• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جمیل جالبی، حاجی بغلول اور پاکستانی سیاست
ڈاکٹر جمیل جالبی عصمت چغتائی، رضیہ فصیح، ادا جعفری، زاہدہ لطف اللہ، احمد علی خان اور فصیح احمد کے ساتھ

18اپریل 2019ء کو جمیل جالبی کی وفات کے نتیجے میں پاکستان اردو ادب کے ایک بڑے دانش وَر سے محروم ہو گیا۔ اُن کی تصنیفات کی تعداد درجنوں میں ہے اور سب اعلیٰ معیار کی حامل ہیں۔ گو کہ بعض افراد اس بات کو اب بھی ناپسند کرتے ہیں کہ وہ 1983ء میں جنرل ضیاء الحق کے دَورِ آمریت میں جامعہ کراچی کے وائس چانسلر بنے، لیکن اس کے باوجود جمیل جالبی کی ادبی قد و قامت پر کوئی حرف نہیں آیا اور انہوں نے اردو قارئین کی کم از کم دو نسلوں کو متاثر کیا۔ اس مضمون میں ہم اُن کی تمام کُتب پر تبصرے کی بہ جائے ایک نسبتاً غیر معروف مقدّمے پر بات کریں گے۔ اس مقدّمے کا پاکستانی سیاست سے دِل چسپ تعلق بنتا ہے۔ ’’حاجی بغلول‘‘ اردو کے ابتدائی ناولز میں شامل ہے۔ اسے 19ویں صدی کے اواخر میں مُنشی سجاد حسین نے تحریر کیا تھا۔ جمیل جالبی نے اس ناول کو دریافت کر کے اس پر ایک مقدّمہ تحریر کیا اور اس کے ساتھ ہی ناول میں موجود مشکل یا متروک الفاظ کی ایک فرہنگ بھی بنا ڈالی۔

’’حاجی بغلول‘‘ کے مقدّمے میں جمیل جالبی بتاتے ہیں کہ منشی سجاد حسین ( 1915-1856ء) اردو زبان کے ایک بڑے مزاح نگار تھے، جنہوں نے 1877ء میں محض 21برس کی عُمر میں ’’اودھ پنچ‘‘ جاری کیا۔ ’’حاجی بغلول‘‘ کو اقساط میں شایع کیا گیا اور جلد ہی اس کا شمار اردو کے مقبول ترین ناولز میں ہونے لگا۔ جمیل جالبی نے ’’حاجی بغلول‘‘ کی مختلف اقساط جمع کر کے اشاعتی غلطیوں کی تصحیح کی اور پھر اس پر 1959ء میں ایک مقدّمہ تحریر کیا۔ یہ مقدّمہ بہ مشکل 30صفحات پر مشتمل ہے اور اس میں اُس دَور کے اردو ادب سے متعلق بیش بہا معلومات موجود ہیں۔ اس مقدّمے کے مطابق اردو ناول نگاری زیادہ پُرانی نہیں، یہ مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد سامنے آئی۔ اودھ (موجودہ یوپی یا اُتر پردیش) انیسویں صدی کے وسط میں اپنی شان و شوکت کھو چُکا تھا۔ واجد علی شاہ کو گرفتار کر کے کلکتہ بھیجا جا چُکا تھا اور انگریزوں نے وہاں اپنے قدم جما لیے تھے۔ نئے ادب و ثقافت کی آنکھیں کُھل رہی تھیں۔ اُس وقت تک اردو ادب میں زیادہ تر شاعری اور داستانوں کا چلن تھا اور پُرانی تہذیب کے دل دادہ باشندے داستان گوئی میں وقت ضایع کر رہے تھے۔ جمیل جالبی کے مطابق انگریزی تہذیب نے ہندوستان میں ناول کو متعارف کروایا اور ڈپٹی نذیر احمد اوّلین ناول نگاروں میں سے تھے۔

