اگر سندھ میں موجودہ پی پی پی حکومت کی ترقی دیکھنا ہے تو اس کیلئے آپ کو ویزہ لیکر بھارت جانا پڑے گا وہاں جیسلمیر جا کر اسکے کسی گائوں یا شہر سے ریت کے ٹیلے پر چڑھ کر سانگھڑ ضلع میں کھپرو میں مبینہ شمسی توانائی سے چلنے والی بجلی سے روشن گھروں کی بتیاں دکھائی دیں گی۔ یہ اہم انکشاف پچھلے دنوں ملک کی ترقی پسند پارٹی کے ترقی پسند شریک سربراہ اور منک کے سابق صدر آصف علی زرداری نے پچھلے دنوں ایک نجی نیوز چینل کو دئیے گئے ایک انٹرویو میں کیا ہے۔دوسرے لفظوں میں انہوں نے صحیح طرح سندھ کے لوگوں کو ترقی والے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا ہے، اے سندھ کے لوگو! آپ پی پی پی حکومت کے سندھ میں کن کن اقدامات کو جھٹلائو گے۔
مجھے آصف علی زرداری کا یہ دعوی سنکر کئی سال قبل خالد احمد کا کراچی کے حالات پر لکھا اور پیش کیا ہوا ڈرامہ یاد آیا جسکا عنوان تھا " یہاں سے شہر کو دیکھو" جس پر میں نے کہا تھا کہ "پھر وہاں سے گائوں کو دیکھو"-
میں نے بھی آصف علی زرداری کے نیویارک میں دئیے گئے اس انٹرویو کے بعد انکی دکھلائی ہوئی ترقی والے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگتے ہوئے سانگھڑ ضلع اور اسکے کھپرو کے باشعور اور حالات پر تیز نگاہ رکھنے والے دوستوں سے سندھ میں پی پی پی حکومت کے صرف انکے ضلع اور کھپرو میں دن دوگنی رات چوگنی ترقی کے الاپوں کو سننے کی کوشش میں ای میلز اور انٹرنیٹ چیٹ کے ذریعے رابطہ کیا کیونکہ مجھے پہلے ہی معلوم تھا میں بھارت جاکر جیسلمیر کے کسی صحرائی ٹیلے پر سے سانگھڑ کی روشنیوں کے نظارے نہیں دیکھ سکتا تھا ۔ مجھے جو سانگھڑاور کھپرو میں ہونے والی ترقی کے ایسے روشن میناروں کے بارے میں علاقے اور ضلع کے باخبر دوستوں سے معلوم ہوا وہ عین انہی کی ـزبانی پڑھنے اور سننے کو ملا- ان میں ایک تو ایسے دوست ہیں جو بہت ہی بڑہیا لکھاری اور کھپرو جسکے صحرا کو "اچھڑو تھر" یعنی "سفید تھر" کہا جاتا ہے کی زندگی کی ہر ایک جھلک اور ریت کے ہر ایک ٹیلے اور جھیل سے اپنی ہتھیلی کی طرح واقف ہے۔ سانگھڑ کے ایک ایسے دوست روشنیوں بھری ایسی ترقی کے متعلق لکھتے ہیں:
" نہیں ایسی کوئی بھی ترقی نہیں ہوئی۔ شازیہ مری نے ٹی ایم او کے بجٹ میں سے ایک میل روڈ شہر کے اندر بنوایا ہے جو کھپرو میرپور خاص روڈ کہلواتا ہے۔ قائم علی شاہ نے ایک وعدہ کھپرو سے اچھڑو تھر کے اندر راناہو تک روڈ کی تعمیر کا کیا ضرور تھا جو کبھی وفا نہیں ہوا، اچھڑو تھر کے گوٹھوں کیلئے کافی وعدے کیے گئے تھے جن میں ایک وعدہ علاقے میں صاف یا میٹھے پانی کے پلانٹ قائم کرنے کا بھی تھا۔ جس وعدے کے تحت آٹھ یا نو پلانٹوں کا افتتاح ہوچکا ہے جبکہ پندرہ سے بیس پلانٹ قائم ہونا ابھی رہتے ہیں۔ یہ پلانٹ اچھڑو تھر کی یو سیز میں لگائے گئے ہیں۔"
