بیجنگ: ڈان ونلینڈ
واشنگٹن : جیمز پولیتی
نیویارک: جوئے رینسن ، رچرڈ ہینڈریسن
امریکا اور چین کی تجارتی جنگ میں پیر کو تیزی آگئی جیسا کہ چین نے کہا کہ وہ 60 ارب ڈالر مالیت کی امریکی مصنوعات پر ٹیرف میں اضافہ کرے گا، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی دھمکی کی مزاحمت کی اور جنوری سے امریکی اسٹاک میں سب سے بڑے زوال کا باعث بنا۔
چین کے وزیر خزانہ نے کہا کہ امریکی یک طرفہ اور تجارتی تحفظ کے جواب میں ہم قدرتی مائع گیس سے لے کر ٹوتھ پیسٹ تک تمام اشیاء پر محصولات میں اضافہ کررہے ہیں،یہ ٹرمپ انتظامیہ کے گزشتہ جمعہ کو 200 ارب ڈالر کی چینی درآمدات پر 10 فیصد سے بڑھا کر 25 فیصد ٹیرف کرنے کے اقدام نے کردار ادا کیا ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ نے بعد ازاں پیر کو مزید 300 ارب ڈالر کی چینی درآمدات پر 25 فیصد ٹیرف عائد کرنے کا منصوبہ تیار کرلیا۔تاہم وہ محصولات جون کے آخر تک جاری رہنے والے عوامی تبصرے کی مدت ختم ہونے تک عائد نہیں کیے جائیں گے اور ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا تھا کہ آیا وہ اس پر کارروائی کریں گے۔
چین کی جوابی کارعوائی میں اسٹاک گرگئے کیونکہ سرمایہ کار سرکاری قرض جیسے محفوظ ترین اثاثوں کی جانب بھاگنے لگے۔ دی اایس اینڈ پی 500 جنوری سے اب تک کی بدترین سطح 2.4 فیصد گرگیا۔ جبکہ بھاری ٹیکنالوجی نیسڈیک 3.4 فیصد گرا،یہ 4 دسمبر سے اب تک اس کا سب سے بڑا نقصان ہے۔ ایف ٹی ایس ای آل ورلڈ انڈیکس 1.9 فیصد نیچے چلا گیا جو مارچ سے اب تک اس کی نچلی ترین سطح ہے۔
جاپان اور جنوبی کوریا کی اسٹاک مارکیٹس ابتدائی تجارت میں چار ماہ کی کم تر سطح پر پہنچ گئی جیسا کہ ٹاپکس 2.1 فیصد اور کوپسی 0.8 فیصد نیچے جانے کے ساتھ ایشیا میں نیچے جانے کا عمل منگل تک جاری رہا۔ آسٹریلیا کا ایس اینڈ پی/ اے ایس ایکس 200 میں 1.2 فیصد کی کمی آئی۔
اکیڈمی سیکیورٹیز کے چیف میکرو اسٹریٹیجسٹ پیٹر ٹچر نے کہا کہ حقیقت میں اس کی مشابہت یہ ہے کہ تیزی سے تجارتی معاہدہ ہونا کا امکان کم ہے۔ میرے خیال میں ہم مزید تغیر دیکھیں گے، اپور جانے کے مقابلے میں مزید نیچے جانے کے ساتھ۔ کچھ بھی واضح نہیں ہے کہ راستے کو تبدیل کریں گے۔
بیجنگ کی جانب سے پیر کو ٹیرف میں اضافے کا اعلان گھریلو سامان اور زراعت سے لے کر مینوفیکچرنگ کی وسیع حد کو متاثر کرے گا۔ ایپل میں شیئر 5.8 فیصد جبکہ کیٹر پلر کے 4.6 فیصد گرگئے۔
انویسکو کیلئے چیف گلوبل مارکیٹس اسٹرٹیجسٹ کرسٹینا ہوپر نے کہا کہ ایپل اور کیٹرپلر جیسی کمپنیوں کی امریکا سے باہر نمایاں آمدنی ہوتی ہے، فروخت میں فوری کمی سے اس طرح کی کمپنیوں پو اثر ہوگا۔یہ کسی مخصوص شعبے کی کہانی نہیں بلکہ یہ اس سے بھی وسیع کہانی ہے۔
سرمایہ کاروں نے اس پر شرطیں لگائی ہیں کہ مارکیٹ میں بحران کے باعث فیڈرل ریزرو کو شرح سود میں کمی کرنا ہوگی۔ سال کے اختتام سے قبل کٹوتی کا امکان ہے،مستقبل سے اخذ کردہ، ایک ہفتے پہلے 58 فیصد سے بڑھ کر 75 فیصد پر قائم ہے۔دو سال خزانے کا منافع 2.1 فیصد کمی سےتقریبا 8 بنیادی پوائنٹس نیچے چلا گیا،جو فروری 2018 سے اس کی نچلی ترین سطح ہے۔
چین نے ڈونلڈ ٹرمپ کے مزید جوابی کارروائی کے خلاف خبردار کرنے کے بعد کام کیا۔ٹیرف کے اعلان سے پہلے ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹوئٹ کیا کہ چین کو بدلہ نہیں لینا چاہئے ورنہ بہت برا ہوگا۔کہا کہ بیجنگ بہت بری طرح متاثر ہوگا، اگر تجارتی تنازع جاری رہا۔ انہوں نے لکھا کہ آپ کے پاس بہت اچھا معاہدہ تھا جو تقریبا تکمیل کو پہنچ گیا تھا اور آپ پیچھے ہٹ گئے۔
