• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خیال تازہ … شہزادعلی
تھریسامے تاریخ میں اس برطانوی وزیراعظم کے طور پر یاد رکھی جائیں گی جن کا دور اقتدار پر “بریگزٹ“ کا صرف ایک لفظ چھایا رہا ۔ نم ناک، پر اشک مسز مے نے ٹوری میں لڑائی کا راستہ کھول دیا، Tearful May opens way for Tory battle نو ۔ ڈیل پراسپکٹ no-deal prospect میں اضافہ کیونکہ جانسن واضح طور پر فیورٹ قرار دیا جا رہا ہے، آئوٹ گوئنگ، outgoing رخصت ہونے والی وزیراعظم کی اپنے جانشین سے کمپرومائز کی التماس،برٹش پولیٹیکل لینڈ سلائیڈ پر یہ وہ تازہ منظر ہے جسے برطانوی کوالٹی جرنلزم کے باوقار نام فنانشل ٹائمز ویک اینڈ نے اپنے ہفتہ اتوار 25/26 مئی کی اشاعت میں شہ سرخیوں میں بیان کیا ہے۔ ایک نم ناک مسزمے نے بالآخر بریگزٹ ڈلیور کرنے کی اپنی لڑائی سے ہاتھ کھنچ لیا، اپنا استعفی پیش کر دیا، جس سے حکمران ٹوری پارٹی کا پنڈورہ بکس کھل جائے گا، ڈاؤننگ سٹریٹ میں برطانوی قوم کے نام ایک جذباتی خطاب میں وزیراعظم کی یہ اپیل تھی کہ مستقبل کا لیڈر بریگزٹ پر ایک کمپرومائز کی تلاش کرے۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے ایم پیز کو اپنی ڈیل کی حمایت کے لئے قائل کرنے کے لئے جو کچھ ممکن تھا وہ سب کچھ کیا لیکن اب یہ مجھ پر واضح ہے کہ ملک کے بہترین مفاد میں یہی ہے کہ ان کوششوں کو اب ایک نیا لیڈر لیڈ کرے۔ وہ ایک کیئر ٹیکر پرائم منسٹر کے طور پر ٹوری لیڈر کی تعیناتی تک برقرار رہیں گی اور صدر امریکہ ڈونلڈ ٹرمپ کے جون 3 تا 5 سٹیٹ وزٹ کی میزبانی کریں گی۔ وزیراعظم باضابطہ طور پر پارٹی لیڈر کی حیثیت سے 7 جون کو سٹینڈ ڈاؤن کریں گی۔ مسزمے کے اس خطاب کے ساتھ ہی حکومتی پارٹی کی لیڈر شپ کی دوڑ شروع ہوگئی ہے۔ اس سے ایک نو ۔ ڈیل بریگزٹ کے بیانیے کو بڑھاوا ملنے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ مسز مے کے اپنے وزرارت عظمیٰ کے تین سال کے اختتام پر مستعفی ہونے کے اعلامیے کے چند گھنٹوں کے اندر ہی بورس جانسن اور دیگر ٹوری لیڈرشپ حریفوں نے مقابلے کی دوڑ میں شامل ہونے کا اعلان کر دیا، آخر ایسا کیوں نہ بھی ہو کہ کامیاب امیدوار ماہ جولائی کے اواخر میں برطانیہ کے وزیراعظم کے منصب پر فائز ہوگا۔ تاہم یہ منصب جاہ عبرت بھی ہے کہ دستبردار ہونے والی پرائم منسٹر نم ناک ہے اقتدار کے ایوان سے رخصتی کا ازخود اعلان کرنا اور وہ بھی قبل از مدت واقعی ایک مشکل ترین مرحلہ ہے اخبار کے فرنٹ پیج پر پر اشک وزیراعظم کی تصویر ہے جبکہ دوسری طرف اسی عہدہ جلیلہ کے حصول کیلئے بے تاب سیاستدانوں کی اس دوڑ میں شامل ہونے کی خبریں مسلسل فائل کی جارہی ہیں کہ عہدہ میں کشش بھی بہت ہے۔ سابق فارن سیکرٹری بورس جانسن کا سوئٹزرلینڈ سے ایک تقریر میں یہ کہنا تھا کہ ہم ای یو کو ڈیل یا نو ڈیل 31 اکتوبر کو خیر باد کہہ دیں گے ہمارے اگلے لیڈر کی جاب یہ ہوگی کہ وہ یوکے کو ٹھیک طرح ای یو سے باہر نکالنا ہوگی۔ مسٹر جانسن واضح طور پر اگلے وزیراعظم کے لئے پسندیدہ ہیں جبکہ امریکی صدر بھی مسٹر جانسن کے ایک فرینڈ ہیں اور بورس جانسن کے ٹوری کے اندر حریفوں کو یقین ہے امریکی صدر اس دورہ کو سابق فارن سیکرٹری کی حمایت کے لئے استعمال کریں گے مسٹر جانسن اس بابت بھرپور کوشاں ہیں کہ جہاں وہ یوروسکیپٹک euroscepticپارٹی اراکین کی اپنے لیے خیالات کو پروان چڑھاتے رہیں وہیں وہ ماڈریٹ کنزرویٹو کی سپورٹ کے لیے بھی بے تاب ہیں وہ یہ باور کرانے کی تگ و دو میں لگے ہیں کہ بریگزٹ پر منقسم پارٹی کو متحد کرنے کی صلاحیت وہ رکھتے ہیں جبکہ اکثر ٹوری ممبران پارلیمنٹ یہ توقع رکھتے ہیں کہ کراون ایک بریگزیٹ کے پاس جائے جو اس قابل ہو کہ پارٹی کی یورو سکیپٹک بیس کی سپورٹ کو جیت سکے جبکہ برسلز نے پہلے سے ہی مسز مے کے ساتھ کی گئی ُٹریٹی کے کسی بھی طور ری اوپن کرنے کو مسترد کیا ہوا ہے لیکن اسے ہاؤس آف نے تین مرتبہ ریجکٹ کیا ہوا ہے۔ جس باعث بریگزیٹرُ امیدوار کنزرویٹیو ایم پیز اور متحرک کارکنوں کو یہ باور کرا رہے ہیں کہ اگرضروری ہوا تو وہ کسی ڈیل، معاہدہ کے بغیر ای یو کو چھوڑ دیں گے، جبکہ قیادت کا فائنل انتخاب قریباً ایک لاکھ پارٹی اراکین نے کرنا ہے جن کی پچھتر فیصد تعداد شدت سے یورو سکیپٹیک ہے۔ یہ بات کنزرویٹو ہوم ایکٹیویسٹس سروے میں سامنے آئی ہے۔ ادھر موجودہ فارن سیکرٹری جیرمی ہنٹ نے کہا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ ایک بریگزٹ ڈیل دوبارہ زیر بحث ہو اور وہ یہ دیکھنے کے خواں ہیں کہ ایک نو ۔ ڈیل رخصت ہو جس سے برطانیہ کو بہت سے تجارتی معاہدے چھوڑنے پڑ سکتے ہیں، شہریوں کے حقوق اور شمالی آئرلینڈ کا بارڈر کا معاملہ حل طلب رہ سکتا ہے۔ جبکہ اپنے اداریئے میں فنانشل ٹائمز نے لکھا ہے کہ مے کی رخصتی کے باوجود بریگزٹ پر ڈیڈ لاک بریک نہیں ہوگا۔