• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم خرابی یا خامیوں کی نشاندہی کرنے میں تو بہت طاق اور بیباک ہیں لیکن ان کا حل تلاش کرنے میں اتنے ہی بودے۔ ٹیکس کی ادائیگی دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں اگر فریضہ خیال کی جاتی ہے تو اُس منزل کے حصول میں انتہائی احسن اقدام اور فیصلے شامل ہیں۔ اِن ممالک میں ٹیکس ادا کرنے والے کو عزت و مراعات ہی نہیں دی جاتیں، عوام کو یہ بھی یقین ہوتا ہے کہ اُن کا ادا کردہ ٹیکس خود اُن کی بہبود پر صرف ہوگا۔ اُنہیں صحت، تعلیم اور روزگار کیلئے دھکے نہیں کھانا پڑیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ اِن ممالک میں ٹیکس ادا نہ کرنے کو اخلاقی جرم تصور کیا جاتا ہے۔ ادھر ہمیں یہ بتایا جا رہا ہے کہ 90فیصد صنعتی صارفین اور 50فیصد رجسٹرڈ کمپنیاں ٹیکس گوشوارے جمع نہیں کرا رہیں، کارروائی کریں گے، چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو سید محمد شبر زیدی نے مزید کہا کہ لوگوں کو ہراساں کر کے نہیں، رضا کارانہ طور پر ٹیکس نیٹ میں لانا چاہتے ہیں۔ صنعتی صارفین میں بجلی کے صارفین کی تعداد قریباً ساڑھے تین لاکھ اور گیس کے صارفین کی تعداد سات ہزار بتائی گئی جبکہ رجسٹرڈ صارفین اُس سے بھی کم ہیں۔ بہتر ہے کہ چیئرمین موصوف صنعتی صارفین کا سروے اپنے اور متعلقہ محکموں کے سوا کسی غیر جانبدار ادارے سے کروا لیں۔ بہت سی غلط فہمیاں اسی مرحلے میں دور ہو جائیں گی۔ ٹیکس کے حوالے سے قباحت یہ بھی ہے کہ اس کی وصولی کے غالباً 5مختلف ادارے ہیں جن کا آپس میں کوئی تال میل بھی نہیں۔ یورپ اور دیگر ممالک میں عمومی طور پر ایک ہی ادارہ لوکل، صوبائی اور وفاقی سطح کے ٹیکس جمع کرکے جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے انہیں مطلوبہ جگہ پہنچا دیتا ہے یہ کرپشن روکنے کا موثر طریقہ بھی ہے۔ بصورت دیگر اصلاح احوال ممکن نہیں۔ اس میں دوسری کوئی رائے نہیں کہ ٹیکس ادا کرنا ہر شہری کیلئے ضروری ہے۔ حکومت خوف کی فضا کا خاتمہ کرے، متعلقہ محکموں میں موجود کالی بھیڑوں کی گوشمالی کرے اور ٹیکس ادا کرنے والے کو معاشرے میں معزز و محترم ٹھہرائے تو کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان میں ٹیکس کلچر قائم نہ ہو۔

تازہ ترین