رہی ہیں۔ پاکستانی خواتین سائنسدانوں کی بات کی جائے تو کئی نام قابل ذکر ہیں۔ تسنیم زہرا حسین پاکستان کی نمایاں سائنسدان ہونے کے ساتھ ساتھ پہلی خاتون ہیں، جنہوں نے سٹرنگ تھیورسٹ کے طور پر اپنی کارکردگی کا لوہا منوایا۔ زرتاج وسیم جو STEAMایجوکیشن سپیشلسٹ میں قابل فخر نام ہیں۔ ڈاکٹر بینا شاہین، جنہوں نے 250 سے زائد ریسرچ آرٹیکل لکھے اور 12 پیٹنٹ ان کے نام پر موجود ہیں۔ انہیں کئی ایوارڈز سے بھی نوازا گیا۔ ڈاکٹر رابعہ حسین نے برسن ییلو ایوارڈ کے علاوہ اور کئی ایوارڈ بھی حاصل کیے اور ان کی خدمات کو سراہتے ہوئے، انہیں یونیورسٹی آف لندن کا فیلو بھی بنایا گیا۔سابق وفاقی وزیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے بھی ملک کا نام خوب روشن کیا اور کئی ایوارڈز کے علاوہ انہیں رائل کالج آف فزیشن کا ممبربنایا گیا۔ ڈاکٹرحناچوہدری نے بھی کئی ایوارڈز اپنے نام کیے، جن میں سے کلینشین سائنٹسٹ ایوارڈ سرفہرست ہے۔ صرف یہی نہیں ان کے علاوہ بھی کئی پاکستانی لڑکیاں سائنسی ترقی میں فعال کردار ادا کر رہی ہیں۔ پاکستانی خاتون سائنسدان ڈاکٹر خالدہ مسرت نے استعمال شدہ پانی کو زہریلا ہونے سے بچانے اور اسے دوبارہ استعمال کے قابل بنانے کا طریقہ ایجاد کرکے دنیا کو حیران کر دیا ، اس کارنامے پر اقوام متحدہ نے انہیں بین الاقوامی محقق برائے تحفظ آبی وسائل قرار دیا ۔

ہر سال 11 فروری کو ’انٹرنیشنل ڈے آف ویمن اینڈ گرلز ان سائنس‘ منایا جاتا ہے۔ اس دن سائنس کے شعبے سے منسلک عورتوں کی خدمات کو سراہا جاتا ہے اور ان کے بارے ميں آگہی پہنچائی جاتی ہے۔ پاکستانی خواتین سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کی جانب سے متعارف کردہ ’’انٹرنیشنل ڈے آف وومن اینڈ گرلز ان سائنس‘‘پاکستان میں بھی حکومتی سطح پر منایا جائے ،تاکہ نوجوان خواتین روایتی تعلیم کے بجائے سائنسی علوم میں زیادہ دلچسپی لیں اور ملک و قوم کا نام روشن کریں۔

حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ترقیاتی پروگرام میں خواتین کی شرکت بہت کم ہے۔ ہمارے ملک میں تعلیمی شرح ہی بہت کم ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر کے مطابق کچھ کم عقل لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ لڑکیوں کی تعلیم پر پیسہ خرچ کرنا دراصل ضائع کرنا ہے کیونکہ وہ پڑھنے کے فوراً بعد شادی کرلیتی ہیں اور اپنا پیشہ چھوڑ دیتی ہیں۔ اس سے تو بہتر یہ ہے کہ لڑکوں پر یہ پیسہ خرچ کیا جائے، تاکہ وہ ڈگری لینے کے بعد ملک کی خدمت کرسکیں۔ میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ لڑکی یا خاتون ہونا کوئی جرم نہیں ہے اور یہ باآسانی سائنس و ٹیکنالوجی میں مہارت حاصل کرکے اعلیٰ کارکردگی دکھا سکتی ہیں۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اس دور جدید میں انجینئرنگ کے پیشے کا یہ مطلب نہیںکہ لڑکیاں فیکٹریوں میں کام کریں اور ہاتھوں اور چہروں کو گندہ کریں۔ آ ج کل لاتعداد ایسے پیشے ہیں ،جن میں لڑکیاں، خواتین گھر بیٹھ کر کام کرسکتی ہیں اس میں کمپیوٹر سائنس، الیکٹرانکس، ٹیکسٹائل ڈیزائن، سافٹ ویئر ٹیکنالوجی قابل ذکر ہیں۔ ‘‘

