• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مسز شائستہ سرفراز

’’مَرد و زن‘‘ قدرت کی دو الگ الگ تخلیقات ،جب شادی کے خُوب صُورت بندھن میں بندھتے ہیں، توگاڑی کے دو پہیّوں کی مانند لازم و ملزوم ہوجاتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے مرد کے اندر بوجھ اور ذمّے داری اُٹھانے کی صلاحیت رکھی ہے ،تو عورت میں اطاعت اور سلیقہ مندی کُوٹ کُوٹ کر بھر دی۔ مرد گھر سے باہر فرائض کی ادائی کرتا ہے ،تو عورت گھر کے اندر اپنی ذمّے داریاں نبھاتی ہے اور یوں زندگی کا پہیّہ رواں دواںرہتا ہے۔یہ سلسلہ ازل سے یونہی چلا آرہا ہے، لیکن آج کے اِس ترقّی یافتہ معاشرے میںچند مخصوص حلقوں کی جانب سے عورت کو’’نام نہاد آزادی ‘‘حاصل کرنے کی جو ترویج دی جارہی ہے،اس سے کئی مسائل پیدا ہورہے ہیں۔ کل تک جو عورت، ماں ، بہن، بہو، بیٹی کے رُوپ میں گھر کی رونق تھی، وہ آج محفل کی زینت بن گئی ہے۔ ماں کی گود سے زندگی کا پہلا درس لینے والے بچّے ،آج ملازمین کے رحم و کرم پرپل رہےہیں۔ عورت شمعِ محفل کیا بنی، اپنی تمام تر اقدار وروایات، حدود ہی فراموش کر بیٹھی۔شاید یہی وجہ ہے کہ چند برس پہلے تک انتہائی معیوب سمجھا جانے والا فعل ’’طلاق یا خلع ‘‘ اب باقاعدہ سلیبریٹ کیا جانے لگا ہے۔پہلے کسی خاندان میں طلاق کا سانحہ ہوتا ،تو پورا خاندان ، برادری دہل جاتی تھی، گویا کسی کی موت واقع ہوگئی ہو، مگر آج کے’’ ماڈرن دَور‘‘ میںآئے دن طلاق و خلع کے قصّے سننے کو ملتے رہتے ہیں۔ گر چہ دیمک کی طرح معاشرے کا سکون چاٹ جانے والےاس المیےکا تناسب دن بہ دن بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے، لیکن افسوس ناک امر یہ ہے کہ اب اس پر زیادہ دکھ اور افسوس کا اظہار بھی نہیں کیا جاتا۔پہلے بالخصوص خواتین اپنا گھر بچانےکی ہر ممکن کوشش کرتی تھیں، تاکہ کم از کم اُن کے بچّوں کی زندگیاں تو برباد نہ ہوں، مگر آج کی عورت معمولی سے اختلاف پر بھی خلع یا طلاق کا مطالبہ کرنے سے گریز نہیں کرتی۔ پہلے جو مسائل گھر کی چار دیواری ، خاندان والوں کے بیچ حل ہوتے تھے، اب ذرا سی نوک جھونک پر عدالتوں تک پہنچ جاتے ہیںاور جن میں سے زیادہ تر کا انجام’’ علیٰحدگی‘‘ ہی کی صُورت نکلتا ہے ۔

بیش تر خواتین کواس بات کا ادراک ہی نہیں کہ نکاح جیسا خُوب صُورت رشتہ ،جسےاب وہ گلے کا طوق سمجھنے لگی ہیں، در اصل اُن کے تحفّظ و وقارکا ضامن ہے۔ دوسری جانب مرد بھی طلاق دینے سے قبل یہ لمحہ بھر نہیں سوچتے کہ بچّوں کے مستقبل پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ چکّی کے ان دو پاٹوں(میاں،بیوی) کے درمیان پسنے والا اور کوئی نہیں، خود اُن ہی کی اولاد ہوتی ہےاور اُن معصوموں کو تو یہ تک نہیں معلوم ہوتا کہ انہیں کس جرم کی سزا دی جارہی ہے۔ جس عُمر میں انہیں ماں اور باپ دونوں کے پیار، توجّہ، شفقت اور دُلار کی ضرورت ہوتی ہے، وہ عُمر یہ سوچتے گزر جاتی ہے کہ ’’دوسرے بچّوں کے والدین کی طرح ہمارے والدین ساتھ کیوں نہیں رہتے؟‘‘والدین کی توجّہ کے بغیران کی شخصیت ادھوری رہ جاتی ہے ، یہاں تک کہ وہ مختلف نفسیاتی امراض کا شکار ہوجاتے ہیں۔ طلاق یا خلع کے زیادہ تر کیسز میں عدالت بچّوں کو ماں کے حوالے کرکے ہفتے کا کوئی ایک دن والد سے ملنے کے لیے مقرر کر دیتی ہے، مگر وہ ملاقات گھر پر نہیں بلکہ عدالت میں ہوتی ہے، جس کابچّے کی شخصیت پر انتہائی منفی اثرپڑتا ہے ،کیوں کہ عدالتوںکا ماحول بچّوںکے لیے نہ صرف نیا بلکہ خاصا تکلیف دہ بھی ہوتا ہے۔ کمراملاقات میں ایک ہی وقت میں کئی بچے اپنے والدین سے ملنے آتے ہیں،کوئی بچّہ چیخ رہا ہوتا ہے، تو کوئی رو رہا ہوتاہے۔عجب سراسیمگی اور افرا تفری کا ماحول ہوتا ہے۔

