• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان نے دہشت گردی کی لہر کا رخ موڑ دیا، تہذیبوں میں تصادم کے نظریات کو تقویت مل رہی ہے، شاہ محمود قریشی

برسلز (حافظ اُنیب راشد) پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ دنیا اس وقت بڑی تبدیلیوں سے گزر رہی ہے۔ کثیرالملکی، اصول پر مبنی بین الاقوامی تعاون اور عالمی قوانین کا احترام خطرات سے دوچار ہے ماضی میں جو اقدار لازم رہی ہیں، وہ اپنی قدرومنزلت کھورہی ہیں، سچائی دم توڑ رہی ہے جغرافیائی وسیاسی تنازعات نہ صرف واپس لوٹ رہے ہیں بلکہ یہ تقسیم مزید گہری ہورہی ہے۔دنیا کے تقریباً ہر خطے میں تزویراتی استحکام خطرے سے دوچار ہے، ریاستوں میں باہمی اعتماد اور احترام ختم ہورہا ہے، موجودہ تنازعات پیچیدہ تر ہورہے ہیں اور نئے تنازعات ابھرکر سامنے آرہے ہیں، دہشت گردی کے نئے خطرات میں اضافہ ہورہا ہے جن کا ہمیں پہلے سامنا نہیں تھا، ’ہائیبرڈ‘ اور ’سائیبر‘ خطرات سے پیدا ہونے والے چیلنجز کا بھی ہمیں سامنا ہے اور وہ نئی شکل میں دنیا کی سلامتی کے لئے مسائل کو جنم دے رہے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے آج صبح یورپین ڈیفینس اینڈ سیکورٹی کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ انہوں نے کہا بین الاقوامی سیاسی اور سیکورٹی اندازفکر کو معاشی اور مالی اہمیت سے الگ نہیں کیاجاسکتا۔ بلکہ میں یہ کہوں گا کہ جیو اکنامک پہلو دراصل آج کی دنیا میں جیوپولیٹیکل اور سٹرٹیجک مفادات کو متشکل کررہے ہیں۔ غیرملکی مصنوعات پر ٹیکسوں کے ذریعے مقامی صنعتوں کے تحفظ کا بڑھتا رجحان عالمی تجارتی نظام کے اصولوں کو غیراہم بنارہا ہے معاشروں کے اندر تیزی سے تبدیلیاں وقوع پذیر ہو رہی ہیں۔ عدم برداشت اور انتہاءپسندی بڑھ رہی ہے، قوم پرست اور دائیں بازو کی قوتیں طاقت ور ہورہی ہیں، غیرملکیوں سے نفرت اور اسلام سے خوف تہذیبوں کے تصادم کے گمراہ کن نظریات کو تقویت دے رہا ہے۔ یہ تمام رجحانات مشترکہ طورپر خطوں کے اندر اور ان سے باہر امن وسلامتی کے لئے ایک فوری خطرہ ہیں۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ یہ صورتحال میری توجہ جنوبی ایشیاءکی سلامتی کی صورتحال کی طرف لے جاتی ہے۔ یہ خطہ عجیب نوعیت کے ’جیوسٹرٹیجک‘ ماحول کی وجہ سے بے پناہ دبائو میں ہے۔ غربت، ناخواندگی اور پسماندگی کی مشکلات اس خطے کے لئے پہلے سے موجود رکاوٹوں کو مزید بڑھا رہی ہے۔ پاکستان دنیا میں شاید واحد ایسا ملک ہے جس نے عظیم جانی ومالی قربانیاں دے کر دہشت گردی کی خوفناک لہر کا رُخ موڑ کر رکھ دیا ہے۔ دہشت گردی اور انتہاءپسندی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے پاکستانی قوم پرعزم ہے۔ آپریشن’’ضرب عضب‘‘ اور’’ردالفساد‘‘ نے اس ضمن میں عظیم کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ ’نیشنل ایکشن پلان‘ پر عمل درآمد کے ثمرات کے نتیجے میں ملک کے طول وعرض میں شہروں اور قصبات میں امن اور خوشحالی کافی حد تک لوٹ آئی ہے۔ داخلی اور بین الاقوامی سطح پر سیاحت کا فروغ دہشت گردی کے خلاف ہماری اس کامیابی کا عملی ثبوت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ نے اسلام آباد کا ’فیملی سٹیشن‘ کا درجہ بحال کردیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کی بصیرت افروز قیادت کے تحت پاکستان ایک ذمہ دار اور عالمی ضابطوں پر عمل کرنے والے ملک کی حیثیت سے اپنے لئے زیادہ بڑا کردار دیکھ رہا ہے۔ پاکستان امن، تحمل اور پرامن بقائے باہمی کی پالیسی پر یقین رکھتا ہے۔ ہم بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے رہنما اصولوں پر کاربند ہیں جس میں انہوں نے فرمایا تھا کہ ”ہماری خارجہ پالیسی تمام اقوام عالم کے ساتھ دوستی اور خیرسگالی کی حامل ہے“۔ بھارت کے ساتھ امن اور رابطے استوار کرنے کی پیشکش اور کشمیر سمیت تمام تنازعات پر بات چیت کے لئے ہماری آمادگی، افغانستان پاکستان ایکشن پلان برائے امن واخوت (اے پی اے پی پی ایس) اس امر کا واضح مظہر ہے۔ ہم نے حال ہی میں کرتار پور راہداری کھولنے کا اقدام بھی ہمسایوں سے جڑنے اور امن کی جستجو میں کیا ہے۔ پاکستان امن کی بہتری اور باہمی احترام، خودمختاری کے یکساں احترام اور باہمی مفاد میں بھارت سمیت تمام ہمسایوں سے تعلقات بہتر بنانے کے لئے پرعزم ہے۔ پاکستانی وزیر خارجہ نے پاکستان کا موئقف بیان کرتے ہوئے مزید کہا بھارت نے پاکستان پر باربار دہشت گردی سے متعلق الزامات عائد کئے۔ ہم نے کہا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ دہشت گردی کے معاملے پر بھی بات کرنے پر آمادہ ہے، ہمیں عار نہیں، کیونکہ ہمارے خلاف دہشت گردی میں بھارت کے ملوث ہونے کے بھی سنجیدہ امور ہمارے علم میں ہیں۔ بھارتی بحریہ کا حاضر سروس افسر کمانڈر کلبھوشن یادیو پاکستان کی حراست میں ہے جس نے ٹھوس شواہد فراہم کرنے کے علاوہ اس امر کا اعتراف بھی کیا ہے کہ اس نے اپنی حکومت کی ہدایت پر پاکستان میں دہشت گردی اور تشدد کی لہر اٹھائی ، اس کے لئے وسائل فراہم کئے اور منصوبہ بندی کے ذریعے ان وارداتوں پر عمل کرایا۔ شاہ محمود قریشی نے ڈیفنس کمیٹی کے شرکاء سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ جنوبی ایشیاءمیں پاکستان اور بھارت میں روایتی ہتھیاروں میں بڑھتا ہوا عدم توازن بھی جنوبی ایشیاءکا تزویراتی استحکام خطرے میں ڈال رہا ہے۔ جدید فوجی سازوسامان کی فراہمی میں بعض ممالک کی جانب سے حساس ٹیکنالوجیز بھارت کو دے کر اور بھارت کی جانب سے جارحانہ قوت اور نظریہ اختیار کرکے امتیازی سلوک برتا جارہا ہے جس سے جوہری تنازعہ کی کسی صورتحال کا بخوبی ادراک کیاجاسکتا ہے۔ عدم استحکام کے ان حالات میں پاکستان کے پاس اور کوئی چارہ کار نہیں کہ اپنی کم ازکم دفاعی صلاحیت برقرار رکھے، ہم جنوبی ایشیاءمیں تزویراتی ضبط وتحمل کے نظام کے حامی ہیں۔ ’’نیٹ سیکورٹی پروائیڈر“، ”اکنامک اینکر“ اور ”چین کے کاونٹر ویٹ“ کے طورپر بھارت کا تصور جنوبی ایشیاءمیں سٹرٹیجک توازن بگاڑ رہا ہے اور علاقائی سلامتی کو داؤ پر لگارہا ہے۔ اسی اثناء میں افغانستان میں بھارت کی بڑھتی سٹرٹیجک مداخلت پاکستان کی سلامتی پر گہرے اثرات مرتب کررہی ہے۔ جموں وکشمیر ، اپنی جگہ ایک اور ایسا تنازعہ ہے جو جنوبی ایشیاءمیں پائیدار امن وسلامتی قائم ہونے کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ پاکستان مقبوضہ کشمیر کے عوام کو سفارتی، سیاسی اور اخلاقی حمایت فراہم کررہا ہے جو اقوام متحدہ کے چارٹر، سلامتی کونسل کی منظور کردہ مختلف قراردادوں کے تحت اپنا حق استصواب رائے مانگ رہے ہیں۔ بھارت کشمیریوں کی مقامی اور قانونی طورپر جائز جدوجہد کو ”دہشت گردی“ کے ذریعے دبانے کی کوشش کررہا ہے، طاقت کے بہیمانہ استعمال کے نتیجے میں مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین پامالیاں ہورہی ہیں۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق نے جون 2018ءمیں اپنی رپورٹ میں جامع انداز میں مقبوضہ وادی میں بھارتی سیکورٹی افواج کے ہاتھوں انسانی حقوق کی سنگین ترین خلاف ورزیوں کو جمع کیا ہے۔ سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ نے اس رپورٹ کو اقوام متحدہ کی آواز قرار دیا ہے ، یہ رپورٹ اقوام متحدہ کی نگرانی میں انکوائری کمیشن کے قیام کا مطالبہ کرتی ہے تاکہ مقبوضہ وادی میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے ذمہ داروں کا تعین ہوسکے۔ 14فروری 2019ءکو پلوامہ میں ایک مقامی کشمیری نوجوان کا واقعہ رونما ہوا جسے بھارتی قابض افواج نے بری طرح تشدد کا نشانہ بنایا، بدسلوکی اور بھارتی قابض فوج کے استبدادی رویوں کی بناءپر اس کا ذہن بدل گیا۔ پاکستان نے واقعہ کی مذمت کی اور بھارت سے ایسے شواہد دینے پر اصرار کیا جس کی بنیاد پر کارروائی عمل میں آسکے لیکن بھارت نے پاکستان کی اس پیشکش پر توجہ دینے کے بجائے اپنی داخلی سیاسی مجبوریوں کے تحت جنگی جنون کو ہوا دینا شروع کردی۔ اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بھارت کی جانب سے 26 فروری کو اقوام متحدہ کے چارٹر، بین الریاستی اقدار اور عالمی قانون کی پاسداری کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پاکستان کی خودمختاری اور فضائی حدود کی سنگین خلاف ورزی کی گئی۔ اس ناقابل قبول جارحیت پر پاکستان نے نہایت تحمل لیکن مضبوط عزم کے ساتھ ردعمل دیا۔ عالمی برادری نے ایک مرتبہ پھر اعتراف کرتے ہوئے اس بحران میں پاکستان کے مثبت طرز عمل کو سراہا۔ ہم بین الاقوامی برداری کے بھی شکرگزار ہیں جس نے اس ممکنہ تباہ کن صورتحال کو روکنے میں اپنا مثبت کردار ادا کیا۔ دوجوہری قوتوں کے درمیان کسی قسم کے تناو کا نہ صرف تصور محال ہے بلکہ سادہ الفاظ میں یہ خودکشی کے مترادف ہے۔ ہماری سوچی سمجھی رائے میں جموں وکشمیر سمیت تمام تنازعات کے پرامن حل کیلئے جامع مذاکرات اور مسلسل روابط کا نعم البدل نہیں ہوسکتا۔ افغانستان پہلے ہی عالمی طاقتوں کی مخاصمت اور سٹرٹیجک غلط اندازوں کے نتیجے میں بہت تکلیف اٹھا چکا ہے۔ دہائیوں کے تنازعہ کے بعد بھی افغانستان میں امن کا خواب ادھورا ہے۔ مزاحم قوتیں سیاسی وتزویراتی منظر نامے اور ملک پر اثرانداز ہونے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ غیرجانبدارانہ رپورٹس کے مطابق طالبان کے زیر اثر علاقوں میں مزید اضافہ ہوا ہے جو تقریبا ستر فیصد ہے۔ داعش اور ’ٹی ٹی پی‘ ”ٹرانس نیشنل ایجنڈے“ سے بڑھ کر شمال اور شمال مشرقی افغانستان میں سکیورٹی خلاءکا ناجائز فائدہ اٹھا رہی ہے۔ عام شہریوں اور فوجی ہلاکتوں میں اضافہ ہورہا ہے۔نسلی کشیدگی نے صورتحال مزید پیچیدہ بنادی ہے۔ ٹوٹ پھوٹ کے شکار سیاسی منظرنامے، قیادت کی محدود استعداد، کرپشن، اختیارات کے ناجائز استعمال، وار اکانومی اور منشیات سے حاصل ہونے والی بھاری آمدنی جیسے مسائل اس پر مستزاد ہیں۔ افغانستان میں عدم استحکام کا پاکستان کی سلامتی اور استحکام پر براہ راست اثر پڑتا ہے۔ گزشتہ انیس سال سے پاکستان افغانستان میں عالمی کوششوں میں کثیرالنواع مدد فراہم کر رہا ہے۔ ہم امریکہ اور نیٹو افواج کو افغانستان تک محفوظ زمینی اور فضائی مواصلاتی رابطہ مہیا کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم چالیس سال سے لاکھوں افغان مہاجرین کی مہمان نوازی کررہے ہیں۔ دوطرفہ تعاون کو مضبوط بنانے کے لئے ہم نے مشترکہ بنیادوں پر پاکستان افغانستان مشترکہ پلان برائے امن واخوت (اے پی اے پی پی ایس) شروع کیا ہے۔ حال ہی میں اسلام آباد میں اس کا جائزہ اجلاس منعقد ہوا۔ پاکستان مذاکرات کے ذریعے افغان تنازعہ ختم کرنے کا آرزو مند ہے۔ ہم نے ہمیشہ کہا ہے کہ اس کا کوئی ”فوجی حل نہیں“ ہے۔ ہم پرعزم ہیں کہ ”افغانوں کے اپنے اور ان کی اپنی قیادت میں“ امن عمل سے ہی افغانستان کے مسئلے کا حل نکلے گا۔ ہم افغانستان میں امن کے قیام کے لئے کوششوں کی مکمل حمایت کررہے ہیں۔ پاکستان نے اپنے محدود اثرورسوخ اور کردار کے ذریعے افغانستان کے مسئلہ کے حل کی کوشش میں امریکہ اورطالبان کے ”بااختیار نمائندگان“ میں براہ راست مذاکرات کے انعقاد میں سہولت کاری فراہم کی ۔ ہم نے مٌلاں برادر اور دیگر طالبان قیدیوں کو رہا کیا تاکہ اس عمل کو مہمیز ملے۔ پاکستان نے تمام سطحوں پر سفارتی کوششیں تیز کیں تاکہ امن عمل میں یکجائی آئے اور رکاوٹوں پر قابو پایا جاسکے۔ امریکہ اورطالبان ہم مناصب سے مسلسل رابطوں کے علاوہ میری روس، چین اور ایران کے وزرائے خارجہ سے ملاقاتیں ہوئیں تاکہ امن عمل آگے بڑھ سکے۔ اس ضمن میں مارچ میں اسلام آباد کے دورہ کے موقع پر یورپی یونین کی اعلی نمائندہ فریڈریکا موغیرینی سے میری تفصیلی اور بامقصد گفتگو ہوئی تھی۔ ہمارے خیال میں افغانستان کے مستقبل کا خاکہ تیار کرتے ہوئے چار کلیدی امور پر لازماً توجہ مرکوز کرنا ہوگی اور انہیں نظرانداز نہ کیاجائے۔ اول: افغانستان کاتنازعہ نسلی، قبائلی، وارلارڈز، مزاحمتی قوتوں اورسیاسی دھڑوں کے باہمی ملاپ سے انتہائی پیچیدہ شکل اختیار کرچکا ہے۔ پائیدار امن کے لئے تمام مقامی فریقین کو اعتماد میں لینا ہوگا۔ ایک اجتماعی اور باہمی طورپر قابل قبول شراکت اقتدار کا فارمولا ہی قومی اتحادی حکومت کی راہ ہموار کرے گا۔ دوم: امن عمل کی ’عالمی اونرشپ‘ کے علاوہ وسیع علاقائی اتفاق رائے بھی ضروری ہے۔ افغانستان کے ہمسایوں کا کردار جاری" امن عمل" میں اہم ہے۔ علاقائی سطح پر ’کیو سی جی، ، ’ایس سی او۔