• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فکرفردا … راجہ اکبرداد خان
چند دن قبل چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے یہ کہہ کر کہ اسمبلی کی طرف دیکھیں تو نہ ہی قائدایوان اور نہ ہی قائدحزب اختلاف کو بولنے دیاجارہا ہے ورلڈ کپ میں بھی پاکستان کیلئے کوئی اچھی خبر نہیں آرہی، قومی اسمبلی ہماری ریاست اور حکومت کا دل ہے اور سیاست کے بعد کرکٹ سے محبت پاکستانی قوم کی دوسری بڑی پہچان ہے، جسٹس محترم کی ان دنوں خصوصیات کی عدم پرفارمنس پر مایوسی پوری قوم کی سوچ اور جذبات کی آئینہ دار ہے، اگر طاقت کے ایک اہم مرکز کے سربراہ ایسا کچھ کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں تو ایک ایوریج شہری جو غالبا کرکٹ کا شوق بھی رکھتا ہوگا۔اور ملک سے محبت بھی تو وہ کہیں زیادہ رنجیدہ ہوسکتے ہیں۔ ہم میں سے وہ جو اقتدار کے مختلف حصوں میں بیٹھے ہیں کو قوم کی ذہنی اور جذباتی صحت کے متعلق توجہ دینی بھی نہ اہم ہے ، کیونکہ ذہنی طورپر شکست خوردہ معاشروں کو اوپر اٹھانا ممالک کے لئے چیلنجزز بن جاتے ہیں پاکستانی معاشرہ بھی معاشرتی عدم استحکام کی وجہ سے ایسی ہی تکلیف دہ صورتحال کی طرف بڑھ رہا ہے عدم برداشت اور آئین اور قانون سے باہر کھیلنے کی عادات نے معاشرہ کو طویل عرصہ سے دبوچ رکھا ہے اور اس اپروچ کی آبیاری میں ہمارے معاشی اور سیاسی نظام نے بھرپور حصے ڈال رکھے ہیں آبائی وطن میں فرد حالات کا قیدی ہے وہاں برطانیہ کا نہ تو سیاسی اور نہ ہی معاشی محفوظ معاشرہ موجود ہے جو کمزور ترین کو بھی تقریبا اتنی ہی پروٹیکشن دیتا ہے، جتنی کہ امیر طبقات کو حاصل ہے رنگ ونسل کی بنیاد پر تفریق بہت کم ہے، جس سے نمٹنے کیلئے قوانین بھی موجود ہیں اور وسائل بھی (مقدمہ لڑنے کے لئے قانونی امداد بھی مل جاتی ہے)۔ کئی لاکھ پاکستانی تمام بڑے شہروں میں اتنی تعداد میں ضرور موجود ہیں کہ ان کی تعدادی حیثیت کوبظاہر نہیں کرسکتا۔ سرچڑھ کر اپنے معاملات ٹھیک طریقہ سے حل کرواسکتے ہیں درجن بھر سیاسی جماعتوں اور 1200مساجد کی موجودگی میں  ہمارے پاس پلیٹ فارمز کی بھی کمی نہیں۔ مساجد کی بڑی تعداد مختلف پیر صاحبان کے براہ راست زیر اثر ہیں، کمیونٹیز ہر ہفتہ ان اداروں سے جڑے علما کرام جب چاہتے ہیں نئے منصوبہ جات شروع کردیتے ہیں  کیونکہ انہیں مکمل یقین ہوتا ہے کہ مساجد کے نام پر لوگ مالی معاونت سے گریز نہیں کریں گے اور ہوتا بھی ایسے ہی ہے، عوامی دولت اور کنٹرولنگ پاور کا یہ مجموعہ کی اکابرین کو غرور اور تکبر کا مجسمہ بنا کر لوگوں کے سروں پر بٹھادیتا ہے کیونکہ کمیونٹی کے بڑے حصہ کی سوشل بیک گرائونڈ تقریبا ایک جیسی ہے ، اس لئے اکثر دینی مراکز کے معاملات بھی ایک دوسرے سےہم آہنگ ہیں اپنی اشرافیہ جس کے ہفتہ وار فوٹو اور بیانات اخبارات اور دیگر ذرائع ابلاغ میں دیکھنے کو ملتے ہیں ان میں سے بھاری اکثریت اپنے آپ کو کمیونٹی نمائندگان، دانشوران اور عمائدین شہر کے طورپہ متعارف کرانا پسند کرتے ہیں اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ ہمارے درمیان گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ سطح تک تعلیم یافتہ لوگوں کی بھاری تعداد موجود ہے، ایسی ہی تعداد خواتین کے درمیان بھی موجود ہے کمیونٹی کے ان دونوں حصوں کا معاشرہ کے اہم معاملات میں موجود ہو کر موثر کردار نہ ادا کرسکتا، ہماری سوچوں پہ کئی سوال اٹھاتا ہے، تعلیم کے معیار تھوڑے اوپر نیچے ہوسکتے ہیں، مگر یہ قبول نہیں کیا جا سکتا کہ ہمارے درمیان پہ پڑھا لکھا طبقہ حالات میں بہتری لانے کیلئے کچھ نہیں کرسکتا اس طبقہ کی کمیونٹی کے اندر جڑیں موجود ہیں ان کے پاس علم ہے یقینا معاملات پر موقف پیش کرنے کی بھی اہلیت رکھتے ہیں  اکثر اپنی تعلیمی پس منظر کی وجہ سے Presentable شخصیات بھی ہیں لیکن کمیونٹی اپنے مسائل کے حل کے حوالہ سے اس ٹیلنٹ سے مستفید نہیں ہو پارہی۔ ہمارا یہ تعلیم یافتہ طبقہ حالات کی مجبوریوں کی وجہ سے کمیونٹی میں موجود نہیں ملتا اور اہلیت کے اس خلا کی وجہ سے قیادت ڈیلور نہیں کر پا رہی ، تمام اہل فکر کیلئے سوچنے کا مقام ہے، وسائل کی بھی کمی نہیں معاملات سے اہل طریقہ سے نمٹنے کیلئے پرانا اور نیا ٹیلنٹ بھی موجود ہے، کمیونٹی کے اندر اپنی دہنی اور ثقافتی وراثت محفوظ کرنے کی خواہشات بھی ہر دم موجود ہیں۔ یہ معاشرہ ہمیں اپنے حقوق کے حصول کیلئے ہر ممکن تعاون بھی فراہم کرتا ہے، ان تمام حقائق کے باوجود پہلے تو ہم درپیش چیلنجز پہ توجہ ہی نہیں دیتے اور اگر کسی طرح آواز اٹھانے کے لئے تیار ہوجاتے ہیں تو اپنے میڈیا میں ایک دو بیانات دیکر خاموش ہوجاتے ہیں اور ایسی آوازیں بھی علما کرام تک ہی محدود ہیں ہم مقاصد کے حصول کیلئے Targeted اپروچ پالیسی اختیار کیوں نہیں کررہے ؟ ہمارے ان وکلا پروفیسرز اور دیگر کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنا تعاون پیش کریں ، معاملات خواہ LGBT کے ہوں، شہروں میں بن کلر یسن کی بات ہو، رمضان اور عیدین کے تعین کی بات ہو، ہر شہر کے اندر مثلا ٹریفک معاملات کو بہتر کرنیکی کوششیں ہوں ڈرگر کا پھیلائو روکنے کی بات ہو کیونکہ یہ وبا ہمارے درمیان زیادہ موجود ہے، ہم صرف اردو زبان میں بیانات تک ہی موجود ملتے ہیں یہی حال پاکستان حوالہ سے ہماری سفارتکاری کا بھی ہے ایک سنجیدہ سوال یہ ہے کہ ہم اپنی بات اکثر منوانے میں کیوں ناکام رہ جاتے ہیں؟ جو اب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہماری کوششیں سنجیدہ نہیں ہوتیں صرف ہر بات دکھادے کیلئے کی جاتی ہے تاکہ مخصوص طبقہ ہماری کارکردگی سے خوش رہے، کمیونٹی کے اندر ٹیلنٹ سے مستفید ہو کر حل طلب معاملات پر دوٹوک موقف اختیار کرکے ہی بیشتر ایشوز کو کسی منطقی انجام تک پہنچایا جاسکتا ہے، ایسی بامعنی اپروچ کی راہ میں بڑے مقاصد کی خاطر پر سنلٹی ٹکرائو جیسی کمزوریوں سے بچ پانا بھی اہم ہے۔ مذکورہ ٹیلنٹ کو کمیونٹی بہتری کے لئے اپنا کردار ادا کرنیکی کی کوشش کرنی چاہئے ضرورت اس امر کی ہے کہ کمیونٹی کے اندر یہ ذمہ دار گروپ احساس کرنے کہ حقوق العباد کی ادائیگی بھی ایک اہم فریضہ ہے، عوامی رابطوں کے بیشتر سینٹرز پر علما کا قبضہ ہے اس لئے اگر وہ ملکی اور مقامی سطح پہ بہتری احوال کے لئے پرخلوس ہیں تو انہیں عوامی ایجنڈوں پہ توجہ دینے اور حل نکالنے کے لئے کہیں زیادہ بڑا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ بیشتر معاملات پہ ہماری کوششوں کی سوئی منزل حاصل کیے بغیر ہی راستہ کے ابتدا میں ہی اٹک جاتی ہے، اس کے بعد ہم بھول بھلا کر دوسرے معاملات میں الجھ جاتے ہیں اور خود یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے اپنی ذمہ داری پوری کردی ہے ماضی میں ہم کے کئی درجن کمیونٹی ایشوز (مقامی اور قومی سطح پر) اٹھائے اور اکثریت کو کچھ حاصل کیے بغیر اپنے ذہن سے مٹا دیا، ایسی قیادت جس طرف سے بھی ابھری کامیاب قیادت نہیں کہیں جاسکتی، ناکامیوں کو کامیابیوں میں بدل دینا ذہنی اور حقیقی جنگ میں تسلسل اور محنت کے ذریعہ ہی حاصل ہوسکتی ہے، مولائے قدوس ہماری قیادتوں کو کمیونٹی ایشوز پر اس طرح کام کرنے کی ہمت دے، جس طرح وہ اپنے پسندیدہ لوگوں کو عطا فرماتا ہے۔
تازہ ترین