• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ دنوں سخت گرم دوپہر میں کراچی کے معروف کاروباری مرکز، جوڑیا بازار جانا ہوا۔ سامنے سے ایک شخص گدھا گاڑی پر بے تحاشا سامان لادے چلا آ رہا تھا اور دائیں ہاتھ میں پکڑا کوڑا، مسلسل گدھے کی پیٹھ پر برسائے جا رہا تھا، ساتھ ہی اُسے مغلظات بھی بک رہا تھا۔ آگ برساتا سورج، تپتی سڑک، اوپر سے وزنی سامان سے بھری گاڑی، بے چارے گدھے کے قدم بڑی مشکل سے آگے بڑھ رہے تھے، مگر گاڑی بان کو نہ جانے ایسی کیا جلدی تھی کہ غصّے سے پاگل ہوا جا رہا تھا اور سارا غصّہ، اُس بے زبان پر اُتارنے پہ تُلا ہوا تھا۔ گدھے کی پیٹھ کوڑوں کی ضربوں سے اُدھڑی پڑی تھی اور اُس سے خون بھی رِس رہا تھا۔ آپ کی نظروں سے بھی اکثر و بیش تر ایسے مناظر گزرے ہوں گے کہ بے زبانوں پر سرِ بازار ظلم کے مناظر ہمارے ہاں کم یاب تو نہیں۔پتا نہیں کیوں، ہم جانوروں کے بارے میں اِس قدر سفّاک ہوگئے ہیں…!!چند روز قبل سوشل میڈیا پر ایک شخص کی ویڈیو وائرل ہوئی، جس میں وہ ایک بلّی کو تشدّد کا نشانہ بنا رہا ہے اور پوری بے شرمی سے اس پر قہقہے بھی لگاتا ہے۔ اِسی طرح پچھلے ہفتے اخبارات میں ایک تصویر شایع ہوئی، جس میں جل کر کوئلہ بننے والے درجنوں کبوتر نظر آ رہے تھے، اُن کبوتروں کو مالک نے غصّے میں آکر آگ لگادی تھی۔ پھر گزشتہ عام انتخابات کے وہ واقعات تو آپ کو یاد ہی ہوں گے کہ کچھ لوگوں کی جانب سے اپنے مخالفین کے نام گدھوں اور کتّوں پر لکھ کر اُن پر بہیمانہ تشدّد کیا گیا، یہاں تک کہ اُن کی ٹانگیں اور ہڈیاں تک توڑ ڈالیں۔ ایک کتّے کو سیاسی پارٹی کے جھنڈے میں لپیٹ کر گولی ماری گئی، جب کہ ایک ویڈیو میں کتّے کے منہ پر تھپڑ مارتے اور اُسے گھسیٹے دِکھایا گیا۔