1877 ء میں لکھنٔو سے ’’اودھ پنچ‘‘ کے اجرا کے بعد پنڈت رتن ناتھ سرشار نے 1878ء میں ’’اودھ اخبار‘‘ جاری کیا، جس نے ’’فسانۂ آزاد‘‘ کو اقساط میں شایع کرنا شروع کیا۔ جمیل جالبی اپنے مقدّمے میں مختصر بیان کرتے ہیں کہ کس طرح چارلس ڈکنز اور سر والٹر اسکاٹ کے ناولز نے اردوادب کو متاثر کیا، جب کہ خود ڈکنز اور اسکاٹ، دان کیخوتے یا دان کوئک زوٹ سے متاثر تھے۔ ’’فسانۂ عجائب‘‘ اور ’’حاجی بغلول‘‘ نے فوراً قارئین کی توجہ حاصل کر لی اور ’’اودھ پنچ‘‘ جلد ہی ایک نمایاں مزاحیہ اخبار بن گیا، جب کہ مُنشی سجّاد حسین کو ایک معروف مزاح نگارتسلیم کرلیا گیا۔1901ء میں صرف 45برس کی عُمر میں منشی سجّاد حسین پر فالج کا حملہ ہوا۔ 1913ء میں ’’اودھ پنچ‘‘ بند کر دیا گیا اور1915ء میں وہ وفات پا گئے ۔ جمیل جالبی لکھتے ہیں کہ زندگی کے آخری برسوں میں منشی سجّاد حسین کو متعدد مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، لیکن اس کے باوجود وہ اپنی موت تک کم از کم 6کام یاب ناولز تخلیق کر چُکے تھے، جن میں پیاری دُنیا، میٹھی چھری، احمق الذی، حیاتِ شیخ چلّی، طرح دار لونڈی اور حاجی بغلول شامل ہیں۔ جمیل جالبی کے خیال میں ’’حاجی بغلول‘‘ کا کردار دان کیخوتے اور پِک وِک کا امتزاج تھا۔ سجّاد حسین نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے ’’حاجی بغلول‘‘ اور ’’حرفہ ریوڑی‘‘ کے کردار تشکیل دیے۔ جمیل جالبی ایک اور اہم نکتے کی طرف توجّہ دلاتے ہوئے کہتے ہیں کہ احمقوں کے کردار اوران کے مزاحیہ مگر الم ناک معرکے خود قارئین کی دِل چسپی سے تشکیل پاتے ہیں، کیوں کہ قارئین یا تماشائی بار بار آنے والی مصیبتوں سے لُطف لیتے ہیں۔ ایسے کردار تخلیق کرنے والے قارئین کی ذہنی سطح کو پیشِ نظر رکھتے ہیں اور ان کی توقّعات پر پورا اُترنے کی کوشش بھی کرتے ہیں اور قارئین یا تماشائیوں کی پسند و ناپسند سے ایک غیر سنجیدہ بیانیہ جنم لیتا ہے، جس سے قہقہوں کے ساتھ آنسو بھی برآمد ہوتے ہیں۔

جمیل جالبی کے مطابق’’ جب ہم بالغ النّظر ہو جاتے ہیں، تو ہمیں حاجی بغلول اور آزاد جیسے کردار نظر نہیں آتے، لیکن جب ہم اس منزل پر پہنچ کر عہدِ رفتہ کے دریچوں میں جھانکتے ہیں، تو بہت سے کردار اپنی عجیب و غریب اور مخصوص خصوصیات لیے ذہن کی سطح پر اُبھرنے لگتے ہیں۔ بچّہ اپنے بڑوں اور ساتھیوں کو بغیر کسی گہرائی یا تعلق کے دیکھتا ہے اور اس کی نظر ان پر براہِ راست پڑتی ہے۔ ان کی بہت سی حرکات و سکنات اسے عجیب سی دکھائی دیتی ہیں اور وہ اپنے استاد، محلّے دار، عزیز اور رشتے دار کی عادات و اطوار اور وضع قطع سے نہ صرف اثر قبول کرتا ہے، بلکہ ان سے اپنے شعور کی تہذیب بھی کرتا جاتا ہے۔ بچپن میں کوئی بھی چیز معمولی نہیں ہوتی اور بچّہ جب کسی چیز سے متاثر ہوتا ہے، تو یہ نقوش اس کے شعور میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جم کر رہ جاتے ہیں۔‘‘

