• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جو انقلاب تمام سہولتوں سے لیس کنٹینر سے آنا تھا وہ تو نہیں آیا ہاں البتہ ڈاکٹر طاہر القادری کو ایک محدود سیاسی رول جو ان کی عوامی حیثیت کے حساب سے بنتا ہے اور جس کے وہ بڑی شدت سے خواہاں تھے، ضرور مل گیا۔ وہ نوازشریف مخالف سیاسی اتحاد کے ساتھ ہاتھ ملانا چاہتے تھے، وہ مل گیا۔ اب وہ حکمران اتحاد کے حلیف ہیں اور اسی کی طرح نوازشریف پر تنقید کے تیر داغیں گے۔ ایک لحاظ سے بہت اچھا ہوا الگ سے باہر بیٹھ کر پہلوانوں پر حملے کرنا بہت آسان ہوتا ہے جب خود میدان میں اتریں تو طاقت اور مشکلات کا صحیح اندازہ ہوتا ہے۔ اپنی طرف سے تو ڈاکٹر قادری حکمران اتحاد کے ساتھی بن گئے مگر پیپلزپارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور قاف لیگ کیلئے ان کے ساتھ ہاتھ میں ہاتھ دے کر اکٹھے انتخابات لڑنا بہت مشکل ہوگا کیونکہ وہ علامہ کی فلاسفی سے متفق نہیں ہیں۔ ڈاکٹر قادری بہت ہی بڑا حصہ لینے کے خواہشمند ہوں گے جو تمام سیاسی جماعتیں انہیں دینے کو تیار نہیں ہوں گی لہٰذا ان کا ان قوتوں کے ساتھ بھی چلنا ممکن نہیں ہو گا۔ علامہ کیلئے سب سے بہتر آپشن یہ ہے کہ وہ عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف اور متحدہ قومی موومنٹ سے اتحاد کر لیں جو ان کے نقطہ نگاہ کے کافی قریب ہیں مگر یہ بھی شاید کافی مشکل ہو گا کیونکہ ایم کیو ایم تو ڈاکٹر قادری کو بہت کچھ نہیں دے سکتی۔ وہ کیسے کراچی یا حیدرآباد جہاں اس کی مقبولیت ہے میں انہیں کوئی سیٹ پلیٹ پر رکھ کر پیش کر دے گی۔ پی ٹی آئی کے اندر ڈاکٹر طاہر القادری کے ساتھ تعاون کرنے کے معاملے پر بڑے اختلافات ہیں۔ عمران خان تو چاہتے ہیں کہ وہ ان سے اتحاد کر لیں مگر ان کے بہت سے ساتھی اس پر تیار نہیں۔ مزید یہ کہ پی ٹی آئی اس پوزیشن میں بھی نہیں کہ وہ علامہ کے ساتھ تعاون کرنے کے بعد انتخابی دنگل میں کوئی کامیابی حاصل کر سکے لہٰذا بالآخر ڈاکٹر قادری سولو فلائیٹ ہی کر سکتے ہیں اور انتخابات میں کود سکتے ہیں جہاں انہیں آٹے دال کا بہاؤ معلوم ہو جائے گا۔ اپنے پیروکاروں، مریدوں اور ان کے اسکول سسٹم کو چلانے و الوں کو اکٹھا کر کے حکومت کو مفلوج کرنا ایک بات اور قومی و صوبائی اسمبلیوں کی کچھ سیٹیں جیتنا دوسری بات ہے۔
کینیڈین شہریت ہونے کی وجہ سے ڈاکٹر قادری کے اسٹیکس پاکستان میں بہت ہی کم ہیں وہ کسی وقت بھی واپس اپنے ”دوسرے گھر“ جا سکتے ہیں۔ ان کا عجیب قسم کا ماضی اور ان کی کینیڈین شہریت ان کے بارے میں بے شمار شکوک و شبہات کو تقویت دیتی ہے اور ان کے ایجنڈے کے بارے میں سوالات پیدا کرتی ہے۔ انہوں نے ایک بہت عمدہ شو اسلام آباد میں کیا جو انتہائی منظم اور پُرامن تھا اور جو ان کے اشاروں پر لبیک کہہ رہا تھا مگر وہ عوامی اور سیاسی پذیرائی حاصل نہیں کرسکے۔ جن سیاسی قوتوں کے ساتھ وہ اتحاد کے خواہاں ہیں وہ ان پر اعتبار اور اعتماد نہیں کرتیں۔ ان کے مخالف تو ہیں ہی ان کے مخالف، انہوں نے جو حکمران اتحاد کے ساتھ معاہدہ کیا ہے اس کا حشر کیا ہوگا ابھی سے ہی مختلف حکومتی زعماء کے بیانات سے لگ رہا ہے۔ ان کا زور اس بات پر ہے کہ وہی کچھ کیا جائے گا جس کی آئین اور قانون اجازت دیتا ہے اور کوئی بھی معاہدہ جو ان کے خلاف ہو گا اس کی کچھ حیثیت نہیں۔ ویسے بھی آئینی ماہرین کی رائے میں اسلام آباد لانگ مارچ ڈیکلریشن کی کچھ قانونی حیثیت نہیں۔ جب حکومتی ٹیم نے اس اعلامیہ پر اتفاق رائے کیا تو اس کے سامنے اولین ترجیح احتجاج کا پُرامن اختتام تھا لہٰذا وہ ہر قسم کے اقدامات کو تیار تھی جس کی وجہ سے ہزاروں لوگ جو ڈاکٹر قادری کی آواز میں آواز ملا رہے تھے اسلام آباد سے واپس اپنے گھروں کو چلے جائیں۔ اس سارے سرکس کے بے شمار منفی اور مثبت پہلو اپنی جگہ اس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ کوئی معصوم انسانی جان ضائع ہوئی اور نہ ہی کسی حکومتی اور نجی پراپرٹی کو نقصان پہنچا، علامہ کو فیس سیونگ بھی مل گئی۔
تاہم ڈاکٹر قادری کی اس ظالمانہ حکمت عملی کی وجہ سے دل بہت دکھتا تھا جس کے مطابق انہوں نے عورتوں، بچوں ، جوان بچیوں اور شیر خوار ننھے منوں کو سخت سردی اور بارش میں کھلے آسمان تلے بے انتہا مشکلات میں مبتلا کیا تھا۔ چالاکی انہوں نے یہ کی تھی کہ انہوں نے ان معصوموں کو اپنی ڈھال بنایا ہوا تھا جبکہ وہ خود فائیو اسٹار کنٹینر میں اپنے بیٹوں، بہوؤں اور زوجہ محترمہ کے ساتھ رہائش پذیر تھے اور موسم کے اثرات سے محفوظ تھے۔ اس ڈھال کی وجہ سے انتظامیہ ہجوم کو اسلام آباد میں جمع ہونے سے روکنے کیلئے مختلف سخت اقدامات نہ کرسکی۔ اس سارے تماشے میں وزیر داخلہ رحمن ملک مذاق بنے رہے اور ان کے اقدامات نے انہیں صرف ایک مزاحیہ کردار بنا دیا۔ لانگ مارچ سے قبل لاہور میں ڈاکٹر قادری سے دوسری باتوں کے علاوہ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ اسلام آباد میں احتجاجیوں کیلئے رہنے اور طعام کا بندوبست کریں گے۔ جب لانگ مارچ لاہور سے روانہ ہوا تو اعلان کر دیا کہ اس کو فیض آباد پل سے آگے نہیں آنے دیا جائے گا پھر کہہ دیا کہ وہ جناح ایونیو آسکتے ہیں اور خود ہی اسٹیج بھی تیار کر دیا، اس کے بعد اگلے روز انہیں ڈی چوک کے بہت ہی قریب آنے دیا ۔ ان کے بدترین انتظامی فیصلوں اور اقدامات نے ڈاکٹر قادری کو ایسی جگہ پہنچا دیا جہاں وہ اپنی شرائط منوانے کی بہترین پوزیشن میں آگئے تاہم اس صورتحال کے باوجود حکومت نے احسن طریقہ اپنایا جب علامہ نے پارلیمینٹ بلڈنگ پر قبضہ کرنے کی آخری دھمکی دے دی ۔ایک اعلیٰ سطحی وفد کے ذریعے بات چیت کی اور احتجاج اختتام پذیر ہوا۔
نوازشریف سمجھتے ہیں کہ یہ سارا تماشا ان غیر سیاسی قوتوں نے لگایا جو ان کے آئندہ انتخابات جیتنے سے خوفزدہ ہیں اور ہر صورت ان کی کامیابی کو نقصان پہنچانا چاہتی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کی نظریں تو مینار پاکستان پر لگی رہتی ہیں کہ اب اگلا جلسہ وہاں کون اور کب کرے گا۔ ان کا اشارہ عمران خان کے 30/اکتوبر2011ء اور علامہ قادری کے 23 دسمبر2012ء کے جلسوں کی طرف ہے یعنی وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ سب کچھ ان کے خلاف کرایا جارہا ہے۔ جو چاہیں وہ کہیں یہ ان کا حق ہے مگر نہ صرف عمران خان اور ڈاکٹر قادری بلکہ ہر جماعت کا یہ آئینی حق ہے کہ وہ جہاں اور جب چاہے جلسے کرے تاہم ان سرگرمیوں کا کسی سازش کا حصہ ہونے پر اعتراض کیا جاسکتا ہے۔
تازہ ترین