پاکستان کی اقتصادی مشکلات کا حل آئی ایم ایف، عالمی بینک سمیت غیر ملکی مالیاتی اداروں یا دوست ممالک کی امداد میں نہیں بلکہ صرف اور صرف پاکستان کے امیر طبقے کے ہاتھوں میں ہے۔ ملکی معیشت کا سدھار پاکستانیوں کی اپنی فعال شمولیت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ ہر حکومت میں رسوخ رکھنے اور پاکستان سے بہت زیادہ مراعات لینے کے باوجود طبقہ امرا پاکستان کی مالیاتی خود انحصاری کیلئے متوقع کردار ادا نہیں کررہا۔ اس امر کی شہادتیں برطانیہ، یورپی و خلیجی ممالک اور دنیا کے دیگر ممالک میں پاکستانیوں کی جائیدادوں اور بینک بیلنس کی شکل میں ملتی رہتی ہیں۔ ان میں سے اکثر جائیدادوں یا بینک بیلنس کیلئے رقوم پاکستان میں بظاہر قانونی بزنس کے ذریعے کروڑوں اربوں کما کر ٹیکس چوری کرکے یا غیر قانونی غیر اخلاقی کاموں مثلاً ذخیرہ اندوزی، ملاوٹ، غیر معیاری اشیاء کی فروخت یا رشوت، کمیشن، کک بیکس کے ذریعے بٹوری گئی ہیں۔ پاکستان میں باقاعدگی سے انکم ٹیکس ادا کرنے والا صرف ایک تنخواہ دار طبقہ ہی ہے یا وہ لوگ ہیں جن سے ان کے ذریعہ آمدنی پر فائنل ٹیکس پیشگی لے لیا جاتا ہے۔ صرف امیر طبقہ ہی نہیں متوسط طبقے کے لاکھوں برسر روزگار پاکستانی ٹیکس ادا نہیں کرتے یا بہت کم ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ بزنس کے ذریعے ایک لاکھ روپے ماہانہ سے زیادہ کمانے والوں کی اکثریت ٹیکس گوشواروں میں اپنی انکم بہت کم ظاہر کرتی ہے اور اس جھوٹے ڈیکلریشن کی بنیاد پر انکم ٹیکس بہت کم ادا کیا جاتا ہے۔ صرف انکم ٹیکس ہی نہیں دیگر ٹیکسز اور ڈیوٹیز حقیقی مالیت سے بہت کم ادا کرنا بھی ہمارے ملک میں عام ہے۔ جائیداد کی خرید و فروخت میں محصولات کم ادا کر کے جائیداد کی مالیت بہت کم ظاہر کرنا اس کی واضح مثال ہے۔ پاکستان قدرتی وسائل سے مالامال ملک ہے، ملک کی صنعت، تجارت، زراعت، خدمات، سیاحت اور دیگر شعبوں میں بہت زیادہ پوٹینشل ہے۔ پاکستان کے اپنے وسائل سے ہی اتنا ریوینیو حاصل کیا جاسکتا ہے کہ ملکی ضروریات غیر ملکی امداد یا قرضوں کے بغیر پوری کی جاسکیں۔ ضرورت یہ ہے کہ پالیسیوں میں نقائص دور کئے جائیں اور وقت اور حالات کے مطابق اصلاحات لائی جائیں۔ حقیقت یہ ہے کہ کئی ممالک کی نسبت پاکستان میں کاروبار کرنا بہت آسان اور سستا ہے۔ پاکستان کا کاروباری طبقہ کئی ممالک کے کاروباری افراد کی نسبت کہیں زیادہ خوش حال بھی ہے۔ امریکہ میں ایک اوسط درجے کے کاروبار کے مالک اور پاکستان میں اس کے ہم پلہ کاروباری فرد کے معیار زندگی کا جائزہ لے لیجئے آپ پر میری بات واضح ہو جائے گی۔ صرف کراچی لاہور جیسے بڑے شہروں میں ہی نہیں پاکستان کے چھوٹے شہروں میں بھی مڈل کلاس گھرانے میں گھریلو کام کاج کیلئے کم از کم ایک خاتون یا مرد ملازم ہے۔ صرف کراچی میں ہی کاروباری یا ملازم پیشہ ہزاروں افراد نے گاڑی چلانے کیلئے ڈرائیور رکھے ہوئے ہیں۔ کیا امریکہ اور برطانیہ میں رہنے والا مڈل کلاس گھرانہ میاں بیوی کی مشترکہ آمدنی سے بھی ایسی سہولتیں حاصل کرسکتا ہے....؟