’’ بھائی صاحب! کچھ تو خیال کریں۔ اِس بے زبان پر کیوں کوڑے برسا رہے ہیں اور اِتنا سامان کیوں لاد رکھا ہے، یہ تو ظلم ہے، ظلم‘‘، ہم نے اپنا تعارف کروانے کے بعد احتجاج نُما سوالات کیے، تو وہ گاڑی بان ہمیں گھورتے ہوئے بولا’’ بابو، کیا تمہارے پاس کوئی اور کام نہیں رہا، جو اخبار والے اب گدھوں کے سرپرست (ویسے اُنھوں نے تو کوئی اور لفظ استعمال کیا تھا) بن گئے ہیں۔اِدھر ہم کون سا سُکون میں ہیں، جو تم گدھے پر ہائے ہائے کر رہے ہو۔‘‘’’ دیکھیں! وہ ایک الگ مسئلہ…‘‘، ’’ کیا مسئلہ؟‘‘ وہ ہماری بات درمیان ہی میں اُچکتے ہوئے بولا’’ کوئی ایک مسئلہ ہو، تو ہم بولے ناں۔ہمارا دن میں صرف چار، پانچ پھیرا لگتا ہے، ٹریفک کا حال تمہارے سامنے ہے۔تھوڑا سا سفر بھی گھنٹہ، دو گھنٹہ کھا جاتا ہے۔ اگر ہم اِس پر سامان تھوڑا لادیں گے، تو مزدوری بھی کم ملے گی، پھر خرچہ بھی تو بہت بڑھ گیا ہے، جب سے یہ نیا حکومت…‘‘،’’ مگر بھائی اس پر رحم تو کرو، آپ مسلسل اِسے مارے جا رہے ہو‘‘ ہم نے اُسے پٹری پر رکھنے کے لیے سوال کیا۔’’ قسم سے ہم ظالم نہیں ہیں، لیکن یہ بھی تو گدھا ہے ناں! کبھی ٹھیک چلتا ہے، کبھی اَڑ جاتا ہے، تو ہم مجبوراً اس کو دو چار لگا دیتے ہیں۔ چُھٹّی والے دن اس کو ندی کے پاس بھی چھوڑتے ہیں، بھلے پورا دن مٹّی میں اُلٹا سیدھا ہوتا رہیوے۔‘‘ شاید وہ گدھے کے’’ تفریحی پیکیج‘‘ کے بارے میں مزید بتانا چاہتا تھا، مگر ہم وہاں سے آگے بڑھ گئے۔ بہت سے لوگ گدھوں کو بیمار یا زیادہ زخمی ہونے پر مرنے کے لیے سڑکوں پر چھوڑ دیتے ہیں۔ انسانیت تو ایک طرف رہی، شاید وہ یہ بھی سوچنے کی زحمت نہیں کرتے کہ ان گدھوں سے اُنھوں نے کیا کچھ فوائد حاصل نہیں کیے۔ ہم نے ملیر میں واقع ایک سماجی تنظیم کے شیلٹر میں ایک ایسے گدھے کو دیکھا، جس کی ٹانگ ٹوٹی ہوئی تھی اور مالک اُسے مرنے کے لیے سڑک پر چھوڑ گیا تھا۔ اِسی طرح، ایک اور گدھا پیٹ کے کسی مرض میں مبتلا تھا، جس کے سبب اُس کا پیٹ لٹک سا گیا تھا، اُسے بھی مالک لاوارث چھوڑ کر چلتا بنا تھا۔ اس ضمن میں ہماری چند گاڑی بانوں سے بات ہوئی، تو اُن کا کہنا تھا کہ’’ چھوٹے زخموں وغیرہ کی تو ہم خود مرہم پٹّی کر دیتے ہیں اور کچھ امراض کا بھی دوا دارو کر لیتے ہیں کہ باپ، دادا سے جانور رکھتے آ رہے ہیں، مگر ان کا باقاعدہ علاج اب آسان نہیں رہا ، کیوں کہ جانوروں کے علاج معالجے کے لیے بنائے گئے سرکاری اسپتالوں کا حال اس قدر خراب ہے کہ وہاں جانا، نہ جانا برابر ہے۔ جہاں اتنی سختی کے باوجود، انسانوں کے سرکاری اسپتالوں میں ڈاکٹر ملتے ہیں نہ دوا، وہاں جانوروں کے اسپتالوں کا حال احوال کون پوچھتا ہے۔‘‘

عام پالتو جانوروں، جیسے بھینس، گائے یا مختلف پرندوں، بلّیوں اور کتّوں وغیرہ کا پھر بھی علاج کروالیا جاتا ہے کہ لوگ اُنھیں بڑے شوق سے پالتے ہیں، مگر وہ بھی علاج کے لیے جانوروں کے نجی اسپتالوں ہی کا رُخ کرتے ہیں، جہاں بھاری فیسز کے عوض علاج معالجے کی سہولت حاصل کی جا سکتی ہے۔ وہ جانور، جنھیں لاوارث قرار دے کر سڑکوں پر چھوڑ دیا جاتا ہے، جیسے گدھے یا پھر آوارہ کتّے، اگر وہ بیمار یا زخمی ہوں، تو اُن کا علاج معالجہ کون کروائے؟ یہ بہرحال، ایک اہم سوال ہے۔ کئی بار جانور کسی تیز رفتار گاڑی کی زَد میں آکر زخمی ہوجاتے ہیں، تو اگر کسی کو رحم آ جائے، تو اُس زخمی جانور کو سڑک سے ہٹا کر ایک طرف ڈال دیا جاتا ہے، مگر علاج…؟؟اس پر شاید ہی کوئی دھیان دیتا ہو۔

انسانیت اب بھی باقی ہے…!! 

