نہ صرف پاکستان بلکہ کئی دوسرے ممالک میں بھی کچھ بہت عوامی مقبولیت رکھنے والے سیاستدان جلاوطنی میں ہوتے ہوئے بھی اپنی جماعتوں کو بڑے موثر انداز میں چلاتے رہے ہیں جس سے ان پارٹیوںکی عوامی ساکھ میں کچھ زیادہ فرق نہیں پڑا بلکہ بعض اوقات تو ان کی جماعتیںمزید مقبول ہوگئیں اور جب بھی انتخابات ہوئے انہوں نے بڑی اچھی کارکردگی دکھائی یہاں تک کہ ان کے سربراہ وزیراعظم بھی بن گئے۔ کئی سال تک نوازشریف بھی نون لیگ کو سعودی عرب میں ہوتے ہوئے اس طرح ہی چلاتے رہے اور بینظیر بھٹو بھی ایک لمبے عرصے تک ایسا ہی کرتی رہیں۔ اب آصف علی زرداری پی پی پی کو اسی طرح ہی چلا رہے ہیں، تاہم وہ ملک کے حالات بدلنے کا انتظار کر رہے ہیں تاکہ وہ واپس آسکیں۔بقول ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کے وہ جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کے منتظر ہیں۔ نوازشریف بھی جدہ میں ہر وقت بے چین رہے کہ جلد از جلد ملک واپس لوٹیں مگر پرویزمشرف نے ان کی ایک نہ چلنے دی۔ بالآخر وہ نومبر 2007ء میں اس وقت واپس پاکستان آگئے جب بینظیر بھٹو بھی اپنے ملک لوٹیں۔ وہ بھی ہر وقت پاکستان واپسی کا ہی سوچتی رہیں۔
ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین بھی یقیناً واپس آنے کیلئے بے قرار ہیں مگر ان کا پاکستان آنے کا کوئی پلان نہیں ہے کیونکہ اس طرح کے حالات کبھی بھی نہیں ہوں گے جس طرح کے وہ چاہتے ہیں۔ پاکستان کے دوسرے سیاستدان صرف اور صرف آمروں کی وجہ سے ہی جلاوطن ہوئے مگر الطاف حسین کے تو ڈکٹیٹرز سے ہمیشہ بہت اچھے تعلقات رہے اور انہوں نے جمہوری ادوار میں بھی کبھی واپس آنے کا نہیں سوچا کیونکہ وہ پاکستان میں اپنی جان کو خطرہ محسوس کرتے ہیں۔ اب انہیں ملک سے گئے ہوئے 24 سال ہوگئے ہیں جو کہ یقیناً ملک سے بہت لمبی غیر حاضری ہے ۔ کافی عرصے سے یہ حالت ہے کہ الطاف حسین کراچی اور حیدرآباد میں زمینی حقائق سے واقف ہی نہیں ہیں اور نہ ہی انہیں مکمل آگاہ رکھا جاتا ہے۔ ان کو اپنی پارٹی کے حالات اور ملکی سیاست کے بارے میں صرف وہی علم ہوتا ہے جو انہیں مختلف رہنما بتاتے ہیں یعنی ان کی کوئی ڈائریکٹ انفارمیشن نہیں ہوتی۔ مگر پھربھی وہ ابھی تک ایم کیو ایم کو بڑے بھرپور انداز میں برطانیہ میں بیٹھ کر ہی چلاتے رہے ہیں مگر مصطفیٰ کمال کے ان کی پارٹی پر بھرپور حملے کے بعد ایسا ہوتا مشکل نظر آرہا ہے۔ ایک ایک کر کے ایم کیو ایم کے نامی گرامی رہنما نئی بے نام جماعت میں شامل ہو رہے ہیں۔ اگر الطاف حسین برطانیہ میں ہی رہتے ہیں تو قوی امکان ہے کہ ان کی پارٹی کو مزید نقصان پہنچے گا۔ ایم کیو ایم الطاف حسین کا دوسرا نام ہے انہی کی وجہ سے ہی یہ جماعت کراچی اور حیدرآباد میں بہت زیادہ مقبول ہوئی ہے۔اب تو ان کی صحت بھی بہت خراب ہے یہاں تک کہ ان کی موومنٹ بڑی محدود ہوگئی ہے۔ مصطفیٰ کمال کے حملے کی وجہ سے اب خوف بھی نہیں رہا کہ کوئی رہنما اسے چھوڑنے کا بھی نہ سوچے۔ پہلے تو خوف کا یہ عالم تھا کہ کوئی بھی لیڈر اسے چھوڑنے سے گھبراتا تھا کہ اگر اس نے ایسا کیا تو اس کے ساتھ کچھ بھی ہوسکتا ہے ۔ ایم کیو ایم کے وہ لیڈر جنہوں نے اسے خیرباد کہہ دیا ہے اور مصطفیٰ کمال کے قافلے میں شامل ہوگئے ہیں اب اس خوف میں مبتلاء نہیں ہیں جس میں وہ ماضی میں مبتلا رہے۔ وہاں تو وہی کچھ کرنا اور کہنا ہوتا تھا جس کا انہیں الطاف حسین حکم دیتے تھے ۔ ایم کیو ایم کی کچھ اہم وکٹیں گرا دی ہیں اور یہ سلسلہ ابھی جاری ہے۔ نئی جماعت کے رہنما لاکھ کہیں کہ انہیں پشت پناہی حاصل نہیں مگر وہ یقیناً ایسا کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے اگر انہیں ایسی مدد حاصل نہ ہوتی۔ جو کمالات وہ دکھا رہے ہیں وہ نہ دکھا سکتے اگر انہیں ایسی اشیرباد حاصل نہ ہوتی۔ انہیں مکمل سرکاری فول پروف سیکورٹی دی گئی ہے تاکہ وہ اپنے مخالفین کے حملوں سے بچ سکیں۔ ویسے بھی ایم کیو ایم اس وقت جتنی دبائو میں ہے اس کیلئے ممکن نہیں ہے کہ وہ اپنے مخالفین کے خلاف کوئی کارروائی کرسکے۔ اگرچہ ڈاکٹر فاروق ستار نے الزام لگایا ہے کہ ان کی جماعت کے رہنمائوں کو وفاداریاں تبدیل کرنے کیلئے نامعلوم نمبروں سے فون آرہے ہیں کہ وہ نئی جماعت میں شامل ہوجائیں مگر پھر بھی ایسا نہیں ہو رہا جیسا کہ 90ء کی دہائی میں ہوا تھا جب آفاق احمد اور عامر خان نے حقیقی بنائی تھی۔ یہ کہنا ابھی بالکل قبل ازوقت ہے کہ ایم کیو ایم کو مصطفیٰ کمال کی جماعت ختم کر دے گی مگر یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ وہ اسے کافی نقصان پہنچائے گی۔ اب انحصار اس بات پر ہے کہ الطاف حسین اس سارے بحران سے کس طرح نمٹتے ہیں۔ پاکستان کے سیاسی منظر نامے سے وہ غائب ہیں کیونکہ عدالتی پابندی کی وجہ سے ان کی تقاریر نہ تو اخبارات میں چھپ سکتی ہیں اور نہ ہی ٹی وی پر نشر ہوسکتی ہیں۔ وہ ملک سے باہر ہوتے ہوئے ایک بڑا محدود رول ادا کرسکتے ہیں کہ وہ اپنی پارٹی کو بچائیں لہذا ا ن کا واپس آنا ناگزیر ہوگیا ہے۔ ایم کیو ایم کو زندہ رکھنے اور مصطفیٰ کمال کی پیشقدمی روکنے کیلئے ڈاکٹر فاروق ستار اور ان کے کچھ ساتھی ہی سرگرم رہیںگے۔
ہمیں ذرہ برابر بھی شبہ نہیں ہے کہ دینی جماعتیں پنجاب حقوق نسواں قانون کو ختم کرانے کیلئے صرف اور صرف سیاست کر رہی ہیں اور ان کی نظر اگلے انتخابات پر ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح اپنی پوزیشن کو بہتر کرسکیں۔اب تو انہوں نے 27 مارچ کی ڈیڈ لائن بھی دیدی ہے کہ صوبائی حکومت اس قانون کو واپس لے ورنہ وہ 2 اپریل کو آئندہ کا لائحہ عمل دیں گے۔ وہ لوگ جنہوں نے یہ قانون پڑھا ہے ان کو دینی حلقوں کی یہ بات صحیح معلوم نہیں ہوتی کہ یہ ایکٹ سارے کا سارا غیر اسلامی ہے۔ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ ہمارے ہاں کوئی حلقہ بھی میانہ روی کی بات نہیں کرتا بلکہ ہمیشہ انتہائی پوزیشن ہی لیتا ہے۔ یہی اس قانون پر بھی ہو رہا ہے۔ دینی جماعتوں کیلئے دانشمندانہ بات یہ ہے کہ وہ قانون کی ان شقوں کی نشاندہی کریں جو کہ ان کی رائے میں غیر اسلامی ہیں اور پھر پنجاب حکومت کے ساتھ بیٹھ کر ان کو تبدیل کرنے کی بات کریں نہ کہ اس بات پر ہی اصرار کریں کہ پورے کا پورا قانون ہی واپس لیا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت کو بھی چاہئے کہ وہ ان جماعتوں کی رائے کو غور سے سنیں اور ان شقوں کو بدل دے جو کہ قابل اعتراض ہیں۔ جب بھی دینی جماعتیں کوئی نیا ایشو کھڑا کرتی ہیں تو ان کے ذہن میں ہمیشہ 1977ء کی نظام مصطفیٰ والی تحریک ہی ہوتی ہے جس کی وجہ سے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت ختم ہوگئی اور مارشل لاء لگ گیا۔ نہ صرف دینی جماعتوں بلکہ دوسری پارٹیوں کا بھی یہ آئینی حق ہے کہ وہ کسی مسئلے پراحتجاج کریں مگر صورتحال کو اس نہج تک نہیں لے جانا چاہئے کہ 1977ء والی تاریک رات دوبارہ شروع ہوجائے۔ سیاست ضرور کریں اور ہونی چاہئے مگر جمہوریت کیلئے۔