پاکستان میں پورا ٹیکس ادا نہ کرنے کے باوجود کاروباری لوگوں کا معیار زندگی بہتر ہونے کی کئی وجوہات ہیں۔ قوانین کے نفاذ میں کوتاہی بھی ان وجوہات میں شامل ہے۔ سڑکوں پر ٹریفک کا برا حال ہو، ٹوٹی سڑکیں یا ابلتے گٹر ہوں، بجلی اور پانی کی فراہمی میں تعطل ہو یا گھریلو تشدد یہ سب قوانین اور ضابطوں پر عمل نہ کرنے کی علامات ہیں۔ پاکستان میں حکومتوں نے اب تک زیادہ تر سو سال پہلے انگریز حکومت کے بنائے ہوئے ٹیکس قوانین کو بنیاد بنا رکھا ہے۔ پاکستان میں کئی لوگ ٹیکس دینا نہیں چاہتے۔ ان کے ٹیکس نیٹ میں نہ آنے کی ایک بڑی وجہ ٹیکس وصولی کے اداروں سے ان کا خوف بھی ہے۔ ٹیکس کیلئے رجسٹریشن اور ٹیکس ادائی کا نظام آسان اور ہر ایک کیلئے قابل رسائل بنایا جائے۔ محکمہ انکم ٹیکس میں الگ سے رجسٹریشن کے بجائے قومی شناختی کارڈ کو ہر پاکستانی کا ٹیکس نمبر بھی قرار دے دیا جائے۔ لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہمیں ٹیکس دینے کا فائدہ کیا ہے۔ بجلی یا گیس کی لوڈشیڈنگ، سڑکوں کی ٹوٹی پھوٹی حالت، بنیادی سہولتوں کی عدم دستیابی، تعلیم اور صحت میں حکومت کی طرف سے کوئی سرپرستی نہیں ہے، ٹیکس دہندہ کو ہیلتھ انشورنس اور ریٹائرمنٹ پر پنشن اور دیگر صورتوں میں کسی قسم کا مالی تحفظ حاصل نہیں۔ ان نکات پر حکومتی اداروں کو غوراور ٹیکس دہندہ کو مناسب مراعات دینے کا اہتمام کرنا چاہئے۔ ہمیں سوچنا چاہئے کہ ٹیکس نہ دینے والوں کی ایک بڑی تعداد ہر سال ارب ہا ارب روپے صحت، تعلیم، روزگار کی فراہمی اور دیگر شعبوں میں فلاحی کام کرنے والے پرائیوٹ اداروں کو عطیہ کرتی ہے۔ اس کی بڑی وجہ ان اداروں پر لوگوں کا اعتماد ہے۔ حکومتی اداروں کو ٹیکس دینے میں کئی لوگ لیت و لعل سے کام لیتے ہیں اس کی ایک وجہ اعتماد کا فقدان اور دوسری ٹیکس دہندہ کو اپنے اور اہل خانہ کی صحت ، اس کے بچوں کیلئے معیاری تعلیم اور دیگر سہولتوں کی حکومت کی طرف سے عدم فراہمی ہے۔
عوام سے قربانیاں مانگنے اور لوگوں سے ٹیکس دینے کی اپیل کرنے سے پہلے خود منتخب ایوانوں میں بیٹھے ہوئے اراکین کو اپنی خود حاصل کردہ مراعات میں مناسب کمی کا اعلان کرنا چاہئے۔ اچھی باتوں کا آغاز خود اپنی ذات سے ہونا دوسروں کے لئے ترغیب اور تقلید کا سبب بنتا ہے۔