جانوروں کے حقوق کے تحفّظ کے حوالے سے حکومتی سطح پر تو مکمل طور پر خاموشی، بلکہ اِک لاتعلقی سی ہے، البتہ جانوروں سے محبّت اور انسانیت پر یقین رکھنے والے بعض افراد اپنی مدد آپ کے تحت یہ فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔ چوں کہ مغربی دنیا’’ اینیمل لَور‘‘ ہے، تو وہ ان کے علاج معالجے اور اُنھیں پناہ دینے والے اداروں کو بھاری عطیات بھی دیتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں بہت سے افراد نے ’’جانوروں کی خدمت‘‘ کے نام پر ادارے قائم کر رکھے ہیں، جن کے پُرکشش فیس بُک پیجز اور عالمی معیار کی ویب سائٹس ہیں، جنھیں بیرونی دنیا کو مائل کرنے کے لیے ذرا’’ انگلش ٹچ‘‘ بھی دیا گیا ہے، مگر افسوس کہ ان میں سے چند ہی ادارے حقیقی معنوں میں جانوروں کی خدمت کرتے ہیں، باقی کا فوکس صرف ڈالرز کے حصول یا غیر مُلکی دوروں پر ہے۔صرف سندھ کے محکمہ سماجی بہبود کے پاس جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ڈیڑھ سو کے لگ بھگ ادارے رجسٹرڈ ہیں، مگر فیلڈ میں کتنے ہیں…؟؟؟ کراچی سے تعلق رکھنے والے نوجوان، محمّد عدیل خان ایک اینیمل لَور ہیں۔ اُن کی تنظیم’’Innocent Pets Shelter Welfare Society‘‘نہ صرف یہ کہ زخمی یا لاوارث جانوروں کے لیے ریسکیو کی خدمات انجام دیتی ہے، بلکہ اُنھوں نے ملیر میں ایک شیلٹر بھی بنایا ہے، جہاں جانوروں کو پناہ دینے کے ساتھ، اُن کا علاج معالجہ بھی کیا جاتا ہے۔ ہم وہاں گئے، تو شیلٹر میں بڑی تعداد میں زخمی اور بیمار کتّے، بلّیاں، گدھے اور پرندے موجود تھے۔نیز، بہت سی چیلیں بھی تھیں، جو دَورانِ پرواز بیماری یا گرمی کی وجہ سے گر کر زخمی ہو گئی تھیں۔ عدیل نے بتایا کہ’’مجھے بچپن ہی سے جانوروں سے اُنسیت تھی، جب کچھ بڑا ہوا تو زخمی جانوروں کو لاوارث پِھرتے دیکھ کر بہت دُکھ ہوتا تھا، پھر ایک روز ایسے جانوروں کو ریسکیو کرنے اور اُن کا علاج کرنے کی ٹھانی۔ چوں کہ نیّت ٹھیک تھی، تو اللہ تعالیٰ نے بہت مدد کی۔

