• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نیب کا توازن قائم کرنا یا تاخیر سے جاگنے کا عمل؟

اسلام آباد (انصار عباسی) نیب کی جانب سے آیا یہ توازن قائم کرنے کا عمل ہے یا تاخیر سے جاگنا ہوا کہ پنجاب کے وزیر جنگلات سبطین خان کو ایک ایسے مقدمے میں اب گرفتار کرلیا گیا ہے جو برسوں قبل لاہور ہائیکورٹ اور اس وقت کی پنجاب حکومت کی جانب سے تحقیقات کے لئے نیب کے حوالے کیا گیا تھا۔ اس کا مشکل اور پیچیدہ پہلو یہ ہےکہ اگر سنجیدگی سے تحقیقات کی جائے تو مزید گرفتاریاں عمل میں آسکتی ہیں۔ کچھ بیوروکریٹس کے ساتھ موجودہ حکومت کے چند اہم شراکت دار بھی پکڑے جائیں گے۔ اس مقدمے کی اچھائی میں گئے بغیر سبطین خان کی گرفتاری نیب کے کسی بھی مرحلے پر کسی کو گرفتار کرنے کے بلاروک ٹوک صوابدیدی اختیارات کی عکاسی کرتا ہے کہ ایک کیس کو برسوں کے لئے طاق کی زینت بنادیا اور ساتھ ہی اپنے مطلب کا کوئی دوسرا کیس کھول دیا جائے۔ سبطین خان نے ہفتہ کے دن احتساب عدالت کو بتایا کہ جس معاملے میں انہیں گرفتار کیاگیا ہے، نیب نے تحقیقات بند کردی تھی لیکن کیس دوبارہ کھول کر انہیں گرفتار کرلیاگیا ہے۔ ملزم کا بیان نیب کے متنازع کام کرنے کے بارے میں بہت کچھ ظاہر کرتا ہے۔ کہا کہ اس وقت کے چیئرمین نیب اور متعلقہ حکام کو طلب کرکے پوچھا جانا چاہئے کہ مقدمہ اول بند کیوں کیاگیا اور اب دوبارہ کھولا کیوں گیاہے۔ گو کہ نیب ترجمان تبصرے کے لئے دستیاب نہیں ہوئے تاہم بیورو میں سینئر ذرائع کااس بات پر زور ہے کہ سبطین خان کی گرفتاری معمول اورقانون کے تحت کا معاملہ ہے۔ تردید کی کہ توازن قائم کرنے کے لئے گرفتاری عمل میں لائی گئی ہے۔ سبطین خان کو 2007ء میں غیر قانونی طور پر ضلع چنیوٹ میں ایک جعلی کمپنی کو اربوں ڈالر مالیت کا کانکنی ٹھیکہ دینے کاالزام ہے۔ وہ اس وقت مسلم لیگ (ق) کے پنجاب میں وزیر کانکنی و معدنیات تھے۔ 2007ء میں اس معاملے کے مبینہ کردار جنہیں چنیوٹ کے خزانے پر ناکام ڈکیتی کا ذمہ دار گردانا گیا وہ ابھی تک لاپتہ ہیں۔ اس حقیقت کے باوجود کہ لاہور ہائیکورٹ اور حکومت پنجاب نے 2008ء میں نیب کو معاملے کی تحقیقات کے لئے کہا تھا لیکن بظاہر کچھ بھی نہ ہوا کیونکہ اس معاملے میں چند با اثر خفیہ ہاتھ ملوث تھے۔ دی نیوز نے فروری 2015ء میں اس معاملے کی خبر دی کہ مبینہ طور پر ایک نامعلوم جعلی کمپنی کے ساتھ مشترکہ منصوبے پر دستخط کئے گئے ہیں، وہ بھی عجلت اور جلد بازی میں۔ 23؍ مارچ 2007ء کو یوم پاکستان کی عام تعطیل کے دن کئے گئے۔ امریکا میں مقیم ایک شخص ارشد وحید نے ارتھ ریسورس پرائیویٹ لمیٹڈ میں (ای آر پی ایل) کے تحت مشترکہ منصوبے کے لئے درخواست دی تھی اور اسی روز ای آر پی ایل کے لوگوں نے سبطن خان سے ان کی سرکاری رہائش گاہ پر ملاقات کی تھی۔ دوسرے دن 24؍ مارچ کو وہ دوبارہ ملے اور بعد ازاں چند روز کے اندر ای آر پی ایل کے لوگوں کو چنیوٹ میں پوشیدہ خزانے کے بارے میں مکمل بریفنگ دی گئی۔ گو کہ سمجھوتے پر دستخط دسمبر 2007ء میں ہوئے۔ مینجنگ ڈائریکٹر مائننگ کی اس درخواست کے باوجود کہ فنانس ڈویژن کی جانب سے معاملے کا باقاعدہ جائزہ لیا جائے۔ محکمہ قانون پنجاب بھی چھان پھٹک کرے لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ حکومت نے خام لوہے اور تانبے کے ذخائر بولی عمل کے بغیر غیر شفاف طور پر ای آر پی ایل کو الاٹ کردیئے۔ وہ اس شرط پر کہ یہ بھاری قومی اثاثہ حکومت کی جانب سے مذکورہ کمپنی کو منتقل کیا جاہے اس شرط کے ساتھ کہ جواب میں موخرالذکر کو 20؍ فیصد حصہ ملےگا۔ لیکن دلچسپ امر یہ ہےکہ معاہدہ کمپنی کی وقعت اور حیثیت کا جائزہ لئے بغیر کیا گیا۔ مزید یہ کہ معاہدہ اسٹیمپ پیپر پر بھی نہیں کیا گیا۔ 23؍ مارچ 2007ء کو اس وقت کے وزیر کانکنی سبطین خان کے نام اپنی تحریر درخواست میں ارشد وحید نے اعتراف کیا کہ حکومت پنجاب کے متعلقہ محکمے نے مذکورہ مقام پر ہیماٹائٹ اور میگنیٹائٹ کے ذخائر دریافت کئے ہیں۔ یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ اس قومی خزانے کی ابتدائی دریافت کے بعد یہ قومی دولت محض 20؍ حصہ داری پر فروخت کردی گئی۔ اس بات کی بھی کوئی تصدیق نہیں کی کہ کمپنی کے کوئی شیئرز ہیں بھی یا نہیں۔ 27؍ مارچ 2007ء کو ارشد وحید نے سبطین خان کی سرکاری رہائش گاہ کے پتے پر خط لکھا جس میں گزشتہ ملاقاتوں کے علاوہ ڈائریکٹر جنرل مائننگ اور محکمہ معدنیات پنجاب کے حکام سے ملاقاتوں کا اہتمام کرانے پر شکریہ ادا کیا۔ ان ملاقاتوں کی بنیاد پر ارشد وحید کا ارادہ تلاش کی سرگرمیوں میں شریک ہونا، ٹیکنو اکنامک فزیبلٹی رپورٹ تیار کرنا، مائننگ آپریشن کے لئے عالمی معیار کا کمیشن تشکیل دینا اور اسٹیل مل قائم کرنا تھا۔ دی نیوز کی رپورٹ میں سرکاری دستاویزات کے حوالے سے بتایا گیا کہ اس وقت 1100؍ ایکڑ رقبے پر کام ہورہا تھا لیکن ای آر پی ایل اے 5؍ ہزار ایکڑ رقبے تک وسعت دینا چاہتی تھی۔ سبطین خان کی ہدایت پر 23؍ مارچ کی ابتدائی درخواست مائننگ ڈیپارٹمنٹ میں 23؍ اپریل کو پراسس ہوئی۔ حکام نے اسے ’’ٹائم لمٹ‘‘ لکھ کر نشان زدہ کیا۔ ور ایم ڈی پنجاب منرل ڈیولپمنٹ کارپوریشن سے تین دنوں میں رائے مانگی۔ ذرائع کے مطابق کارپوریشن کے سینئر افسران کو تحفظات تھے۔ لہٰذا ستمبر 2007ء تک اسے موخر کیا گیا۔ پھر طے ہواکہ ایم او یو کے لئے حکومت پنجاب سے منظوری لی جائے۔ اس کے قانونی اور مالی امور کے تفصیلی جائزے کے لئے فنانس اور لاء ڈیپارٹمنٹس کے حوالے کرنے کا مشورہ دیا گیا۔ تاہم اس وقت کے سیکریٹر ی منرل ڈیپارٹمنٹ نے مشورہ نظرانداز کردیا اور وزیرا علی کی منظوری کے لئے ایڈیشنل سیکریٹری کو سمری تیار کرنے کی ہدایت کی۔ جس کی وزیر اعلیٰ نے منظوری دی اور مشترکہ منصوبے پر دستخط ہوگئے۔ سمری میں بتایا گیا تھا کہخام لوہا عام طورپر نچلے معیار کا ہے۔ 2008ء کے عام انتخابات کے بعد وزیر اعلی شہباز شریف کی پنجاب حکومت نے مشکوک معاہدہ 2008ء میں منسوخ کردیا جبکہ اعلی عدلیہ نے بھی فیصلے کی توثیق کرتے ہوئے نوٹ کیا کہ اس معاملے میں سنگین بے قاعدگیاں کی گئیں۔ لاہور ہائی کورٹ اور حکومت پنجاب نے کیس نیب کے حوالے کیا۔ 

تازہ ترین