مائیکروسوفٹ کے بانی بل گیٹس کے بعد سائنسی شعبے میں خواتین کی ترقی کے لئے ان کی اہلیہ میلنڈا گیٹس بھی میدان عمل میںاپنی کار کردگی دکھا رہی ہیں، ان کے خیال میں’’سائنسی شعبہ میں خواتین کے کردار کو بام عروج پر پہنچایا جائےگا‘اس بارے میں وہ کہتی ہیں کہ خواتین کے معاملے میں یہ شعبہ دقیانوسیت کا شکار ہے، اس شعبے میں خواتین کو عموما خوش آمدید نہیں کہا جاتا۔وہ خود کمپیوٹر سائنس، معاشیات اور بزنس ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز کی ڈگری رکھتی ہیں، جبکہ انہوں نے اپنے شوہر کے ساتھ مائیکرو سافٹ کمپنی میں ایک دہائی تک کام کیا ہے۔

یونیسکو کے اعداد و شمار کے مطابق صرف 30فی صدطالبات اعلیٰ تعلیم کےلئے اسٹیم سائنس ، ٹیکنالوجی، انجنئیرنگ، میتھ میٹکس کا انتخاب کرتی ہیں۔ آئی سی ٹی میں 30 فی صد، نیچرل سائنس میں 5فی صد،جبکہ انجنئیرنگ ، مینو فیکچرنگ اور تعمیرات کے شعبہ کاانتخاب صرف 8 فی صد طالبات کرتی ہیں۔

امریکہ کی نارتھ ویسٹرن يونیورسٹی کے محققین کی تحقیق کے مطابق سائنس کو مردوں کے وابستہ کرنے کی منطق دنیا بھر میں پائی جاتی ہے،جہاں سائنس کے شعبے میں خواتین کا تناسب زیادہ ہے ،وہاں یہ سخت رویہ زیادہ مضبوط نہیں ۔

ایل ایس ایچ اگلی، کے مطابق،’’ جو لوگ خواتین کے سائنس کے شعبے میں غیر مساوی نظریہ رکھتے ہیں ، ان کے رویہ کی سختی ختم ہوجانا چاہئے‘‘۔

1972میں مردوں اور خواتین کے مابین سائنسی خدمات میں تعداد کا فرق بالترتیب 97 فی صد کے مقابلے میں 3 فی صد تھا۔ 1998 میں یہ فرق 90 کے مقابلے میں 10 فی صد رہ گیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ خواتین کی سائنس میں دلچسپی بڑھی تو اس میدان میں مردوں اور خواتین کی شمولیت میں فرق بھی کم ہو گیا۔ 2013 میں امریکی خواتین کی سائنس کے میدان میں نمائندگی 21 فیصد ، پاکستان میں 18 فیصد تھی، جبکہ بولیویا 63 فیصد خواتین سائنسدانوں کے ساتھ سرفہرست تھا۔ مجموعی طور پر دنیا بھر میں 28 فیصد خواتین سائنسدان تھیں۔

14مارچ 2011کو اقوام متحدہ کے Commission on the Statics of womenنے اپنے 55ویں اجلاس کی رپورٹ میںحتمی طور پر فیصلہ کیا کہ خواتین کی تعلیم کےساتھ سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبہ میں کردار انتہائی ضروری ہے، تاکہ خواتین مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہو سکیںاور باعزت روزگار کمانے کے قابل ہونے کےساتھ عالمی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔اقوام متحدہ کی ایک تحقیق کے مطابق تقریباً 144ترقی پذیر ممالک میںصرف 600ملین خواتین کا شعبہ سائنس میں آنے اور اگلے 3سال تک آن لائن سروسز فراہم کرنے سے سالانہ جی ڈی پی 13ملین سے بڑھ کر 18ملین تک ہو سکتا ہے۔

پاکستان میں موجود ڈیٹا سے ظاہر ہوتا ہے کہ حالیہ برسوں میں خواتین سائنسدانوں کی تعداد 23 فی صد سے بڑھ کر 27 فی صد ہوگئی ہے جو ایشیا کی اوسط ( 17 فی صد) سے زیادہ ہے اور بین الاقوامی اوسط ( ایوریج) کےبرابر ہے۔ اس ترقی کے باوجود بھی کئی شعبوں میں خواتین بہت پیچھے ہیں۔اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین کو ا ن کی صلاحیتوں سے استفادہ کرنے کےلئے بالکل اسی طرح کے مواقع فراہم ہونے چاہیے، جس طرح مردوں کےلئے میسر ہیں ۔یہ حقیقت ہمارے سامنے ہے کہ خواتین کسی بھی میدان میں مردوں سے کم تر صلاحیت نہیں رکھتیں۔عورت ہر عملی و نظری سطح پر انسانی معاشرے کی اساس ہے۔ سائنس اس وقت ایک عالمگیر موضوع ہے،اسے نظر انداز کر نا نادانی ہے۔ہمارے ملک میں 50فیصد سے زائد آبادی خواتین کی ہے اور یقینا ملک کے کسی بھی شعبہ زندگی میں انہیں نظرانداز کر کے ترقی کا خواب دیکھنا عبث ہے۔

تازہ ترین