مخیّر افراد کے تعاون سے شیلٹر کو مزید وسعت دے رہے ہیں اور ریسکیو نیٹ ورک بھی بڑھارہے ہیں۔‘‘ ’’جانوروں کا علاج کہاں کرواتے ہیں؟‘‘ ہمارے سوال پر وہاں موجود ڈاکٹر سروپ نے بتایا’’ اس کے دو طریقے ہیں۔ یہاں شیلٹر میں بھی علاج کی سہولت ہے اور اگر ضروری ہو، تو جانور کو نجی اسپتال بھی منتقل کیا جاتا ہے۔ بیمار جانوروں کو ایک وقت مرغی کا اُبلا ہوا گوشت اور دوسرے وقت، چکن چاول دیے جاتے ہیں، کیوں کہ اُن کے معدے سخت غذا ہضم نہیں کر پاتے۔‘‘ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ’’ یہاں موجود زخمی جانوروں میں سے بیش تر ٹریفک حادثات کی وجہ سے زخمی ہوئے۔‘‘عدیل نے بتایا کہ وہ جانوروں کے حقوق اُجاگر کرنے کے لیے اسکولز وغیرہ میں بھی پروگرامز کرتے رہتے ہیں۔’’ صحت مند ہونے کے بعد جانور کا کیا کرتے ہیں؟‘‘ اس سوال پر اُن کا کہنا تھا کہ’’ اگر کوئی اُس جانور کو گود لینا چاہیے، تو اُسے دے دیتے ہیں۔ دوسری صورت میں نس بندی کرکے کتّوں کو دوبارہ اُن کے مقام پر چھوڑ آتے ہیں تاکہ وہ مزید نسل نہ بڑھا سکیں۔‘‘ محمّد ارسلان رانا ایک نجی کمپنی میں ملازمت کرتے ہیں، مگر اُن کی سخت معاشی سرگرمیاں بھی اُن کے جانوروں سے پیار کو کم نہیں کرسکیں۔ اُن کی تنظیم’’ Animal Rescue And Transportation Service Karachi‘‘ کی جانب سے فی الحال جانوروں کو ریسکیو ہی کیا جا رہا ہے، تاہم وہ شیلٹر بنانے کی بھی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ اُنھوں نے بتایا’’ ہم کسی جانور کے زخمی یا لاوارث پِھرنے کی اطلاع پر اُسے ریسکیو کرنے کے بعد مختلف نجی اسپتالوں سے اُس کا علاج کرواتے ہیں اور پھر صحت مند ہونے پر اُنھیں دوبارہ چھوڑ دیا جاتا ہے یا اگر کوئی اُنھیں گود لینا چاہے، تو وہ جانور اُن کو دے دیا جاتا ہے۔ ہم اس کام کی کوئی فیس تو نہیں لیتے، البتہ بہت سے لوگ اس کام میں اپنی خوشی سے حصّہ ڈالتے ہیں، جس سے جانوروں کے علاج معالجے کے اخراجات میں مدد مل جاتی ہے۔‘‘شاید یہ جان کر آپ حیران ہوں کہ گھریلو خواتین بھی مخلوقِ خدا کی خدمت میں کسی سے پیچھے نہیں اور ناہید بھی ایسی ہی خواتین میں شامل ہیں۔ وہ زخمی کتّوں اور بلّیوں کو گھر پر لے آتی ہیں اور پھر اُن کی اچھی طرح سے تیمار داری کرتی ہیں۔

اُن کا علاج کرواتی ہیں، اُنھیں پرہیزی خوراک فراہم کرتی ہیں اور پھر صحت مند ہونے پر دوبارہ چھوڑ آتی ہیں۔ اُنھیں اس کام میں اپنے والدین کی مکمل حمایت حاصل ہے۔اُن کا کہنا تھا’’ مجھے یہ کام کرکے جو روحانی خوشی نصیب ہوتی ہے، وہ الفاظ میں بیان نہیں کر سکتی۔‘‘ اسی طرح قراۃ العیّن بھی، جو ورکنگ وومن ہیں، اپنے وقت کا ایک بڑا حصّہ ان بے زبانوں کی خدمت کرتے گزارتی ہیں۔ وہ اب تک کئی ایسے کتّوں کی مہمان داری کر چُکی ہیں، جو ہماری غفلت کی وجہ سے زخموں سے چُور تھے۔اُن کا کہنا تھا کہ’’ مجھے کسی ایسے جانور کا پتا چلتا ہے، تو اُسے ریسکیو کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔ علاج کے لیے خود اسپتال لے کر جاتی ہوں اور اچھی بات یہ ہے کہ مجھے میری فیملی کی جانب سے بھی مکمل سپورٹ حاصل ہے۔‘‘

