رویتِ ہلال اور قمری مہینوں کے آغاز کے حوالے سے بالخصوص رمضان اور شوال کے مواقع پر ہر سال پاکستان میں ایک تنازع کھڑا ہو جاتا ہے۔ پاکستان چونکہ مسلم ریاستوں میں خاص اہمیت رکھتا ہے لہٰذا اگر رویتِ ہلال کا مسئلہ پاکستان میں حل ہو جائے تو یہ مسئلہ بڑی حد تک باقی دنیا میں بھی حل ہو جائیگا۔ اس سارے معاملے میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ کوئی مستند عالم یا مفتی موجودہ دور میں علمِ فلکیات کا انکار نہیں کرتا اور نہ ہی چاند کی مختلف منازل کے حوالے سے سائنس کے ذریعے علمِ قطعی کا انکار کرتا ہے۔ بلکہ موجودہ رویتِ ہلال کمیٹی پوپلزئی اور ان جیسے دیگر افراد کی رویتِ ہلال کی شہادتوں کا رد، علم فلکیات کے ذریعے امکانِ رویت کے نہ ہونے کی بنا پر کرتی ہے۔ اب ہمارا یہاں پہلا سوال یہ ہے کہ جب چاند کی عدمِ پیدائش کو بنیاد بنا کر یعنی عدمِ اِمکانِ رویت کی بنیاد پر رویت کی شہادت کا ردّ کرنا جائز ہے یعنی علم فلکیات کی بنا پر رویتِ ہلال کا عدم امکان تسلیم کیا جاتا ہے تو پھر جس 29ویں شب علم فلکیات کی روشنی میں امکانِ رویت ناممکن ہو تو اُس شام رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس کر کے دوربینوں کے ذریعے چاند ڈھونڈنے کی کیا ضرورت ہے؟ پہلے سے ہی اعلان کر دیا جائے کہ یہ مہینہ 30کا ہوگا اور اگلے مہینے کا آغاز فلاں دن سے ہوگا۔ بنظر غائر دیکھا جائے تو یہ محض علماء کے دل کی تسلی ہے، ورنہ حقیقتِ حال یہ ہے کہ علماء کرام عملی طور پر رویتِ بصری سے سفر شروع کر کے، رویتِ آلی اور رصد گاہی آلات کو ناجائز قرار دیتے ہوئے ان کے جواز کی طرف گئے ہیں۔ اور اب ایک درجہ مزید ترقی کر کے تیسرے درجے پر یعنی اِمکانِ رویت پر آ چکے ہیں۔ آج نہیں تو کل وہ وقت بھی آنے والا ہے کہ جب علماء کا یہ قافلہ اِمکانِ رویت سے بھی ایک قدم آگے بڑھ کر علم الحساب پر، جو کہ قطعیت کے درجے پر ہے، اپنا پڑائو ڈالے گا اور ابتدائی طور پر پانچ پانچ یا دس دس سال کے قمری کیلنڈر بنا کر اس مسئلے پر امت میں اتفاق کی صورت نکال لی جائے گی۔ مفتی منیب الرحمٰن اور دیگر بہت سے اہلِ علم کا کہنا ہے رمضان کا آغاز رویتِ بصری سے کیا جا سکتا ہے اور یہ نصِ حدیث سے ثابت ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرمﷺ کا فرمان ہے ’’چاند کو دیکھ کر روزے رکھنے کا آغاز کرو اور چاند دیکھ افطار (یعنی عید) کرو۔‘‘ (صحیح بخاری) اور چونکہ رویت میں حقیقت بصر ہے، اس لیے رویتِ بصری ہی مراد لی جائے گی۔ حالانکہ اس کے برعکس قرآ ن و حدیث میں کئی مقامات پر رویت سے رویتِ بصری مراد نہیں لی گئی بلکہ رویت کا لفظ مختلف مفاہیم میں استعمال ہوا ہے۔ رویت میں اصل شے علم، خبر، گمان کا جاننا ہے اور یہ کہ رویت بصر کے ساتھ مقید نہیں ہے۔ جہاں کہیں بھی مطلق رویت آئے گا اسے ہر حال میں لازمی طور پر بصر پر محصور کرنا درست نہیں۔ بصر اس علم کے حصول کا ایک ذریعہ ہے۔ اور ضابطہ یہ ہے کہ ذرائع ہمیشہ تغیر پذیر رہتے ہیں۔ اصل مقصود (جو یہاں حصولِ علم و خبر ہے) باقی رہتا ہے۔ فقہاء نے اسی حقیقت کے تحت ضابطہ مقرر کیا، فرمایا للوسائل حکم المقاصد یعنی وسائل و ذرائع پر مقاصد کے اعتبار سے حکم لگایا جاتا ہے۔قربان جائیں تاجدار دو عالمﷺ پر! نگاہِ نبوت دیکھ رہی تھی کہ میری امت میں ذرائع علم بدلتے رہیں گے،لہٰذا حدیث مبارک میں رأی العین یعنی رویتِ بصری کی قید ہی نہیں لگائی بلکہ مطلقاً فرمایاکہ چاند کی رویت حاصل ہو جائے (خواہ کسی ذریعے سے بھی ہو) تو روزہ رکھ لو۔ یہ قید اضافی ہمارا اپنا اصرار ہے، ورنہ اصولی طور پر جب کسی امر سے متعلق کوئی حتمی حد شریعت نے مقرر نہ کی ہو، تو امت کو اختیار ہوتا ہے کہ اس کی تعریف بدلتے زمانے، ضروریات، اور جدید تقاضوں کے پیش نظر خود متعین کر لے۔
اگر سائنس اور علم فلکیات کے ذریعے قطعی علم مستند ہے جو ہر اصول و قاعدے کے مطابق شہادتِ رویت سے بالا درجے کا ہے تو پھر علم فلکیات کی بنا پر اعلان کیوں نہیں کیا جا سکتا؟ اور اِس علم کی بنیاد پر ایک مستقل کیلنڈر کیوں نہیں بنایا جا سکتا؟کیا علم فلکیات کو ہم دیگر عبادتوں کے اوقات کے تعین کیلئے استعمال نہیں کرتے؟سحر و افطار کے حوالے سے قرآن میں حکم ہے کہ ’’اور کھاتے پیتے رہا کرو یہاں تک کہ تم پر صبح کا سفید ڈورا (رات کے) سیاہ ڈورے سے (الگ ہو کر) نمایاں ہو جائے، پھر روزہ رات (کی آمد) تک پورا کرو۔‘‘ اب کیا پوری دنیا کے مسلمانوں میں سے کوئی ایک بھی ہے جو صبح کے وقت سفید ڈورے اور سیاہ ڈورے کی تفریق یا افطار کیلئے اُفق پر رات کے آغاز کو دیکھتا ہے؟ اگر روزہ کے آغاز و اختتام کیلئے ہم علم فلکیات کی روشنی میں ہر شہر کیلئے بنائے گئے اوقات پر یقین کر لیتے ہیں تو آغازِ ماہ کیلئے ہم اسی قاعدے کا کس بنا پر انکار کرتے ہیں؟ اسی طرح کا نظام قمری سال کیلئے بنانے کو کیوں تسلیم نہیں کیا جاتا؟لہٰذا اگر مفتی منیب الرحمٰن صاحب اور دیگر مفتیان کرام ہماری اس تحریر میں اٹھائے گئے نکات پر کھلے دل سے غور فرمائیں تو اُن کو یہ بات واضح ہو جائے گی کہ موجودہ دور میں قمری ماہ کے آغاز کیلئے رویت بصری کی احتیاج باقی ہے نہ یہ شرعی تقاضا ہے۔ لہٰذا امت کو اِس تنازع سے نکالنے کیلئے ہر کوئی اپنا کردار ادا کرے ۔