’’گیم آف تھرونز‘‘ کا آٹھواں اور آخری سیزن اپنے سابقہ سیزنز کی طرح ریکارڈ کامیابیاں سمیٹتے ہوئے اختتام پذیر ہوچکا ہے۔ اس کے مداحوں کے علاوہ، جن لوگوں نے یہ سیریز نہیں بھی دیکھی، خبروں کی صورت میں ان پر بھی ابھی تک اس کا جنون سوار ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق، امریکی ٹی وی نیٹ ورک پر دِکھائے جانے والے اس ڈرامے کی تیسری قسط اس چینل کی تاریخ میں سب سے زیادہ اسٹریم کی جانے والی قسط تھی اور سیریز بنانے والوں کو امید تھی کہ ڈرامے کی آنے والی اقساط مزید دلچسپ اور سنسنی سے بھرپورہونگی اور انہیں یہ بھی توقع تھی کہ مزید کئی نئے ریکارڈ بنیں گے۔ان کی توقعات کچھ غلط بھی نہیں تھیں، کیونکہ سیریز کی آخری قسط نے اپنے ہی ریکارڈ کو بہتربناتے ہوئے ویورشپ کے نئے ریکارڈ بنالیے ہیں۔ اعدادوشمار کے مطابق، ’گیم آف تھرونز‘ سیزن 8کے گرانڈ فِنالے کو 13.6ملین ویورز نے لائیو چینل پر دیکھا۔ اس میں اگر اسٹریمنگ اور آن ڈیمانڈ دیکھنے والوں کو شامل کیا جائے تو مجموعی ویورشپ 19.3ملین سے بھی تجاوز کرجاتی ہے۔ یہ چینل اور تھرونز، دونوں کے لیے ایک نیا ریکارڈ ہے۔
کامیابی کا راز
’گیم آف تھرونز‘ ایک ایسی سیریز ثابت ہوئی ہے، جس نے پہلے سیزن کی پہلی قسط سے ہی ناظرین کو اپنی طرف کچھ اس طرح متوجہ کرلیا تھا کہ سیزن کے شروع ہوتے ہی ناظرین اس سیریز کے ہوکر رہ جاتے تھے۔ سیزن 5تک پہنچتے پہنچتے یہ سیریز ویورشپ کے کئی نئے ریکارڈ بناچکی تھی، جس کے بعد آنے والی ہر نئی سیریز نے مسلسل اور باقاعدگی سے اپنے ہی ریکارڈ کو بہتر کیا اور یہ سلسلہ حالیہ آخری سیزن کے گرانڈ فِنالے تک جاری رہا۔
ایسے میں لوگ یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب محسوس ہوتے ہیں کہ مصنف جارج آر آر مارٹن کی تخلیق کردہ اس ٹی وی سیریز کی ریکارڈ ساز کامیابی کا آخر کیا رازہے؟
’گیم آف تھرونز‘ میں اس کے تخلیق کاروں نے ایک تصوراتی دنیا تخلیق کی ہے۔ اس میں ناظرین کی دلچسپی اور ان کی توجہ اپنی طرف کھینچنے کے لیے بہت کچھ ہے جیسے کہ جنگ و جدل، پُراسرار معمے، ہر طرح کی مہلک اور آسیبی مخلوق وغیرہ وغیرہ۔
سیریز کے مرکزی کردار
سیریز میں کئی مرکزی کرداروں کو موت کے گھاٹ اُتارا گیاہے۔ شروع کے سیزنز میں تو کئی اچھے اچھوں کو بھی نہیں بخشا گیا اور ایک کے بعد ایک ہیرو کو غیرمتوقع طور پر ختم کر دیا گیا۔ یہ سلسلہ اولین سیزن میں ایڈ آرڈ سٹارک کی موت سے شروع ہوا اور آخر تک برقرار رہا۔ ناقدین کے مطابق، اس سیریز کی کامیابی کا راز ہی یہی ہے کہ اس سے پہلے کہ ناظرین کو کسی کردار سے زیادہ اُنسیت پیدا ہو، اسے مار دیا جائے۔
ایک سیریز، کئی ٹریک
سیریز کی ابتدا سے ہی یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں کردی گئی تھی کہ اس میں متعدد کہانیاں ساتھ ساتھ چلیں گی اور ہر بار وہ اس طرح کوئی غیرمتوقع اور نیا موڑ لیں گی کہ ناظرین حیران رہ جائیں گے۔
اس کے علاوہ، سیریز میں کئی اساطیری مخلوقات (مذہب سے وابستہ یا دیگر افسانوں اور فنون پر مبنی) کا ذکر آتا ہے: کالے جادوئی سائے، جنگلی بھیڑیے، دیو اور تین ہیبت ناک ڈریگن!