دینِ امن وسلامتی، جانوروں کے لیے بھی رحمت

اگر ہم دینِ اسلام کی بات کریں، تو ہمارے مذہب نے کائنات کی جملہ مخلوقات، یہاں تک کہ بے زبان جانوروں سے بھی حُسنِ سلوک پر بہت زیادہ زور دیا ہے۔اُن پر استعداد سے زیادہ بوجھ ڈالنے، بھوکا پیاسا رکھنے اور تشدّد کی ممانعت کی ہے۔یہاں تک ذبح کرتے ہوئے بھی جانوروں پر رحم کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا’’ ایک پیاسا کتّا کسی کنوئیں کے گرد گھوم رہا تھا۔ قریب تھا کہ وہ پیاس سے مر جائے کہ اچانک اُسے بنی اسرائیل کے ایک گناہ گار فرد نے دیکھ لیا۔ اُس نے اپنا موزہ اُتارا اور اُس کے ذریعے کنویں سے پانی نکال کر کتّے کو پلا دیا۔ اُس کے اِس عمل کی وجہ سے اُس کی مغفرت فرما دی گئی۔‘‘اسی طرح آپﷺ نے فرمایا’’ ایک عورت بلّی کے معاملے میں جہنّم میں ڈال دی گئی، جسے اُس نے باندھ رکھا تھا۔ اُس نے بلّی کو کِھلایا اور نہ ہی اُسے آزاد چھوڑا کہ اپنی غذا تلاش کرکے کھا لیتی، حتیٰ کہ وہ لاغر ہو کر مرگئی۔‘‘ رسول اللہﷺ کے پاس سے ایک گدھا گزرا ، جس کے منہ پر داغا گیا تھا، اس پر آپﷺ نے فرمایا’’اُس شخص پر لعنت ہو، جس نے اِسے داغا ۔‘‘حضرت ابنِ عُمرؓ کا گزر قریش کے چند نوجوانوں کے پاس سے ہوا، جو کسی پرندے کو نشانہ بنا رہے تھے، آپؓ نے فرمایا ’’ نبی کریمﷺ نے اُس شخص پر لعنت فرمائی ہے، جو کسی جان دار چیز کو باندھ کر اُس پر نشانہ لگائے۔‘‘نیز، آپﷺ کا ارشادِ مبارک ہے کہ ”جب تم ذبح کرو، تو اچھے طریقے سے ذبح کرو، اپنی چُھری تیز کرلو اور جانور کو آرام دو۔“حضرت ابنِ عباسؓ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے بکری کو لِٹایا اور اپنی چُھری تیز کرنے لگا، تو نبی کریمﷺ نے فرمایا’’کیا تم اسے دو موت مارنا چاہتے ہو، تم نے اپنی چُھری اس کے لِٹانے سے پہلے تیز کیوں نہیں کر لی۔‘‘ اسی طرح، ایک قصاب نے بکری ذبح کرنے کے لیے اس کی کوٹھری کا دروازہ کھولا، تو وہ بھاگ اُٹھی، اُس نے اس کا پیچھا کیا اور پیر سے کھینچ کر لانے لگا، تو رسول اللہﷺ نے فرمایا”اے قصاب ! اس کو نرمی سے کھینچ لاوٴ۔‘‘ آپﷺ نے ایک جانور پر تین آدمیوں کو سوار ہونے سے منع فرمایا تاکہ اُسے تکلیف نہ ہو۔ایک بار آپﷺ باغ میں داخل ہوئے، اچانک ایک اونٹ آیا اور آپﷺ کے قدموں میں لَوٹنے لگا، اُس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ آپﷺ نے اُس کی کمر اور سر کے پچھلے حصّے پر ہاتھ پھیرا، جس سے وہ پُرسکون ہوگیا، پھر آپﷺ نے فرمایا کہ’’ اس اونٹ کا مالک کون ہے؟‘‘ یہ سُن کر وہ دوڑتا ہوا آیا، آپﷺ نے اُس سے فرمایا’’ اللہ تعالیٰ نے اِسے تمہاری ملکیت میں دیا ہے، اللہ سے ڈرتے نہیں، یہ مجھ سے شکایت کر رہا ہے کہ تم اسے بھوکا رکھتے ہو اور اس سے محنت ومشقّت کا کام زیادہ لیتے ہو۔“اسی طرح، رسول کریمﷺ ایک اونٹ کے قریب سے گزرے تو دیکھا کہ بھوک، پیاس کی شدّت اور سواری وبار برداری کی زیادتی سے اُس کی پیٹھ پیٹ سے لگ گئی تھی، آپﷺ نے فرمایا’’ اِن بے زبان جانوروں کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور ان پر ایسی حالت میں سواری کرو، جب کہ وہ قوی اور سواری کے قابل ہوں اور ان کو اس اچھی حالت میں چھوڑ دو کہ وہ تھکے نہ ہوں۔‘‘ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھے کہ ہم نے ایک چڑیا دیکھی ،جس کے ساتھ دو بچّے تھے، ہم نے ان بچّوں کو پکڑ لیا، وہ چڑیا ہمارے سَروں پر چکر لگانے لگی، اتنے میں نبی اکرمﷺ آ گئے، اور (یہ دیکھ کر) فرمایا’’ اس چڑیا کا بچّہ لے کر کس نے اسے بے قرار کیا ہے؟ اسے بچّے واپس کرو۔‘‘نیز، آپﷺ نے چیونٹیوں کو دیکھا، جنھیں ہم نے جلا دیا تھا، تو پوچھا’’ کس نے انہیں جلایا ہے؟‘‘ ہم نے کہا’’ہم نے۔‘‘ آپﷺ نے فرمایا’’آگ سے عذاب دینا، آگ کے مالک کے سِوا کسی کو زیب نہیں دیتا‘‘۔علاوہ ازیں، اسلام نے جن مُوذی جانوروں کو مارنے کا حکم دیا ہے، اُن کے بارے میں بھی یہ ترغیب دی گئی ہے کہ اگر اُنھیں پہلی ضرب میں مارا جائے، تو زیادہ افضل و بہتر ہے۔