کاش! بچّوں کے مستقبل کے لیےدن رات محنت و مشقّت کرنے والے والدین اگر طلاق یا خلع سے پہلے فقط ایک لمحے کے لیے سوچ لیں کہ اُن کے اس جذباتی فیصلے کا بچّوں کے معصوم ذہنوں پر کیا اثر ہوگا، تو معمولی نوعیت کے گھریلوجھگڑوں پر ایسا انتہائی قدم اُٹھانے کی نوبت ہی نہ آئے۔جھگڑے کس گھر میں نہیں ہوتے، لیکن ہر جھگڑے، ہرمسئلے، پریشانی کا کوئی نہ کوئی حل بھی ضرور ہوتا ہے۔اور وہ حل ذرا سے تحمّل و برداشت کے بعد بآسانی نکل سکتا ہے۔ بس ایک لمحے کے لیے تصوّر کریں کہ اس تمام صورتِ حال کا آپ کی اولاد پر کیا اثر ہورہا ہے۔ آپ تو شاید کچھ دنوںبعدپھر سے ایک نئی زندگی کا آغاز کرلیں ، لیکن آپ کے بچّے ، جن کی ذرا سی تکلیف پرآپ تڑپ اُٹھتے ہیں، اُن کا معصوم بچپن کس کرب میں گزرے گا۔اس لیے باہم مل بیٹھ کر اپنے مسائل حل کرنے کی کوشش کریں، ہو سکے تو اس حوالے سے خاندان کے بزرگوں یا اپنے والدین کی رہنمائی حاصل کریں۔ کیوں کہ بعض اوقات کسی تیسرے فریق، خصوصاً کسی بڑے بزرگ کی بات دل کو ایسی لگتی ہے کہ ساری رنجشیں، غصّہ یا غلط فہمیاں آپ ہی ختم ہوتی چلی جاتی ہیں۔ یہ نہیں ہے کہ ماضی میں میاں بیوی کے درمیان اختلافات، جھگڑے نہیں ہوتے تھے۔ ہوتے تھے، مگر کوئی انتہائی قدم اُٹھانے سے پہلے گھر کے بڑے بوڑھے، سمجھ دار افراد بیچ میں پڑ کے صلح صفائی کروادیتے تھے۔ نیز، مر دو زن کے مزاجوں میں بھی اس قدر تیزی و تندی، جلد بازی نہیں پائی جاتی تھی کہ کسی بھی عمل کے حد درجہ خوف ناک نتائج کی سِرے سے پروا ہی نہ ہو۔ میاں بیوی کا تو رشتہ ہی ایک نازک ڈور سے بندھا ہوتا ہے۔ ایک دوسرے کو سمجھ لیا جائےتو یہ نازک ڈور بل کھائی مضبوط رسّی بن جاتی ہے، نہیں تو کمزور دھاگا۔ مگر، جب اس نازک ڈور میں بچّوں کی صُورت مضبوط گانٹھیں پڑنے لگیںتو پھر دونوں کی پہلی ترجیح اُن کی اولاد، اُن کے جگر گوشے ہی ہونے چاہئیں، نہ کہ اپنی اپنی ذات۔ لہٰذا چھوٹے موٹے معاملات سے لے کر بڑے بڑے فیصلوں تک اپنی ذات سے بالا تر ہوکر سب سے پہلے اپنے بچّوں سے متعلق سوچیں۔ 

تازہ ترین