تقریباََ دو سو گھروں کیلئے دس ملین روپے نقد امداد کا اعلان تو ہوا تھا لیکن اب تک عمل نہیں ہوا۔ صحت کی سہولتوں کیلئے لوگوں نے علاقے میں ڈاکٹر تعینات کرنے کا مطالبہ کیا تو ڈسپنسریاں ملیں۔ ڈاکٹر ابتک ندارد ہیں۔ قائم علی شاہ کی کھلی کچہری میں ایک نوجوان نے کھڑے ہوکر کہا تھا کہ وہ نرسنگ پاس ہے تاہم بیروزگار ہے۔ اس نوجوان کو تقرری کا حکم ملا تو سہی لیکن اسے ابتک تنخواہ نہیں ملی۔ جبکہ اسکی روزانہ او پی ڈی دو سو مریضوں کی ہے۔
میں نے سانگھڑ کے اپنے دوست سے سوال کیا کہ یہ شمسی توانائی سے کھپرو کے علاقوں میں جلنے والی بھارت سے نظر آنیوالی روشنیوں کی کیا کہانی ہے تو اس نے کہا: سولر صرف میٹھے پانی کے پلانٹوں پر لگائے گئے ہیں باقی گوٹھوں (گائوں) اور گھروں تک نہیں پہنچے، اچھڑو تھر کے گوٹھوں کو ملانے کیلئے حکومت نے دو سو میل روڈ کا اعلان تو کیا تھا لیکن وہ روڈ صرف کھپرو- ہتھونگو تک اور تھوڑا اس سے آگے نمک کی کانوں تک بنایا گیا ہے باقی اسکے آگے نہیں بڑھا سوائے روڑی بجری پتھر اتارے جانے کے۔ ایک روڈ چـھور سے سکھر تک براستہ اچھڑو تھر بننا تھا جو کہتے ہیں کافی بن چکا ہے۔" تو پیارے زرداری کی دکھائی ہوئی ترقی کے ٹرک کی بتی کی روشنی میں یہاں بلا تبصرہ ختم کرتا ہوں۔ ہوسکتا ہے انہیں بھی کسی انکے وزیر کبیر مشیروں نے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا لیا ہو جو بہت مشکل ہے۔یہ اور بات ہے کہ شاید اس طرح کی ترقی سندھ کے باقی علاقوں میں آپ کو خوردبین اٹھا کر بھی دکھائی نہ دے بشرطیکہ آپ کو اس کیلئے بھارت کے جیسلمیر جانا پڑ جائے۔ ہاں البتہ اچھڑو کھپرو کے ٹیلوں سے آپ جیسلمیر کی بتیاں دیکھ سکتے ہیں۔
دوسری ترقی جو کہ اچھڑو تھر میں وٹارا جیپوں اور پراڈو گاڑیوں کی دوڑتے دیکھیں گے۔ یہ ترقی کرنے والا نیا طبقہ ہے جسے مقامی طور "بلیکی" کہا جاتا ہے۔ یعنی اس علاقے میں اسمگلنگ کرنے والے یا انکے سرپرست۔ پھر انکا تعلق حکمران پارٹی، یا فنکشنل یا کسی بھی پارٹی سے ہو سکتا ہے۔ یہ لوگ اس کالے سونے کی اسمگلنگ کرتے ہیں جو کیکمیل ہے اور ہیروئن بنانے کے کام آتا ہے۔ بھارت سے اسکے ڈرم اچھڑو تھر کے راستے اسمگل کر کے علاقہ غیر تک پہنچائے جاتےرہے تھے (شاید اب بھی ہوں)۔ یہی اسمگلر بڑے طاقتور پیروں کو نذرانے کی پیٹیاں بھی نذر کرتے ہیں ۔ یہی بلیکی رات چوگنی ترقی کرنے والا طبقہ ہی علاقے میں ہر سیاہ و سفید کا مالک ہے۔ لیکن پھر بھی وسطی سندھ کی اس روہی کا خواجہ فرید علاقے کا صوفی منٹھار فقیر راجر ہے جسکی درگاہ پر اسکا صوفیانہ کلام آج بھی فقیر اور ساربان اپنے اونٹوں کے کاروانوں پر گاتے رہتے ہیںکہ اصل حکمرانی ایسے شاعروں اور صوفیوں کی سندھ پر ہمیشہ رہنی ہے۔