آوارہ جانوروں کا کیا ، کیا جائے…؟؟

ہائے یہ بے زبان...!!
ارسلان رانا ایک زخمی کتے کو ریسکیو کرتے ہوئے

جن افراد کو جانور پالنے کا شوق ہے، اُنھیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ان کے کھانے پینے اور علاج معالجے کا خیال رکھنا بھی اُن پر لازم ہے اور اس معاملے میں وہ صرف مُلکی قوانین ہی نہیں، اللہ تعالیٰ کے سامنے بھی جواب دہ ہیں، جیسا کہ اس حوالے سے احادیثِ مبارکہؐ میں بتایا گیا ہے۔ یہی معاملہ بار برداری کے جانوروں کا ہے، جیسے گدھے اور گھوڑے۔ اِس رائے سے اختلاف کی گنجائش نہیں کہ آوارہ جانور عوام کے لیے ایک بڑا مسئلہ ہیں کہ ان کی وجہ سے بعض اوقات انسانی جان تک کو خطرات لاحق ہوجاتے ہیں اور ان جانوروں کے سڑکوں، بازاروں میں مٹر گشت سے کاروبارِ زندگی بھی متاثر ہوتا ہے۔ ایک دَور میں پالتو آوارہ جانوروں کے لیے ٹاؤن کمیٹی سطح پر شیلٹرز ہوا کرتے تھے، جنھیں سندھ میں’’ ڈَھک‘‘ کہا جاتا تھا۔ اگر کوئی بھینس، بکری، گائے یا گدھا وغیرہ عوام کے معمولاتِ زندگی میں خلل ڈالتا، تو اُسے پکڑ کر’’ ڈَھک‘‘ میں بند کردیا جاتا اور بعدازاں مالک سے جرمانہ وصول کرکے جانور اُس کے حوالے کیا جاتا۔ اب یہ نظام ختم ہو چُکا ہے، جس کی وجہ سے عوام کے پاس اس طرح کے آوارہ جانوروں سے نمٹنے کا کوئی قانونی طریقہ نہیں ہے، اسی لیے وہ ان جانوروں کو مارپیٹ کر کے بھگانے کی کوشش کرتے ہیں۔ آوارہ جانوروں کی ایک قسم وہ ہے، جن کا کوئی وارث نہیں ہوتا، جیسے کتّے، بلّیاں یا بیمار و زخمی گدھے، ان جانوروں سے کیسے نمٹا جائے؟ یہ سوال وقتاً فوقتاً زیرِ بحث آتا رہتا ہے، مگر بحث کسی نتیجے پر پہنچے بغیر ہی ختم ہو جاتی ہے۔ پچھلے دنوں یہ تجویز سامنے آئی کہ کیوں نہ ان آوارہ کتّوں کو ایسے ممالک کو برآمد کردیا جائے، جہاں اُنھیں کھایا جاتا ہے، جیسے چین، مگر چوں کہ اس طرح کی تجارت شرعی طور پر دُرست نہیں، اس لیے تجویز کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔ ان جانوروں سے نمٹنے کے لیے اُنھیں زہر دے کر مارنے کا طریقہ اختیار کیا جاتا ہے اور اس حوالے سے ہر چند ماہ بعد بلدیاتی ادارے’’ کتّا مار مہم‘‘ چلاتے ہیں۔

