• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پنجاب کے خادم اعلیٰ ہتھیلی پر سرسوں جمانے کو کمالِ فن سمجھتے ہیں۔ معاملہ سڑک بنانے کا ہو، پل تعمیر کرنے کا ہو، کوئی میٹرو چلانے کا ہو، کوئی عمارت کھڑی کرنے کا ہو، ہوائی اڈے کو دھند میں منور کرنے کا ہو یا پھر خواتین کے تحفظ کا ہو وہ چاہتے ہیں کہ راتوں رات کام ہوجائے اور پھر چہار دانگ عالم میں اس کی تشہیر ہوجائے چاہے آخر میں کام بن جائے یا بگڑ جائے اس کی انہیں کوئی خاص پروا نہیں ہوتی۔ متنازع تحفظ حقوق نسواں بل کے بارے میں مولانا فضل الرحمن کا کہنا ہے کہ جب گزشتہ روز اک موضوع پر وزیراعظم میاں نواز شریف سے ان کی بات چیت ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ مجھے معلوم نہیں کہ بل اتنی عجلت میں کیوں لایا اور منظور کروایا گیا۔ اس کے تمام پہلوئوں پر خوب غور و خوض ہونا چاہئے تھا اور اس کے بارے میں علمائے کرام سے مشاورت ہونی چاہئے تھی۔ انہوں نے علماء و مشائخ کے تحفظات دور کرانے اور بل کو آئین کی روشنی میں مرتب کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ محترمہ فرزانہ باری سے اسلام آباد میں ہماری کئی ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ وہ حقوق نسواں کے نام پر ایک این جی او چلاتی ہیں۔ انہوں نے وزیراعظم کی یقین دہانی کو شدید انداز میں نشانہ تنقید بنایا ہے۔ ان کا اعلان ہے کہ پنجاب اسمبلی کے ارکان نے جس بل کو منظور کیا ہے اس میں کسی قسم کی کوئی ترمیم یا اضافہ ارکان اسمبلی کے منہ پر طمانچہ تصور کیا جائے گا۔ ادھر منصورہ میں علماء کانفرنس کے اختتام پر امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے حکومت کو وارننگ دی ہے کہ اگر اس نے پنجاب اسمبلی کا متنازع بل 27مارچ تک واپس نہ لیا تو پھر تحفظ شریعت کے لئے ایک ایسی تحریک شروع کی جائے گی جو 1977 کی تحریک نظام مصطفی کو بھی پیچھے چھوڑ جائے گی۔
گرما گرمی کی اس فضا میں ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ تحفظ حقوق نسواں بل ہے کیا۔ اس بل کے پہلے حصے میں عمومی طور پر عورتوں کو تحفظ دینے کی بات کی گئی ہے۔ بل میں کہا گیا ہے کہ اگر عورت اکیلے سفر کررہی ہو تو اسے کوئی ڈر خطرہ نہیں ہونا چاہئے۔ اگر وہ ورکنگ وومن ہے تو وہاں اس کے احترام کا مکمل اہتمام ہونا چاہئے۔ وہ گھر میں ہو، بازار میں ہو، اسپتال میں ہو، کسی درس گاہ میں ہو، کسی دفتر میں ہو غرض یہ کہ وہ جہاں بھی ہو تو اسے احترام کی نگاہ سے دیکھا جائے اور اس بات کو قانون سازی اور قانون پر عملدرآمد سے یقینی بنایا جائے۔ بل کے اس حصے کو سوسائٹی کے تمام لوگ تسلیم کرتے ہیں اور اس کی تعریف کرتے ہیں۔ تاہم بل کے سیکشن 7میں کہا گیا ہے کہ کسی خاتون کی اپنی طرف سے یا کسی اور ذریعے سے اگر یہ خبر آتی ہے کہ اسے گھریلو تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے تو پھر اسے ایک جرم تصور کیا جائے گا۔ جرم فوری طور پر دست اندازی پولیس ہوگا۔ پولیس اور حکومتی کمیٹی کو یہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ گھر میں داخل ہو اور خاتون کو تشدد سے نجات دلائے اور مرد کو کٹہرے میں کھڑا کیا جائے۔ اس صورت میں مرد کو ٹریکر والا کڑا پہنایا جائے گا اور اسے دو روز تک گھر سے باہر رہنا ہوگا۔ بل کا یہی وہ حصہ ہے جسے علمائے کرام خلاف شرع سمجھتے ہیں اور دلائل سے ثابت کرتے ہیں کہ ایسے اقدام سے خاندان جڑیں گے نہیں بلکہ ٹوٹیں گے۔ ان کے خیال میں پاکستان میں طلاق کی شرح گزشتہ پندرہ بیس برس میں کئی گنا بڑھ چکی ہے اور گھریلو معاملات میں حکومتی مداخلت سے یہ شرح اور زیادہ ہوجائے گی۔
ہمارے جائزے کے مطابق اس بل میں سب سے بڑا سقم یہ ہے کہ اس میں عورتوں کے حقوق کی بات ہی نہیں کی گئی۔ حوّا کی بیٹی کا سب سے بڑا حق یہ ہے کہ اسے زیور تعلیم سے آراستہ کیا جائے، اس کا دوسرا حق یہ ہے کہ اسے بچپن سے لے کر جوانی تک نان نفقہ کا مکمل تحفظ دیا جائے۔ اگر سوسائٹی میں عورتوں کی اکثریت بچپن میں بھٹوں پر اینٹیں بنانے، گھروں میں برتن مانجھنے اور صفائی کرنے پر مجبور ہوتی ہے اور جوانی کے آنے سے پہلے ہی بڑھاپے اور بیماریوں کا شکار ہوجاتی ہے، اسے بھٹوں پر اینٹیں بنانے سے لے کر سروں پر اینٹیں لاد کر چوتھی پانچویں منزل تک لے جانے والے کام کرنا پڑتے ہیں تو یہ بہت بڑا تشدد ہے عورت کا حق یہ ہے کہ اسے جہیز کی لعنت سے آزاد کیا جائے، عورت کا حق یہ ہے کہ اسے وراثت میں باقاعدہ حصہ دیا جائے، عورت کا حق یہ ہے کہ اسے فکر معاش سے بے فکر کیا جائے اور اسے کھڑے کھڑے تین طلاقیں نہ سنا دی جائیں ہم نے ایک تعلیمی ادارے میں سبق کی تیاری کے بارے میں ایک لیکچر دیا۔ لیکچر کے اختتام پر ایک خاتون ٹیچر کھڑی ہوئیں اور انہوں نے کہا کہ آپ لیکچر کی تیاری پر زور دیتے ہیں۔ میں 4بجے شام سارے دن کی محنت کے بعد کالج سے گھر پہنچتی ہوں تو میری اماں مجھے کہتی ہیں کہ اب کچن سنبھالو۔ اب آپ ہی بتایئے کہ میں آرام کب کروں گی اور لیکچر کی تیاری کب کروں گی۔
ظہور اسلام سے پہلے دنیا کے اکثر معاشروں میں عورت غلامی کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی تھی۔ اسے دوسرے یا تیسرےدرجے کی کوئی مخلوق سمجھا جاتا تھا۔ اس کے سماجی و معاشرتی حقوق تو رہے ایک طرف اسے انسانی حقوق بھی حاصل نہ تھے۔ قرآن پاک نے تاریخ میں پہلی مرتبہ عورتوں کو مرد کے مساوی حقوق دیئے۔ قرآن میں جہاں جہاں مردوں کو مخاطب کیا گیا ہے وہاں وہاں عورتوں کو بھی مخاطب کیا گیا ہے۔ قرآن پاک میں ایک جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ مردوں کو عورتوں پر ایک درجے کی فوقیت حاصل ہے۔ یہ ایک درجے کی فوقیت گھریلو نظام کو برقرار رکھنے اور اسے حسن انتظام کے ساتھ چلانے کے لئے دی گئی ہے ۔ تحفظ حقوق نسواں کا اہم تقاضا یہ ہے کہ عورت کو وہ حقوق ملنے چاہئیں کہ جو اسلام نے اسے دیئے ہیں۔ شاید اکثر خواتین کو یہ معلوم نہیں کہ بچوں کو دودھ پلانے ، ان کی نگہداشت کرنے اور گھر کےکام کاج بنیادی طور پر عورت کی ذمہ داری نہیں اور اگر وہ یہ کام کرتی ہے تو اسے شرعاً مرد سے اس کام کا معاوضہ طلب کرنے کا حق ہے۔ عورتوں کی آزادی کے نام پر اس وقت امریکہ میں بے چاری عورتوں کا جو حشر ہورہا ہے وہ انتہائی عبرتناک ہے۔ چند روز پیشتر ایک ڈاکٹر عزیز امریکہ سے آئے ہوئے تھے انہوں نے بتایا کہ ان کے پاس ایسی بچیاں اور خواتین اسپتال میں آتی ہیں کہ جنہیں ان کے بوائے فرینڈ شدید بیماری کی صورت میں اسپتال پھینک کر خود روپوش ہوجاتے ہیں۔ ذرا ذرا سی بات پر وہاں پولیس کو گھروں میں طلب کرنے کا حق تو دیا گیا ہے مگر اس کی قیمت عورتوں کو یہ ادا کرنا پڑی ہے کہ وہاں مردوں نے نکاح اور شادی کے بندھن سے ہی نجات حاصل کرلی ہے۔ اب امریکہ میں محتاط سے محتاط اندازوں کے مطابق کوئی 70فیصد لوگ بغیر شادی کے ایک ساتھ رہتے ہیں۔ جب ان کا دل اکتا جاتا ہے تو وہ کسی شام کو یہ گنگناتے ہوئے غائب ہوجاتے ہیں
تو نہیں اور سہی
’’لبرل ازم‘‘ کے نام پر اس وقت یورپ اور امریکہ میں عورت بدترین غلامی کی زنجیروں میں ایک بار پھر جکڑی گئی ہے۔ گھروں کا نظام تباہ ہوچکا ہے۔ خاندانوں کی اکائیاں بکھر چکی ہیں۔ چھوٹے معصوم بچے باپ کی شفقت سے محروم ہوچکے ہیں۔ ان آزاد معاشروں کی انتہا یہ ہے کہ عورت بظاہر ہر بند سے آزاد ہے۔ اسے مردوں کے ساتھ آزادانہ اختلاط اور میل جول بڑھانے کی مکمل آزادی ہے۔ رقص و سرور کی محفلوں میں مردوں کے دوش بدوش وہ جہاں چاہے بلا جھجک اورروک ٹوک آجاسکتی ہے۔ اپنی روزی کمانے کی وہ خود ذمہ دار ہے۔ بظاہر اسے ملکیت و وراثت اور طلاق و علیحدگی میں مردوں کے برابر حقوق حاصل ہیں۔ مگر عملاً یہ ہوا ہے کہ گھروں میں اتفاق و محبت، ایثار و اعتماد کی جگہ شکوک و شبہات نے لے لی ہے۔ لفظاً ایک شوہر ایک بیوی کا قانون نافذ ہے مگر شادی و نکاح کے بندھن ٹوٹنے سے وہ کفالت حفاظت، ہمدردانہ توجہ، اور سکونت و طمانیت جو کبھی امریکی معاشرے میں اسے میسر تھی وہاں اب عورت اس سے محروم ہوچکی ہے۔ امریکی معاشرے میں ماہرین اجتماعیات اور نفسیات خاندانی نظام کو واپس لانے کے لئے تحقیق و جستجو کررہے ہیں۔ ادھر ہمارے نام نہاد لبرل خاندانی نظام کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔حقوق نسواں کے بارے میں اسلام سے بڑھ کر کوئی اور دین پروگریسو نہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلامی آئین کے مطابق علمائے کرام کی مشاورت سے قانون سازی کی جائے اور اسلام کی روح کے مطابق عورتوں کی آزادی و حفاظت کو یقینی بنایا جائے۔
تازہ ترین