رابطہ گروپ، ’کابل عمل‘، ’ماسکو عمل‘ اورحال ہی میں ’لاہور عمل‘ افغانستان میں امن قائم کرنے کی مجموعی کاوشوں کو تقویت دینے میں سب اہم ہیں۔ عالمی، علاقائی ا ور داخلی سطحوں پر یکساں نکات کی نشاندہی کے ذریعے مذاکرات کی وسیع قبولیت درکار ہے۔ سوم: کسی پسندیدہ عنصر کی سرپرستی سے احتراز برتا جائے۔ مستقبل کے سیاسی نظام کے لئے سیاسی غیرجانبداری کا رویہ اپنانا ہی کارگر ثابت ہوسکتا ہے۔ اس مقصد کے لئے مستقبل کے سیاسی نظام میں افغانوں کی مقامی نسل اور آبادی کی زیادہ سے زیادہ تعداد میں نمائندگی اور شرکت کے مثبت نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ ہمیں افغانستان کی تاریخ سے صرف نظر نہیں کرنا چاہے۔ چہارم:سابق امن عمل کے بدقسمت ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے ہمیں اس عمل کو پٹڑی سے اتارنے والے عناصر پر نگاہ رکھنا ضروری ہے جو امن کوششوں کو متاثر کرنے کی کوشش کریںگے۔ بعض قوتیں ایسی ہیں جن کا اس معاملے سے کچھ لینا دینا نہیں اور نہ ہی وہ جغرافیائی طورپر اس میں سموئی جاسکتی ہیں، ان کا کام صرف افغان سیاسی تصفیہ میں مسائل اور رکاوٹیں پیدا کرنا ہے۔ ان عناصر کا اس معاملے میں کوئی کردار نہیں۔ پاکستان ایسے پرامن اور مستحکم افغانستان کے لئے پوری طرح سے پرعزم ہے جو دہشت گرد گروپوں جیسے القاعدہ، ٹی ٹی پی اور داعش کو اپنی سرزمین استعمال نہ کرنے دے۔ ایک مشترکہ ذمہ داری کے طورپر پاکستان دیگر فریقین کے ہمراہ امن عمل میں ممکنہ سہولت کاری فراہم کرنے پر آمادہ ہے۔ تاہم پیش نظر رہنا چاہئے کہ یہ سب لوگوں کی یہ مشترکہ ذمہ داری ہے۔ہم یورپی یونین کے افغان امن عمل میں واضح اور مستقل کوششوں میں ’سٹیکس‘ سے آگاہ ہیں۔ اس کی کاوشیں نمایاں ہیں اور کثیر الجہتی ہیں۔ اس ضمن میں جینیوا میں وزارتی کانفرنس کے موقع پر نومبر2018 میں یورپین یونین کی اعلی نمائندہ موغیرینی کی طرف سے پانچ نکات پر مبنی پیشکش اور معاونت کا ہم خیرمقدم کرتے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ یورپی یونین سے قریبی تعاون استوار رکھتے ہوئے خطے میں امن کے مشترکہ مقاصد کو آگے بڑھائیں گے۔ پاکستان دہشت گردی سے نبردآزما ہونے کے لئے جامع انداز فکر اپنائے ہوئے ہے۔ نیشنل ایکشن پلان جامع فریم ورک مہیا کرتا ہے۔ قومی طاقت کے تمام عناصر اس ضمن میں بروئے کار لائے گئے تاکہ اس عفریت کا قلع قمع ہو۔ دولاکھ فوجی دستوں کی تعیناتی سے پاکستان نے دنیا میں سب سے بڑی اور موثر انسداد دہشت گردی کی مہم چلائی ہے۔ ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور مسلح افواج نے ملک سے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے انتہائی جرات، بہادری، عزم اور پشیہ ورانہ لیاقت کا مظاہرہ کیا ہے۔ استحکام کی وطن میں واپسی کے ساتھ ہی ہم ان انتہائی مشکل سے حاصل ہونے والے امن کے ثمرات کو محفوظ بنانے کے لئے سرگرم عمل ہیں۔ تاہم پاکستان کو دہشت گردی کے بنیادی خطرات کا سامنا اب بھی ہے، جن میں دہشت گردوں کو بنیادی طورپر مالی معاونت، سہولت اور منصوبہ سازی بیرون ملک سے ملتی ہے۔پاکستان کا پختہ یقین ہے کہ انسداد دہشت گردی کے لئے تعاون اور شراکت داری پر مبنی سوچ درکار ہے۔ اس ضمن میں یورپی یونین کے اقدامات کی قدر کرتے ہیں جن کے تحت نئے سکیورٹی ڈائیلاگ کی صورت میں تعاون اور رابطوں نے شراکت داری کو مزید فروغ دیا ۔ اسے ’سٹرٹیجک اینگیجمنٹ پلان‘ کے تحت قائم کیاگیا ہے۔ یہ عمل قبل ازیں انسداد دہشت گردی اور عدم پھیلاو اور اسلحہ کی تخفیف کے موجودہ سالانہ ڈائیلاگ کی صورت میں استوار تھا جسے اب نئے پلان سے بدل دیاگیا ہے۔ ہم یورپی یونین کوسراہتے ہیں جس نے انسداد دہشت گردی کے شعبے میں استعداد کار میں پاکستان کی مدد کی۔ انسداد دہشت گردی کے شعبے میں ہم اپنا تجربہ اور مہارت آپ کے ساتھ بانٹنے کو تیار ہیں جو ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور مسلح افواج نے دقت طلب حالات میں بڑی قربانیوں کے ساتھ حاصل کیا ہے۔ دہشت گردی کے عفریت سے نجات پانے کے لئے ہم اپنے تجربات اور مہارتیں یورپی یونین کے رکن ممالک کے ساتھ اجتماعی طورپربانٹنے کے لئے تیار ہیں۔ شاہ محمود قریشی نے اپنی گفتگو کا اختتام کرتے ہوئے کہا کہ آخر میں، میں اس صورتحال پر تشویش کااظہار کئے بنا نہیں رہ سکتا جو امریکہ اور ایران کے درمیان عالمی اور علاقائی امن اور سلامتی کے لئے سنگین خطرہ بنتی جارہی ہے۔ وہ حالات ہمارے سامنے ہیں جن میں امریکہ نے یک طرفہ ’جے سی پی او اے‘ سے انخلاءکیا، ایران پر امریکی اقتصادی پابندیوں کا نفاذ ہوا، ایران کی جانب سے اعلان ہوا کہ وہ بھاری پانی اور انتہائی افزودہ یورینئیم کی پیداوار دوبارہ شروع کررہا ہے، بحری جہازوں پر حملہ ہوئے اور امریکی لڑاکا طیاروں سے لدے بحری بیڑے کا خیلج فارس میں آنا ہوا، یہ تمام اقدامات علاقائی اور عالمی امن واستحکام کیلئے خطرات اور خدشات کا باعث ہیں۔ ایران میں کسی قسم کے عدم استحکام کے پاکستان کی سیکورٹی پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے اور کثیرالجہتی چیلنجوں کا اسے سامنا کرنا پڑے گا ایسی کسی بھی صورحال کا نتیجہ بڑے پیمانے پر مہاجرین کی آمد کی صورت میں برآمد ہوگا جبکہ ہمارے پڑوس میں موجود علاقائی قوتوں کی موجودگی الگ سے مسئلہ ہے۔ خطے میں ایسی کسی بھی صورتحال کے افغانستان میں جاری امن عمل پر بھی بہت ہی تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔ پاکستان یقین رکھتا ہے کہ ’جے سی پی اواے‘ ایک نہایت اہم کامیابی ہے جسے محفوظ رکھنا چاہئے خاص طورپر ’آئی اے ای اے‘ نے بارہا تصدیق کی ہے کہ ایران معاہدے کی شرائط کار کی سختی سے پابندی کررہا تھا۔ ہم یورپی یونین کی اس معاہدے کو بچانے اور اس کے تحت وعدوں پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کیلئے کاوشوں کا نہ صرف اعتراف کرتے ہیں بلکہ انہیں خوش آمدید بھی کہتے ہیں۔ آخر میں ایک بار پھر اس عزم کا اعادہ کرتا ہوں کہ پاکستان یقین رکھتا ہے کہ امن، سلامتی اور ترقی پر ایک نیا اتفاق رائے ہوسکتا ہے اور ہونا چاہئے۔ عالمی امن اور خوشحالی کا نیا ’پیرا ڈائم‘ درکار ہے اور یہ حاصل ہوسکتا ہے پاکستان نہ صرف اس مقصد کیلئے آمادہ ہے بلکہ اس قابل قدر کاوش میں عالمی برادری کا قابل اعتماد شراکت دار بھی ہے۔

تازہ ترین