ہائے یہ بے زبان...!!
بازی کیوں ہاری...؟؟ سفاک شخص نے محض اتنی سی بات پر اپنے پالتوں کبوتروں کو زندہ جلا ڈالا

اگست 2016 ء میں ایک سماجی تنظیم کی جانب سے سندھ ہائی کورٹ میں آوارہ کتّوں کو زہر دینے کے خلاف درخواست دائر کی گئی ، جس میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ کتّوں کو زہر دینے کی بجائے، متبادل طریقے استعمال کرتے ہوئے اُنھیں بانجھ کیا جائے تاکہ اُن کی آبادی میں اضافہ نہ ہو۔اسی طرح، گزشتہ برس دسمبر میں ایک خاتون سماجی کارکن کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھی آوارہ کتّوں کو زہر یا شاٹ گن سے مارنے کے خلاف درخواست دائر کی گئی۔ ان درخواستوں کے جواب میں بلدیاتی حکّام نے مؤقف اختیار کیا کہ قانون اُنھیں آوارہ کتّوں کو زہر دے کر یا شاٹ گن کے ذریعے مارنے کی اجازت دیتا ہے، تاہم اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے اس ضمن میں ابھی تک کوئی فیصلہ سامنے نہیں آ سکا۔’’ طبّی طور پر اِس مسئلے سے کیسے نمٹا جا سکتا ہے؟‘‘ ہمارے سوال کے جواب میں ڈاکٹر سروپ نے کہا’’ اس بات میں تو کوئی شک نہیں کہ ایسے کتّے جو پاگل ہو چُکے ہوں( جس کی ایک علامت اُن کے منہ سے رال کا بہنا ہے) اُنھیں تو مار ہی دینا چاہیے کہ وہ انسانوں اور دیگر جانوروں کے لیے انتہائی خطرناک ہوتے ہیں۔

تاہم، اس طرح کے کتّوں کی باقیات کو ٹھکانے لگانے میں بھی بے حد احتیاط کی ضرورت ہے، جو عام طور پر نہیں کی جاتی۔ مرے ہوئے کتّوں کو آبادیوں کے قریب احتیاطی تدابیر اختیار کیے بغیر پھینک دینا خطرناک بیماریوں کے پھیلاؤ کا سبب بنتا ہے۔‘‘اینیمل لَورز اور سماجی کارکنان کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ’’ کتّوں کی نس بندی کرکے اس معاملے پر قابو پایا جا سکتا ہے، تو دوسری طرف، حکومتی سطح پرآوارہ جانوروں کے لیے خصوصی سینٹرز بنائے جائیں، جس کا لوکل باڈیز ایکٹ میں بھی ذکر ہے۔ جب آوارہ جانوروں کو پناہ مل جائے گی، تو وہ گلی محلّوں میں عوام کو تنگ بھی نہیں کریں گے۔‘‘