چین کے اقدام کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ چین کی جانب سے کچھ جوابی کارروائی کی توقع کی جارہی تھی اور یقین تھا کہ آئندہ ماہ وہ جاپان میں جی 20 سربراہی اجلاس میں اپنے چینی ہم منصب شی جنگ پنگ کے ساتھ ملاقات کریں گے۔ وائٹ ہاؤس میں انہوں نے صحافیوں سے کہا کہ ہم جس پوزیشن میں ہیں وہ مجھے پسند ہے۔ میرے خیال میں اس کے اچھے نتائج نکلیں گے۔
امریکا اور چین دونوں نے کہا ہے کہ ٹیرف کے اضافے کے باوجود دونوں ممالک کے مابین بات چیت جاری رہے گی، امریکا کے وزیر خزانہ اسٹیو منچن نے کہا کہ امریکی حکام کے چین کے دورے پر کام ہورہا ہے۔ تنازع میں اضافے نے چین کی کرنسی اور ابھرتی ہوئی مارکیٹ کی کرنسیوں کو مزید وسیعپیمانے پر متاثر کیا۔ بیرون ملک مارکیٹو ں میں ڈالر کے خلاف رینمنبی ایک فیصد نیچے آگیا،اس سال پہلی بار رینمنبی 6.9 فیصد کی سطح کراس کرگیا۔ دی ایم ایس سی آئی انڈیکس نے ای ایم کرنسیوں کے 0.6 فیصد نیچے جانے کا سراغ لگایا،یہ 2019 کا سب سے بڑا زوال ہے۔
نیو جرسی کے اکنامک آؤٹ لک گروپ کے برنارڈ باؤموہی کا کہنا ہے کہ تنازع بڑھ کر اب دو رہنماؤں کے درمیان انا کی جنگ بن چکا ہے جو یقین رکھتے ہیں کہ ان کے حلقوں کیلئے ثابت کرنے کے لیے بہت کچھ ہے۔ لیکن طویل عرصہ تک خم ٹھونکنے کی نمائش کی وجہ سے اگر عالمی بحران نہیں تو امریک مشکلات میں اضافہ کرے گا۔
چین نے کہا کہ امریکا سے آنے والی 2ہزار 4 سو 93 اشیا پر یکم جون سے ٹیرف 25 تک اضافہ کردیا جائے گا۔ان میں ایل این جی، زرعی سامان جیسے قدرتی شہد، پوٹاشیم سلفیٹ جیسے کمپاؤنڈ جو عموما کھاد میں استعمال ہوتے ہیں اور متعدد مینوفیکچرڈ مصنوعات جیسے ایل ای ڈی لائٹ بلب وغیرہ شامل ہیں۔ ایک ہزار اٹہتر اور 974 اشیا کی دیگر دو فہرستوں پر بالترتیب 20 فیصد اور 10 فیصد اضافہ ہوگا۔ان فہرستوں میں ملبوسات اور مینوفیکچرنگ سے متعلقہ سامان کے ساتھ ساتھ گھریلو سامان جیسے ٹوتھ پیسٹ اور بلیچ شامل ہیں۔595 اشیا کی مختصر فہرست میں موجودہ 5 فیصد کی سطح سے آگے اضافہ نظر نہیں آتا۔ ان اشیا میں کیمیکلز اور صنعتی سامان جیسے فورمال ڈی ہائٰڈ اور لیتھیم تھیں، الیکٹرانک اور موٹرائزڈ آلات جیسے کاروں،جہازوں اور کشتیوں کے لیے اسٹارٹرز اور تھری ڈی پرنٹرز پر بھی قلیل اضافہ ہوجائے گا۔
تین سو ارب ڈالر کے سامان کی فہرست جس پر ممکنہ ٹیرف میں اضافہ ہوگا، امریکا کے تجارتی نمائندے نے پیر کو پیش کیا،اس میں آگ بجھانے کے لیے جوتوں سے لے کرمصنوعات کی وسیع حد شامل ہے۔تاہم،ٹرمپ انتظامیہ نے کہا کہ اس میں نایاب معدنیات اور فارما سیوٹیکل شامل نہیں۔
امریکی تجارتی نمائندے نے کہا کہ وہ 17 جون تک ٹیرف پر عوامی تبصرے کا انتظار کررہے ہیں،جو لیویز پر سماعت کی تاریخ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سماعت کے بعد 24 جون تک تردید جمع کرادی جائے گی۔لہٰذااس سے پہلے ٹیرف عائد ہونے کا امکان نہیں۔
امریکی ملبوسات اور جوتا ساز ایسوسی ایشن کے صدر اور چیف ایگزیکٹو رک ہیلنبین نے کہا کہ یہ خود کو لگایا گیا زخم ہے جو ملکی معیشت کیلئے تباہ کن ہوگا۔ چین کا حالیہ ٹیرف میں اضافہ یکم جون تک مؤثر نہیں ہوگا،اور اسی طرح اضافی امریکی محصولات کے اثرات بھی یکم جون تک محسوس نہیں کیے جائیں گے،جو مذاکرات کاروں کو بات چیت کیلئے وقت فراہم کرتا ہے۔ جو سامان چین سے گزشتہ جمعہ سے قبل ہی ٹرانزٹ ہوچکا تھا اس پر دس فیصد ٹیرف عائد ہوگا، اگر وہ یکم جون سے پہلے امریکا میں پہنچ جائے۔ کورنل یونیورسٹی میں بین الاقوامی تجارت کے پروفیسر ایسور پرساد نے کہا کہ چین امریکا کے خلاف جوابی اقدام میں تناسب کی حکمت عملی پر قائم ہے۔ چین کی حکومت کا پیغام واضح ہے، یہ تجارتی تنازع کا حل چاہتی ہے اور وہ رعایتوں کیلئے تیار ہے لیکن وہ تنازع میں پیچھے نہیں ہٹیں گے اگرڈونلڈ ٹرمپ اس راستے کا انتخاب کرتے ہیں۔