اگر مارویل کی اوینجرز سیریز میں سے آئرن مین کے کردار کو الگ کردیا جائے تو کیا آپ پھر بھی اتنی ہی رغبت سے یہ سیریز دیکھیں گے؟ غالباً ایسا سوچنا بھی محال ہے، اوینجرز سیریز میں بھلے کتنے ہی تیس مار خان سپر ہیروز کی بھرما ر ہوجائے، جب تک ٹونی اسٹارک (رابرٹ ڈائونی جونیئر) کی انٹری نہ ہو، فلم بین انتظار میں بلکہ اضطراب میں رہتے ہیں۔ ٹونی اسٹارک کہنے کو تو آئرن مین ہے لیکن جب انسانیت کو اس کی ضرورت پڑتی ہے تو وہ موم بن جاتاہے اور پھر اپنی فیملی ، سرمایہ اور اپنی جان تک دنیا کو بچانے کیلئے نچھاور کردیتا ہے۔ حالیہ دنوں میں تہلکہ مچانے والی فلم ’اوینجرز اینڈ گیم‘میں آئرن مین کی زندگی کا دی اینڈ (خاتمہ) ہوگیا لیکن اس کردار کو اداکرنے والے اداکار رابرٹ ڈائونی جونیئر کی آمدنی میں اب بھی اضافہ جاری ہے۔26اپریل 2019ء کو پردہ سیمیں پر جلوہ گر ہونے والی اوینجرز سیریز کی بائیسویں فلم نے دنیا بھر میں بزنس کے کئی ریکارڈ توڑکر نئے ریکارڈ بناڈالے۔ امید کی جارہی ہے کہ ’ایواٹار‘ کی 2.78ارب ڈالرلائف ٹائم آمدنی کو پیچھے چھوڑتے ہوئے اوینجرز اینڈ گیم 3بلین ڈالر کمانے والی تاریخ کی پہلی فلم ہونے کا ریکارڈ بنالے گی۔ اس فلم میں جہاں دوسرے ہیروز ایک لگا بندھا معاوضہ طلب کرتے ہیں، رابر ٹ ڈائونی جونیئر فلم کے معاوضے کے ساتھ ساتھ اس کے منافع میں بھی حصہ دار ہیں۔ اس فلم سے رابرٹ 75ملین ڈالر کام کرنے کا معاوضہ اور31ملین ڈالر فلم کا منافع حاصل کر چکے ہیں یعنی 100ملین ڈالرز سے زائد کی خطیر رقم ان کے اکائونٹ میں منتقل ہو چکی ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ پردہ سیمیں کے اس سپر ہیرو پر بیٹھے بٹھائے دولت کی ریل پیل شروع ہوگئی، اگرآپ رابرٹ کے ابتدائی حالات اور مقدر سے لڑائی کے واقعات جانیں گے تو اندازہ ہوگا کہ جو جتنا زیادہ کامیاب ہے وہ اتنی ہے مشکلات کے دریا پار کرکے یہاں تک پہنچا ہے۔
فوربز میگزین کے مطابق ہالی ووڈ میں سالانہ سب سے زیادہ کمائی کے تخت پر زیادہ عرصہ براجمان رہنے والے رابرڈ ڈائونی جونیئر کی زندگی نشیب و فراز سے بھر پور رہی ہے۔ ٹونی اسٹارک کے نام سے پہچان بنانے والے رابرٹ ڈائونی جونیئر کے والد رابرٹ ڈائونی بھی ہالی ووڈ کے ایک معروف اداکار اور پروڈیوسر تھے جبکہ ان کی والد ہ بھی اداکاری کیا کرتی تھیں۔ 1965ء میں دنیا میں آنکھ کھولنے والے رابرٹ نے 4سال کی عمر میں اپنے والد کی فلم میں پہلی بار کیمرے کا سامنا کیا۔ جب وہ آٹھ سال کے ہوئے تو رابرٹ کے والد نے انہیں نشے کی لت لگادی اور دونوں باپ بیٹا نشے کی دلدل میں ڈوبنے لگے۔
1996ء سے 2001ء کے دوران رابرٹ نشے میں غرق رہنے کے باعث کئی بار گرفتار ہوئے اور پروڈیوسرز نے انہیں اپنی فلموں میں کاسٹ کرنےسے بھی انکار کردیا۔ جب انہیں فلمیں ملنا بند ہوگئیں تو ایسے میں ان کے پرانے دوست اداکار میل گبسن نے ساتھ نبھایا اور 2003ء میں ایک فلم پروڈکشن کمپنی کو ضمانت دی کہ اگر رابرٹ کوشوٹنگ کے دوران گرفتار کیا گیا تو سارا نقصان بھرنے کی ذمہ داری ان کی ہوگی (یعنی میل گبسن کی)۔
اسی لمحے نے رابرٹ ڈائونی جونیئر کی زندگی بدل دی اور انہیں چھوٹی موٹی فلمیں ملنا شروع ہوگئیں، جس کے ذریعے وہ کامیاب بھی ہونے لگے۔ 2008ء میں جب آئرن مین ریلیز ہوئی تو ان کا شمار دنیا کے پسندیدہ ترین اور مہنگے ترین اداکاروں میں ہونے لگا۔ 2012ء سے 2015ء تک وہ نہ صرف سب سے زیادہ کمائی کرنے والے بلکہ سب سے زیادہ ٹیکس دینے والے اداکار بھی بن گئے۔
2008ء میں ٹائم میگزین نے ان کا نام دنیا کی 100متاثر کن شخصیات میں شامل کیا۔ شمالی امریکا میں ان کی فلمیں5.3ارب ڈالر اور دنیابھر میں 12.9ارب ڈالر سے زائد کی مجموعی کمائی کرچکی ہیں۔
1993ء میں چیپلن نامی فلم سے وہ آسکر کیلئے بہترین اداکار کی نامزدگی جبکہ اسی فلم سے بافٹا کے بہترین اداکار کا ایوارڈ جیت چکےہیں۔ 1994ء کی فلم شارٹ کٹس اور 2010ء کی فلم شرلاک ہومز سے وہ گولڈن گلوب ایوارڈ، 2014ء کی آئرن مین تھری سے کڈز چوائس ایوارڈ،2013ء کی اوینجرز سے ایم ٹی وی مووی ایوارڈ اور پیپلز چوائس ایوارڈکے علاوہ متعدد ایوارڈز اور بےشمار نامزدگیاں حاصل کرچکے ہیں۔
ویسے تو کئی فلمیں رابرٹ ڈائونی جونیئر کی اداکارانہ صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہیں، مگر انھیں لائم لائٹ میں رکھنے والی فلموں میں اوینجرز اور آئرن مین سیریز کے علاوہ ٹاپک تھنڈر (2009ء)، ویئرڈ سائنس (1985ء)، زوڈیئک (2007ء)، ڈیو ڈیٹ (2011ء)، لیس دین زیرو (1987ء)، اونلی یو (1994ء)، شیف (2014ء)، گوتھیکا (2003ء)، نیچرل بورن کلرز (1994ء)، دی سولوئسٹ (2009ء)، ہارٹ اینڈ سولز(1993ء) اور دیگر شامل ہیں۔ جنوری 2020ء میں ان کی فینٹیسی کامیڈی فلم ’ دا ووئج آف ڈاکٹر ڈ و لٹل‘ (The Voyage of Doctor Dolittle)ریلیز ہونے کی اطلاعات ہیں جبکہ 2021ء کے لیے ان کی مشہور زمانہ فلم ’’ شرلاک ہومز‘‘ کی تیسری فلم کو ریلیز کرنے پر کام جاری ہے۔