ہرچندکہ انھیں کمپیوٹر کی مدد سے اسپیشل ایفیکٹس کے ذریعے تخلیق کیا گیا ہے، لیکن یہ ڈریگن اتنے اصلی لگتے ہیں کہ ٹی وی اسکرین پر دیکھنے والوں کو بھی گھر بیٹھے ان سے خوف آنے لگتا ہے۔ اب یہ محض کردار نہیں رہے، بلکہ ناظرین کی سوچ پر نقش ہوچکے ہیں۔
’سانگ آف آئس اینڈ فائر‘ سے ماخوذ
’گیم آف تھرونز‘ کا اسکرین پلے جارج آر آر مارٹن کے مشہور ناول ’سانگ آف آئس اینڈ فائر‘ سے ماخوذ ہے، تاہم اس سیریز نے ایسے لوگوں کی توجہ بھی حاصل کر لی جو شاید عام طور پر ایسی تصوراتی کہانیوں میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتے۔ دراصل، سیریز کے تخلیق کاروں نے ناظرین کی نفسیات کو سمجھتے ہوئے، اس میں سیاسی چپقلش اور ذاتی مفادات کی جنگ کو بہت خوبصورت اور سنسنی خیز انداز میں دِکھایا ہے، جس سے ہر انسان ہی واقف ہوتا ہے اور وہ حقیقی زندگی کے اُتار چڑھاؤ کی عکاسی کرتی ہے۔
مزید برآں، ڈرامے کے مرکزی کرداروں کے درمیان پایا جانے والا تناؤ اور وقت کے ساتھ ساتھ ان کی شخصیت کا ارتقاء بھی ناظرین کو ان کے ساتھ ناطہ جوڑنے میں اہم کردار ادا کرتاہے۔ یہاں تک کہ ناظرین کو یہ اندازہ ہی نہیں ہوپاتا کہ آخر اس کشمکش میں جیت کس کی ہوگی۔ کیا جیت واقعی ہیرو کی ہوگی اور وِلن کو مات ہوگی یا کہانی ایک بار پھر کوئی غیرمتوقع موڑ لے گی اور ہیرو کو موت کے گھاٹ اُتار دیا جائے گا؟
آئس زومبیز(وہ مردے جنھیں وائٹ واکرز نے دوبارہ زندہ کیا) کے علاوہ، ڈرامے کے ہر کردار کو کئی زاویوں سے دِکھایا گیا ہے۔ دراصل، عین انسانی فطرت کی طرح، چاہے کوئی کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو، ہوسکتا ہے کہ وہ کسی اور زاویے سے وِلن ہو۔ یہ وہ مقام ہوتا ہے، جہاں اخلاقیات بے معنی ہو جاتے ہیں اورہیرو کسی بھی وقت وِلن بن سکتا ہے اور ولن ہیرو میں تبدیل ہو سکتا ہے۔ ناقدین کے مطابق، یہی اس ڈرامے کی خاصیت ہے۔
فیمینسٹ یا اینٹی فیمینسٹ؟
ابتدا میں یہ شکایت کی جاتی تھی کہ اس سیریز کو ایک مخصوص مردانہ نقطۂ نظر سے بنایا گیا ہے اور اس میں برہنہ خواتین کی عکاسی، ریپ اور خواتین پر تشدد کے مناظر عورت سے نفرت کو فروغ دینے کا باعث بنیں گے۔ تاہم جیسے جیسے یہ شو آگے بڑھا تو حقوقِ نسواں کے لیے کام کرنے والے کئی گروہوں اور ناظرین کی یہ شکایت دور ہوتی گئی، کیونکہ اس شو میں کئی خواتین، جو آخری سیزن میں موجود ہیں، وہ دراصل طاقتور کرداروں کےساتھ سامنے آئی ہیں۔ مثلاً:ڈینیریز ’مدر آف ڈریگنز‘ بن گئیں، سانسا کے کردار نے انتہائی ہوشیار پکڑ لی، آریا ایک مکمل تربیت یافتہ قاتل کے روپ میں سامنے آئی جبکہ سرسی سب سے طاقتور دشمن ثابت ہوئی۔ یہ حقیقت ہے کہ ان تمام کرداروں نے شروع میں بہت تکالیف اُٹھائیں لیکن بالآخر وہ مضبوط اور طاقتور شخصیت کے رُوپ میں اُبھر کر سامنے آئیں، جس کی ایک مثال تیسری قسط میں نوجوان آریا کے ہاتھوں مضبوط وِلن نائٹ کنگ کا قلع قمع ہونا ہے۔