May’s departure will not break Brexit dead lockایک ایک کر کے کنزرویٹو وزرائے اعظم یورپ کے مسئلہ پر پارٹی کے اندر ڈویژن، تقسیم کے باعث ٹوٹ گئے،اس حادثے کی تازہ ترین شکار تھریسامے ہیں یہ اپنے بنیادی مقصد برطانیہ کو یورپ سے نکالنے میں ناکام رہی ہیں یہ ٹاسک ان پر خاصا گراں گزرا ان کی خدا داد صلاحیتوں جن کا کہ شہرہ تھا وہ یہاں کچھ کام نہ آئیں چہ جائیکہ ان کا جانشین ان سے زیادہ نرم شرائط پیش کر دے بصورت دیگر مسز مے کی رخصتی سے بریگزٹ پر کوئی فائدہ نہیں ہوگا بلکہ یہ شاید اسے مزید بدتر بنا دے۔ 2016 کے بریگزٹ ریفرنڈم کے بعد مسز مے کے حوالے یہ تاثر ابھرا تھا کہ وہ شخص جس نے یورپ کو چھوڑنے کی مہم کو لیڈ کیا تھا اس کی نسبت یہ زیادہ ملک کو اکٹھا کرنے کی صلاحیتوں کا مظاہرہ کریں گی مگر اب وہی شخص ان کے جانشین بننے کے طور پر زیادہ پسندیدہ کے طور پر ابھر رہے ہیں۔ بورس جانسن۔ ان کے ارادے درست دکھائی دیتے تھے، وہ بریگزٹ ڈلیور کرنا چاہتی تھیں، اس کو وہ ای یو کے ساتھ ایک اگریمنٹ کے ذریعے چاہتی تھیں کہ پایہ تکمیل کو پہنچایا جائے، اور اپنی پارٹی کو اکٹھا رکھا جائے۔ مگر یہ تینوں مقاصد غیر مصالحت ثابت ہوئے۔ اور غلطی یہاں یہ ہوئی کہ آغاز سے ہی بریگزٹ پر ایک کراس ۔ پارٹی کنسینسیز consensus ڈویلپ نہیں کیا جاسکا بلکہ اسے ٹوری پارٹی کی ایک پراپرٹی کے طور پر ٹریٹ کیا گیا۔ایک دوراندیش سیاستدان ان نقصانات قبل از وقت ادراک کر سکتا تھا، مسز مے چونکہ ایک قومی لیڈر کے لئے درکار صلاحیتوں کی کمی کا شکار تھیں اس لئے وہ یہ اندازے لگانے میں ناکام رہیں خاص طور پر بریگزٹ جیسے ایک چیلنجنگ ٹاسک کے لئے ان کے پاس محدود سٹریٹیجک وژن تھا۔اور بالآخر وہ تمام اطراف کا اعتماد کھو بیٹھیں۔ مزید بریگزٹ پراگریس کنزرویٹیو لیڈر کی تبدیلی کے بغیر ناممکن ہوگئی ہے لیکن یہ تبدیلی بذات خود کچھ بھی حل کرنے سے قاصر ہوگی، یہ پارلیمنٹری ٹوری پارٹی کی کمپوزیشن کو تبدیل نہیں کر پائے گی، ہاؤس آف کامنز کی ہیت ترکیبی یا اس حقیقت کو کہ ایک انخلاء کا اگریمنٹ یورپ کے ساتھ نئے تعلقات کار کے لئے ایک پری کنڈیشن ہے۔ نئے لیڈر کو مختلف اپروچ کو بروئے کار لانا ہوگا، اور کمپرومائز کے لیے تیار رہنا پڑے گا۔ لیکن ٹوری لیڈرشپ مقابلہ قریب قریب یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ تقریباً اس طرح ڈیزائن کیا گیا ہے کہ ایسا لیڈر پروڈیوس نہ ہی ہوسکے۔ اب ٹوری پارٹی کے ایک لاکھ کے قریب ممبران کے کاندھوں پر یہ بھاری بوجھ آ پڑا ہے کہ وہ فائنل چوائس کریں۔ اخبار نے ٹوریز کو صائب مشورہ سے نوازا ہے کہ وہ نہایت احتیاط سے قیادت کے دعویدار امیدواروں سے یہ جاننے کی کوشش کریں کہ وہ جیت کر مسز سے کس طرح کے بعض مختلف اقدامات اٹھائیں گے۔ انہیں اپنے ووٹوں کا استعمال کافی سوچ بچار کے بعد کرنا ہوگا۔ کنزرویٹو ممبرز کو اپنی پارٹی کی طویل تاریخ اور مِلک کے لئے لانگ لوو long love پر فخر ہونا چاہئے لیکن ٹوری پارٹی کی حکومت ہی تھی جس نے برطانیہ کی گورنس اور ڈیموکریسی کو ہلا کر دکھ دیا ہے اب اس طرح کے اقدامات کی مزید اجازت نہیں دی جاسکتی کہ جن سے ملک کی یونیٹی اور خوشحالی کے لئے کسی بھی طور خطرات ابھر سکیں۔
اس بریگزٹ ساگا نے نہ صرف مسز مے کو رخصت ہونے کا اعلان کرنے پر مجبور کر دیا حکمران جماعت کو توڑ پھوڑ دیا بلکہ لوکل الیکشنز کے بعد یورپین پارلیمنٹ کے انتخابات بھی ایک طوفان ثابت ہوئے۔ وائٹ ہال ایڈیٹر Whitehall Editor جیمز بلٹز نے بریگزٹ ساگا کی اس طرح منظر کشی کی ہے کہ ہر چند کِہ برطانیہ کے یورپی یونین کے ساتھ ریلیشن شپ ختم کرنے کا ٹاسک کسی بھی وزیراعظم کے لیے آسان نہیں تھا لیکن تھریسا مے نے اس کام کو مزید دشوار اس طرح بنا دیا کہ وہ ای یو کے ساتھ کسی حقیقی ڈیل کی وسیع مشاورت میں ناکام رہیں جس باعث ہاؤس آف کامنز سے منظوری حاصل کرنے میں ناکام رہیں۔ اور بجائے ایک مٹھی بھر قریبی مشیروں پر تکیہ کیا۔ انہوں نے اپنی وزارت عظمی کے ابتدائی عرصہ میں ایک سخت بریگزٹ پالیسی کی تعریف میں موٹی سرخ لائینیں کھنچ دیں جو بالآخر برقرار نہ رہ سکی۔ بعدازاں جب انہوں نے آخر کار کمپرومائز کی ضرورت کو تسلیم کرلیا مگر انہوں نے ساتھ ہی اپنے ڈاؤن فال کا ملبہ سخت گیر کنزرویٹو پر ڈالنے کی کوشش کی۔ اس سارے عمل پر جب ایک نظر ڈالی جائے تو ناقدین بعض یہ کہیں گے کہ معاملات کو سمجھنے کے لئے پیچھے جھانکنا پڑے گا ۔ جب برمنگھم میں اکتوبر 2016 میں کنزرویٹیو پارٹی کانفرنس میں مسز مے نے ڈکلیئر کیا کہ یوکے سنگل مارکیٹ اور یورپین کورٹ آف جسٹس سے نکل جائے گا۔ ان کے ان الفاظ نے پارٹی کے وفاداروں کو خوش کیا لیکن سول سرونٹس کو دھچکہ لگا جن کو ای یو سےاس نوعیت کے سخت بریک severe break کے مضمرات کا ادراک تھا۔ اسی خطاب میں ان کا آرٹیکل 50 پراسیس کو ٹریگر کرنے کا پرامس promise ، وعدہ ایک عمل جس سے مارچ 2017 کے اواخر میں ای یو سے انخلاء ہو جانا تھا بھی کم قابل ذکر نہ تھا ۔ پھر جو ہارڈ بریگزیٹرز تھے انہوں نے اس پر واہ واہ کے ڈھونگڑے بجائے۔ لیکن یہ وعدہ بھی نتائج کو سمجھے بغیر کر دیا گیا۔ اگلے نو مہینے وزیراعظم کے گویا وزارت عظمیٰ کے ہنی مون کا پریڈ تھا۔ لنکاسٹر ہاؤس میں ایک سپیچ speech میں وزیراعظم نے وہ گراونڈ تیار کیا جسے ایک سول سرونٹ نے ڈائمنڈ ہارڈ بریگزٹ سے تعبیر کیا اور اگلے روز دی ڈیلی میلی نے ایک خوش آمدانہ موازنہ مارگریٹ تھیچر سے کر دیا ۔ لیکن ویسٹ منسٹر کے باہر کی دنیا کو خدشات گھیرنے لگے۔ برٹش بزنس لیڈرز جن کی کنزرویٹو پارٹی کے ساتھ وابستگی طویل مدتوں سے چلی آرہی تھی کے رویوں میں بھی تبدیلی آنا شروع ہوگئی جب ان کو وزیراعظم کی اپروچ کے اکنامک رسک کا اندازہ ہونا شروع ہوا۔ ایوان راجرز، جو یوکے کے ای یو میں سفیر تھے نے استعفی دے دیا انہوں نے خبر دار کیا کہ مسز مے غلط رخ پر چل رہی ہیں ۔ یہ وہ وقت تھا کہ جب مسز مے نے دنیا کو جون 2017میں ایک جنرل الیکشن کا اعلان کر دیا جس سے ان کی قسمت کا ستارہ گھٹنا شروع ہوگیا۔ انتخابات میں جب انہوں نے منشور میں سوشل کئیر میں مالیاتی ریفارم کو شامل کر دیا جسے بڑے پیمانے پر ڈیتھ ٹیکس کے طور پر پیش کیا گیا۔ الیکشن کی رات ان کی اکثریت جاتی رہی۔ پھر ان کے لئے مشکلات اس وقت مزید بڑھتی گئیں جب پول کے فوری بعد بریگزٹ مذاکرات شروع ہوگئے۔ ای یو نے پھر دہرایا کہ مسز مے کی سٹریٹیجی کام نہیں کرے گی۔ ای یو کا کہنا تھا کہ برطانیہ کو ایک کینیڈین سٹائل کلین بریک ٹریڈ ڈیل یا ایک ناروے سٹائل سافٹ بریگزٹ کو اختیار کرنا پڑے گا۔ ای یو کے چیف بریگزٹ مذاکرات کار کا کہنا تھا کہ درمیانہ کوئی راستہ نہیں ہوسکتا ۔ مسز مے کو پھر اپنا پلان بدلنا پڑا اور اس عرصے میں بریگزٹ کا ایک لفظ اتنی بار دہرایا گیا پارلیمنٹ میں ووٹ ڈالے گئے بریگزٹ پر کوئی متفقہ ڈیل وزیراعظم پاس کرانے میں ناکام رہیں ان کے انڈر 36وزراء مستعفی ہونے پر مجبور ہوگئے۔ بریگزٹ کے 2016کے ریفرنڈم کے بعد گولڈ مین ساچز Goldman Sachs کی اپریل کی ایک سٹڈی میں انکشاف کیا گیا کہ یوکے کی گراس ڈومیسٹک پراڈکٹس میں اکنامی طور پر دو عشاریہ چار فیصد کی کمی بھی آئی ہے۔ تاہم اس تمام عرصے میں وزریراعظم کا سٹیمنا stamina اور کام سے لگن بلاشبہ غیر سوالیہ رہی۔ ان کے تین سال کے دور میں چند داخلی کامیابیاں بھی ملیں ۔ انہوں نے ماحولیات کی بہتری کے لیے اہم اقدامات اٹھائے وہ جب آفس چھوڑرہی ہیں تو یوکے کا خسارہ قابل ذکر طور پر کم ہوا اور قرضے کم ہوئے انہوں نے مشکل حالات میں اپنی طرف سے بہتر پرفارم کیا لیکن تاریخ دان اس بات کو بمشکل نظر انداز کرسکیں گے کہ مسز مے میں ایک سٹریٹجک ججمنٹ کی کمی تھی ان میں لچک flexibility کی بھی کمی تھی اور انہوں نے اپنی جماعت کو اکٹھا رکھنے کو ملکی مفاد پر ترجیح دینے کی کوشش کی۔
تازہ ترین