• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پیر کو قومی اسمبلی کے دوسرے اجلاس میں بھی نظم و ضبط قائم نہ ہو سکنے پر قومی بجٹ پر بحث کا آغاز نہ ہونا ہماری پارلیمانی تاریخ کا ایک انوکھا واقعہ اور سیاسی قیادت کے لئے معاملات کا رخ درست سمت میں موڑنے کی غرض سے غور و فکر کرنے کا انتہائی سنجیدہ موقع ہے۔ جمعہ کے روز بجٹ سیشن کے پہلے روز بھی ایسی ہی ناخوشگوار صورتحال پیدا ہوئی تھی جس کے باعث اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف بجٹ پر بحث کا آغاز کرنے کی آئینی ذمہ داری پوری نہ کر سکے تھے اور اجلاس افراتفری کے عالم میں ملتوی کر دیا گیا تھا۔ پیر کو سب سے پہلے تو آصف زرداری کے پروڈکشن آرڈر جاری نہ کرنے پر پیپلز پارٹی کے ارکان نے اسپیکر اسد قیصر کے چیمبر کے سامنے دھرنا دے کر انہیں اجلاس میں جانے سے دیر تک روکے رکھا پھر اجلاس شروع ہونے پر اپوزیشن نے آصف زرداری، سعد رفیق اور دوسرے گرفتار شدہ ارکان اسمبلی کو اجلاس میں نہ بلانے کے خلاف شدید احتجاج اور نعرے بازی کی جس سے کارروائی میں خلل پڑا۔ جب یہ ہنگامہ تھما، اپوزیشن ارکان اپنی نشستوں پر بیٹھ گئے اور اپوزیشن لیڈر نے باقاعدہ بجٹ تقریر شروع کی تو حکومتی ارکان نشستوں سے اٹھ کھڑے ہوئے، شہباز شریف کے خلاف پوسٹر لہرائے اور نعرے بازی کی۔ اسپیکر اسد قیصر کی بار بار تنبیہ کے باوجود جب یہ شور شرابا ختم نہ ہوا تو انہوں نے اجلاس اگلے روز کے لئے ملتوی کر دیا۔ میڈیا اطلاعات کے مطابق اپوزیشن لیڈر کو تقریر نہ کرنے دینے کی ہدایت وزیراعظم عمران خان نے پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں دی تھی اور کہا تھا کہ اپوزیشن سے ضمانت لو کہ وہ مجھے بھی خاموش رہ کر تقریر کرنے دے گی۔ ذرائع کے مطابق گرفتار اپوزیشن لیڈروں کے پروڈکشن آرڈر جاری نہ کرنے کی ہدایت بھی انہوں نے دی تھی، اسی وجہ سے پی ٹی آئی کے ارکان ایوان میں ’پروڈکشن آرڈر نہیں ملے گا‘ کے نعرے لگاتے رہے۔ اپوزیشن اسمبلی میں وزیراعظم کی تقریر میں خلل ڈالتی ہے یا حکومتی پارٹی اپوزیشن لیڈر کو بولنے نہیں دیتی، دونوں کا یہ طرز عمل بلاخوف تردید جمہوری رویوں کے منافی ہے۔ اختلاف رائے کو جمہوریت کا حسن کہا گیا ہے۔ آپ کسی کی بات سکون سے نہیں سنیں گے تو کیسے پتہ چلے گا کہ وہ جو کچھ کہہ رہا ہے وہ صحیح ہے یا غلط۔ اس لئے پہلے مخالفین کی رائے سن لینا چاہئے پھر اس کا جواب دلیل سے دینا چاہئے، زور زبردستی سے اظہار رائے کو روکنا جمہوری رویہ نہیں ہے۔ پھر اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پارلیمنٹ جمہوریت کا چہرہ ہے، عوام کے اس منتخب ایوان میں مختلف الخیال تمام سیاسی پارٹیوں کو نمائندگی حاصل ہے، اگر وہ ایک دوسرے کا نکتہ نظر توجہ سے نہیں سنیں گے تو قانون سازی کے لئے اتفاق رائے پیدا کرنا کیسے ممکن ہوگا؟ اور عوام کے مسائل کیسے حل ہوں گے؟ پارلیمان میں اختلافی تقریریں ہوتی ہیں تو ان سے تعمیر کے پہلو نکلتے ہیں۔ اس طرح جو حتمی فیصلے ہوتے ہیں ان میں زیادہ سے زیادہ توازن اور اعتدال ہوتا ہے اور وہ سب کے لئے نہیں تو اکثریت کے لئے قابل قبول ہوتے ہیں۔ پارلیمنٹ کا مقصد ہی اختلافی آراء کو سامنے لانا اور اختلاف کو اتفاق میں تبدیل کرنا ہے۔ وزیراعظم ہو یا اپوزیشن لیڈر، دونوں کی ایک مسلمہ اہمیت ہے، انہیں ہی نہیں عام ارکان کی باتوں کو بھی ادب و احترام سے سننا مہذب ملکوں کی پارلیمانی روایت ہے مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں اس روایت پر کم ہی عمل ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے یوسف رضا گیلانی کے سوا شاید ہی کوئی وزیراعظم باقاعدگی سے اسمبلی میں آیا ہو۔ انہیں اسمبلی سے خطاب کے دوران اپوزیشن کی ہنگامہ آرائی اور شور شرابے کا اندیشہ لاحق رہتا ہے۔ موجودہ اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر ایک متحمل مزاج شخصیت ہیں، وزیرر خارجہ شاہ محمود قریشی بھی متوازن شخصیت کے مالک ہیں، حکومتی پارٹی اور اپوزیشن میں بھی کئی سنجیدہ شخصیات موجود ہیں، سیاسی درجہ حرارت کم اور مخالفت برائے مخالفت کا رویہ نرم کرنے کے لئے ان کی خدمات حاصل کی جا سکتی ہیں، جو اتفاق رائے پیدا کریں اور پارلیمنٹ کی ورکنگ کو معمول پر لانے میں مدد دیں۔ یہی ایک راستہ ہے جس پر چل کر پارلیمان کو کامیاب بنایا جا سکتا ہے۔

تازہ ترین