اسلام آباد (طارق بٹ) قومی احتساب بیورو (نیب)کے چیئرمین کی لیک ہونے والی آڈیو-وڈیو ٹیپس کی تفتیش کیلئے پارلیمانی کمیٹی کے قیام کیلئے مسلم لیگ نون کی جانب سے قومی اسمبلی میں پیش کی جانے والی آج کی تحریک ممکنہ طور پر ناکام ہوجائے گی کیونکہ حکمران اتحاد اس کی مخالفت کرے گا۔ دریں اثناء مسلم لیگ نون کے سیکریٹری جنرل احسن اقبال نے دی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ دس روز قبل انہوں نے پارٹی کی ایڈوائزری کمیٹی کے اجلاس میں انکشاف کردیا تھا کہ چند روز میں چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کے خلاف کچھ بڑا ہونے والا ہے جیساکہ حکومت ان سے شدید پریشان ہے۔ انہوں نے بتایا کہ حکومت میں سے کسی نے انہیں یہ اطلاعات دی تھیں۔ مسلم لیگ نون کے پارلیمانی رہنما خواجہ آصف پارلیمانی پینل کی تشکیل کیلئے قومی اسمبلی میں طریقہ کار کے قوانین اور کنڈکٹ آف بزنس کے قانون 244 (بی) کا استعمال کریں گے۔ قانون کہتا ہے کہ قومی اسمبلی تحریک کے ذریعے خصوصی کمیٹی کا تقرر کرسکتی ہے۔ وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے واضح کیا ہے کہ کسی بھی پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے نیب چیف کے خلاف کوئی بھی تفتیش نہیں کی جاسکتی۔ احسن اقبال کا کہنا تھا کہ جوں ہی نیب چیف کے انٹرویو اور آڈیو-وڈیو ٹیپس کے لیک ہونے کا تنازعہ کھڑا ہوا، مسلم لیگ نون کے صدر شہباز شریف نے اپنی جماعت کے رہنماؤں کو اس معاملے سے دور رہنے کی ہدایت کی کیونکہ ہم اس جال میں نہیں پھنسنا چاہتے تھے جب حکومت اپنی ذاتی وجوہات کیلئے جاوید اقبال کو نقصان پہنچانا چاہتی ہے۔ مسلم لیگ نون ایک عرصے سے نیب چیئرمین کو ان کے عہدے سے ہٹانے کیلئے سخت حملے کر رہی ہے لیکن اب وہ اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ حکومت ایسی صورتحال پیدا کرکے انہیں عہدے سے ہٹانے پر مجبور کردینا چاہتی ہے جہاں وہ دستبردار ہوجائیں۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ نیب اس وقت غیر فعال ہوجائے گا جب اس کے چیف کو کسی بھی وجہ سے جانا پڑے گا کیونکہ چیف کے پاس تمام اختیارات ہوتے ہیں اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت ڈپٹی چیئرمین بطور چیئرمین کام نہیں کرسکتا۔ انہوں نے قومی احتساب آرڈیننس (این اے او) کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ احتساب عدالت میں داخل کئے جانے والے ہر ریفرنس کو چیئرمین سے منظوری لینا ہوتی ہے۔ حکومت اور حزب اختلاف کی اس محاذ آرائی میں نئے چیئرمین کی تقرری ناممکن نظر آتی ہے کیونکہ صدر ایسا قائد حزب اختلاف شہباز شریف اور وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ مشاورت سے کرسکتا ہے۔ اڑتی خبر یہ ہے کہ حکومت حال ہی میں تقرر کئے گئے ڈپٹی چیئرمین حسین اصغر کو اختیارات دینا چاہتی ہے لیکن ایسا نظائری قانون کے تحت نہیں کیا جاسکتا اور نیب کو چیئرمین کے علاوہ کوئی اور نہیں چلاسکتا۔ بیرسٹر عمر سجاد نے دی نیوز کو وضاحت کی کہ جب سب جانتے ہیں کہ موجودہ سیاسی کشمکش کے باعث نئی نامزدگی ممکن نہیں اور اعلیٰ عدلیہ فیصلہ دے چکی ہے کہ ڈپٹی چیئرمین بطور نیب چیف کام نہیں کرسکتا تو جو بھی جاوید اقبال کو ہٹانے کیلئے کام کر رہا ہے اس سے صاف طور پر اس خواہش کا اظہار ہوتا ہے کہ انسداد کرپشن کا ادارہ غیر فعال ہوجائے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر نیب چیئرمین خود استعفیٰ نہیں دیتے تو نیب چیئرمین کو این اے او کے تحت ہٹانا نہایت مشکل ہوگا۔ سابق اٹارنی جنرل اشتر اوصاف کا کہنا ہے کہ نیب چیئرمین کو ہٹانے کیلئے این اے او کے سیکشن 6 میں کوئی بھی فورم مہیا نہیں کیا گیا۔ عمر سجاد کا کہنا تھا کہ سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) نیب چیئرمین کے کیس میں ملوث نہیں ہوسکتا اور محسوس ہوتا ہے کہ سیکشن 6 محض بنیادوں کے حوالے سے گفتگو کرتا ہے لیکن کسی بھی ایسے فورم کی تشریح نہیں کرتا جو یہ تعین کرسکے کہ آیا ان بنیادوں سے نیب چیف متاثر ہوئے ہیں یا نہیں اور ایسا کون کرے گا۔ تاہم ان کا ماننا ہے کہ وفاقی حکومت تفتیش کا حکم دے سکتی ہے کہ آیا نیب چیف جسمانی یا ذہنی معذوری کے باعث اپنے عہدے کی ذمہ داریاں باقاعدہ طور پر ادا کرنے کیلئے نا اہل ہیں یا ناشائستہ فعل کے مرتکب ہوئے ہیں۔ عمر سجاد کا کہنا تھا کہ جیسا کہ صدر قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کی مشاورت سے چیئرمین کا تقرر کرتے ہیں، وہ اسے صرف انہی سے مشاورت کے بعد ہٹا سکتے ہیں۔ وفاقی وزیر قانون نے بھی تین روز قبل جیو نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے اسی رائے کا اظہار کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ جاوید اقبال کی کارکردگی بہت اچھی ہے اور حتیٰ کہ موجودہ تنازع کے دوران بھی ان کی دیانتداری کے حوالے سے کوئی بھی سوال نہیں اٹھایا گیا۔ عمر سجاد کا کہنا تھا کہ اگر مشورہ دینے والے دونوں افراد انکوائری رپورٹ پر کسی اتفاق رائے تک پہنچ جاتے ہیں جس میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہو کہ نیب چیف جسمانی یا ذہنی معذوری کے باعث اپنے عہدے کی ذمہ داریاں باقاعدہ طور پر ادا کرنے کیلئے نا اہل رہے ہیں یا ناشائستہ فعل کے مرتکب ہوئے ہیں تو تب ہی وہ انہیں عہدے سے ہٹانے کیلئے یہ کیس صدر کو بھیجیں گے۔ تاہم ان کے حالیہ تعلقات پر غور کریں تو وزیر اعظم اور قائد حزب اختلاف کسی بھی معاملے پر معاہدے تک ممکنہ طور پر نہیں پہنچیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب ایس جے سی کسی فرد کو ہٹانے کیلئے فورم ہوتا تو آئین میں واضح طور پر کہہ دیا گیا ہے جیسا کہ چیف الیکشن کمشنر اور ججز کے کیس میں کیا جاچکا ہے۔