جمیل جالبی، حاجی بغلول اور پاکستانی سیاست
سابق صدر، غلام اسحٰق خان کو اپنی ریسرچ رپورٹ پیش کرتے ہوئے

کرداروں پر حالات و واقعات کا اثر ہوتا ہے اور خود کردار بھی حالات پر اثر ڈالتے ہیں۔ مثلاً حاجی بغلول سنجیدگی سے کچھ نہ کچھ حاصل کرنا چاہتا ہے، مگر وہ ایک یک جہتی دماغ کا احمق ہے، جس کی انا بہت بلند ہے اور جو احساسِ برتری کا شکار ہے اور اسی لیے وہ سب کے مذاق کا نشانہ بنتا ہے۔ اس پر طرّہ یہ کہ بغلول کو خود اپنی صلاحیتوں اور علم کے بارے میں خاصی غلط فہمی ہے۔ وہ سب جاننے کا بہانہ کرتا ہے، جس کے خوفناک نتائج نکلتے ہیں۔ وہ خود اپنی حماقتوں کا شکار ہے، مگر اسے اس کا اندازہ بھی نہیں اور سب اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔ پھر بغلول خود کو سنجیدہ اور فہمیدہ انسان کے طور پر پیش کرتا ہے۔ اسے اپنے دوستوں پر فخر ہے اور اس کے ساتھ ہی وہ خوشامد پسند بھی ہے۔ بغلول ہر روز اپنے لیے ایک نئی مشکل پیدا کر لیتا ہے، جس سے اس کے ساتھی بھی متاثر ہوتے ہیں۔ جب وہ نیلام میں ایک گھوڑا خریدنے جاتا ہے، تو اس کے ساتھ دھوکا ہو جاتا ہے اور جب اسے کسی سے محبت ہو جاتی ہے، تو اسے روحانی چکر میں ڈال دیا جاتا ہے۔ اسے ایک کے بعد ایک مُہم سَر کرنے کا جنون ہے اور ایسے منصوبے بناتا ہے، جن کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔منشی سجاد حسین کا بغلول سب کچھ بہت جلدکرنا چاہتا ہے۔ اس میں صبر کی کمی ہے اور جب اس کی خواہشات پوری نہیں ہوتیں، تو وہ بچّوں کی طرح ہنگامہ کرتا ہے۔ اس کی ذہنی حالت اور تخیّل اس کی پسند و ناپسند سے شدید متاثر ہوتے ہیں اور اس طرح ایک الم ناک طربیہ جنم لیتا ہے۔ حاجی بغلول اردو ادب کا ایک منفرد کردار ہے، جو قارئین کی ہم دردی تو حاصل کر لیتا ہے، مگر اس کی شخصیت کا دوغلا پن ہی اس کا سب سے بڑا دشمن بن جاتا ہے۔ آخری باب میں حاجی بغلول اپنے دوستوں اور دشمنوںپرالزام دھرتے ہوئے اعتراف کرتا ہے کہ اب وہ دُنیا کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہا۔ وہ اپنا بوریا بستر لپیٹتا ہے اور کسی دُور مقام پر نکل جاتا ہے۔ یہاں بھی مصنّف مزاح سے کام لینے کی کوشش کرتا ہے، مگر الم ناک نتائج چُھپا نہیں سکتا۔ بغلول کے کچھ مدّاح بالغ ہو جاتے ہیں، کچھ ایسا کرنے سے انکار کر دیتے ہیں اور دیگر تماشائی توقّع کرتے ہیں کہ اب ’’اسکرپٹ رائٹر‘‘ کوئی اور نیا مزاحیہ کردار یا ایک نیا باب ان کے سامنے پیش کرے گا۔

تازہ ترین