قانون کیا کہتا ہے…؟؟

انگریز حکومت نے متحدہ ہندوستان میں جانوروں کے تحفّظ کے لیے 1890ء میں ایک قانون متعارف کروایا، جس کے تحت جانوروں پر تشدّد، غیر ضروری قتل، بھوکا پیاسا رکھنے، اوور لوڈنگ، مثلہ کرنے، چیرا لگانے پر مختلف جرمانے اور قید کی سزائیں رکھی گئی تھیں۔ بعدازاں، 1937ء میں اس ایکٹ میں کچھ ترامیم کی گئیں، جن کی رُو سے جانوروں پر تشدّد کا جرمانہ 100، قتل پر 200، اوور لوڈنگ پر 100اور بیمار جانوروں کو مرنے کے لیے لاوارث چھوڑنے پر 50روپے عاید کیا جاتا تھا، جو اُس وقت کے لحاظ سے معقول رقم تھی، مگر حیرت تو یہ ہے کہ جرمانے کی یہ شرح آج بھی جوں کی توں برقرار ہے۔ اس قانون کے مطابق، جانور گاڑی پر20مَن تک وزن لوڈ کرنے کی اجازت ہے اور جانوروں کو آپس میں لڑوانا بھی جرم ہے۔ 7فروری 2018ء کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی میں جانوروں کے تحفّظ کا بل لایا گیا، جس میں جانور کو غیر ضروری طور پر قتل کرنے کا جرمانہ 200سے بڑھا کر 3لاکھ، بکری کے قتل کا جرمانہ 100سے بڑھا کر 2لاکھ، اوور لوڈنگ پر جرمانہ 100سے بڑھا کر 2لاکھ، لڑائی کا جرمانہ 50سے بڑھا کر 3لاکھ اور بیمار جانوروں کو مرنے کے لیے چھوڑنے کا جرمانہ 50سے بڑھا کر 2لاکھ روپے کرنے کی تجویز دی گئی۔رواں برس جنوری میں قومی اسمبلی میں بھی جانوروں کے حقوق کے تحفّظ سے متعلق ایک بِل کی بازگشت سُنائی دی، مگر عملاً ابھی تک پُرانے قوانین ہی نافذ ہیں۔

ہائے یہ بے زبان...!!
عدیل خان اینیمل شیلٹر میں ایک زخمی گدھے کے ساتھ
محکمہ انسدادِ بے رحمی حیوانات

ایک زمانے میں جانوروں سے متعلق قوانین پر عمل درآمد کے لیے یہ محکمہ بنایا گیا تھا، مگر اب تین صوبوں میں اس کی بساط لپیٹی جا چُکی ہے، صرف پنجاب کے 17 اضلاع میں یہ محکمہ کام کر رہا ہے۔ ضلعے کی سطح پر ڈپٹی کمشنر، جب کہ صوبائی سطح پر یونی ورسٹی آف ویٹرنری اینڈ اینیمل سائنسز، لاہور کے چیف انسپکٹر اس محکمے کی سربراہی کرتے ہیں۔ ہماری چیف انسپکٹر، عبدالسّلام سے بات ہوئی، تو اُن کا کہنا تھا کہ’’ ہمارے پاس پورے صوبے میں صرف 96 افراد پر مشتمل عملہ ہے ، جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہم کہاں تک جانوروں کے حقوق کے تحفّظ کے لیے کام کر سکتے ہیں۔ نیز، فیلڈ انسپیکشن کے لیے گاڑیاں تک نہیں۔ عملے کو پولیس جیسی وردی تو پہنا دی گئی ہے، مگر اُن کے پاس اختیارات نام کی کوئی چیز نہیں۔ پھر یہ کہ ہم ابھی تک انگریز دَور ہی کے قوانین پر عمل پیرا ہیں، جن سے جانوروں کے حقوق کے تحفّط میں کوئی خاص مدد نہیں ملتی۔‘‘

اپنی نوعیت کا پہلا مقدمہ

رواں برس فروری میں کراچی کے علاقے، ڈیفیس، فیز 8 میں ایک شخص کی پالتو بلّی گاڑی کی زد میں آکر ہلاک ہوگئی، جسے ایک خاتون چلا رہی تھیں۔ فائق جاگیرانی نامی متاثرہ شخص نے اس واقعے کے خلاف سٹی کورٹ میں درخواست دائر کی، جس میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ’’ مَیں نے خاتون سے پہلے بلّی کے علاج کا مطالبہ کیا، اُن کے انکار پر پولیس سے مدد کے لیے رابطہ کیا، مگر پولیس نے بلّی کے قتل کا مقدمہ درج کرنے سے صاف انکار کردیا۔ دنیا بھر میں بے زبان جانوروں کے حقوق کا تحفّظ کیا جاتا ہے۔ لہٰذا، پولیس اور عدالت جانوروں کے حقوق کے لیے اقدامات کریں۔‘‘مقامی عدالت نے شہری کی درخواست پر بلی کو گاڑی تلے کچلنے والی خاتون کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم دے دیا۔جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والوں نے اس عدالتی فیصلے کو دُور رَس نتائج کا حامل قرار دیا۔ اُن کے مطابق اس فیصلے سے جانوروں کے خلاف تشدّد کی روک تھام میں مدد ملے گی۔

تازہ ترین