قیامِ پاکستان کے بعد آنے والے سیلابوں کا جائزہ لیا جائے تو تقریباً چالیس مرتبہ پاکستانی قوم سیلاب کی تباہ کاریوں سے متاثر ہوئی جس کی وجہ سے بھاری مقدار میں پانی ہی ضائع نہیں ہوا بلکہ ہر سیلاب میں سینکڑوں بے گناہ افراد کی ہلاکتیں معمول کی بات رہی ہیں۔ اگر یہ قدرتی آفت ہو تو الگ بات ہے لیکن جب علم ہو کہ یہ آفت آنے والی ہے اور اس آفت کو نہ روکا جائے تو اس کی ذمہ داری تمام مقتدر اداروں پر آتی ہے۔ موسمِ سرما میں ہونے والی غیر معمولی بارشوں اور برف باری کی وجہ سے کم و بیش ملک کے تمام دریائوں میں طغیانی کا خدشہ ہے لیکن اُس کے باوجود خاطر خواہ حفاظتی اقدامات نہیں کئے گئے۔ یہی وجہ ہے کہ اٹھارہ ہزاری میں دریائے جہلم میں طغیانی کے باعث 25سے زائد دیہات زیر آب آگئے ہیں جس کی وجہ سے علاقہ مکین نقل مکانی پر مجبور ہیں۔ طغیانی کے باعث سینکڑوں ایکڑ اراضی پر موجود کپاس، سبز چارہ، دھان اور دیگر فصلیں شدید متاثر ہوئی ہیں جس کے باعث پہلے ہی سے مہنگائی کی چکی میں پسنے والے کسانوں کی کمر ٹوٹ گئی ہے کہ اُن کی سارے سیزن کی کمائی ایک ہی ریلے میں بہہ گئی ہے۔ دوسری طرف ساہیوال میں دریائے راوی کا خوفناک کٹاؤ جاری ہے، جس کے سبب پانچ سالہ تجمل دریا کی نذر ہوگیا۔ اُسکے علاوہ 25ایکڑ کے قریب زیر کاشت زمین دریا برد اور 23گھر متاثر ہوئے۔ تین برسوں میں کٹاؤ کے باعث اب تک بڑے پیمانے پر زمین دریا برد ہو چکی ہے۔ پاکستان میں اس سال بارشیں معمول سے 20فیصد زائد ہوں گی۔ موسم سرما کی ہونے والی شدید بارشوں کی وجہ سے پہاڑوں پر کئی فٹ برف جم چکی ہے جو موسمِ گرما میں پگھل کر دریائوں کی روانی میں تیزی کا باعث بنے گی۔ طغیانی کی پیشگی اطلاعات کے پیش نظر ضرورت اِس امر کی ہے کہ مخدوش علاقوں میں ایمرجنسی الرٹ جاری کیا جائے۔ متعلقہ اداروں کو چاہئے کہ ہمہ وقت چوکس رہیں خصوصاً نشیبی علاقوں میں لوگوں کو جانی ومالی نقصانات سے بچانے کیلئے پیشگی انتظامات ناگزیر ہیں۔
اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998