• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج اتوار ہے۔ ایک دوسرے سے توقعات اور تمنّائوں کے تبادلے کا دن۔ اسے آرام میں بھی گزارا جاسکتا ہے۔ اور اس تصور یا تجویز کی تلاش میں بھی جس سے اس خطّے میں نشاۃ ثانیہ کا آغاز ہوسکتا ہے۔ سب کی خواہش ہے کہ وہ نظام آجائے جس سے یہ زوال کا سفر رک جائے۔ لیکن ایسا نسخہ ڈھونڈا جاتا ہے صرف بنی گالا ، جاتی امرا، بلاول ہائوس میں۔ تاریخ گواہ ہے کہ اچھے خیال۔ صائب تجویز۔ نتیجہ خیز تصور۔ حقیقت افروز تمنّا پر کسی کی اجارہ داری نہیں ہے۔ ہماری اپنی تاریخ میں فاتحین۔ فلسفی۔ حکیم زیادہ تر محلّات کے باہر چھوٹے قصبوں۔ پسماندہ علاقوں میں پیدا ہوتے رہے۔ یہی لوگ دربار کا حصّہ بن کر بادشاہتیں کامیاب کرواتے تھے۔ اب ترقی و تہذیب کے سر چشمے مغربی ممالک میں جنم لے رہے ہیں۔ وہاں بھی کائنات کا نظم بدل دینے والے خیالات وائٹ ہائوسوں۔ ڈائوننگ اسٹریٹوں۔چیلسی چیلسیوں میں پیدا نہیں ہوئے ۔ عام لوگوں کے ذہنوں میں صورت پذیر ہوئے۔ معاشرے نے ان کا خیر مقدم کیا۔ دولتمندوں نے سرپرستی کی۔ اس طرح زندگی کی رفتار تیز کرنے والی ایجادات بھی عام ذہنوں کے تصوّرات کا نتیجہ رہی ہیں۔ ان خواب دیکھنے والوں۔ تصور جاناں کرنے والوں۔ پُر عزم موجدوں کو خیال دوست ماحول ملا۔ مثبت سوچ رکھنے والے اہل ثروت۔ ان کے امتزاج سے نئے پیشوں والی نئی دنیا وجود میں آئی۔ ندرت اور دولت کی ملاقات سے ہی انٹرنیٹ وجود میں آیا۔ جس نے کائنات کی طنابیں کھینچ کر رکھ دیں۔

ہمارا المیہ یہ ہے کہ ندرت کو دولت کدوں میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے۔ دولت مند سوچنے والوں سے ڈرتے ہیں کہ یہ ٹوٹے ہوئے تارے مہ کامل نہ بن جائیں۔ پارلیمنٹ والے سمجھتے ہیں کہ عقل پر ان کا اجارہ ہے۔ بیورو کریسی اس زعم میں رہتی ہے کہ ملک ہمارے سینگوں پر کھڑا ہے۔ خلائی مخلوق کا خیال ہے کہ رزق حلال صرف وہی کمارہے ہیں۔ پلاننگ کمیشن کو یہ خبط ہے کہ آئندہ کا روڈ میپ بنانے کا گُر صرف ان کو ہی آتا ہے۔

کتنے ہمارے سائنسدان زندگی کو آسان کرنے کے بہت سے خواب اپنے ساتھ لیے تہ خاک سورہے ہیں۔ کتنے درد مند پاکستانیوں نے راتیں جاگ جاگ کر اپنے اپنے شعبے میں آگے بڑھنے کے لیے مقامی خام مال۔ جڑی بوٹیوں پر تحقیق کی۔ لیکن پذیرائی کو ترستے دنیا چھوڑ گئے۔

بجلی کی قلت ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ بہت سے انجینئرز نے اس سنگین مسئلے پر تحقیق کی ہے۔ واپڈا کے غلط نظام کی نشاندہی کی ہے۔ اعداد و شُمار کی روشنی میں ٹیکنیکل اعتبار سے حقائق پر بنیاد رکھتے ہوئے۔ ایسے فارمولے تشکیل دیے ہیں کہ لوڈ شیڈنگ کم سے کم ہوسکتی ہے لیکن ان کی کوئی نہیں سنتا۔

دور دراز پہاڑی علاقوں کے مکینوں میں ایسے نابغہ روزگار بھی ہیں جو چھوٹی چھوٹی آبشاروں سے بجلی پیدا کرتے ہیں۔ اسے مقامی سطح پر استعمال کرتے ہیں۔ آس پاس کے علاقوں تک لے جاسکتے ہیں۔ لیکن ہم ان کی سرپرستی نہیں کرتے۔ ہمارا معاشرہ تحقیق سے گریز کرتا ہے۔ ایسی عملی تجاویز ٹھوس مشورے دینے والوں کو خبطی خیال کرتا ہے۔ ہمارے ایم این اے۔ سینیٹر اوّل تو اپنے علاقے میں نہیں رہتے اگر ہوں بھی تو ایسے خبطیوں سے ملاقات کو وقت کا ضیاع سمجھتے ہیں۔ اصل بات ہے درد کی۔ اگر دل میں ملک کے لیے واقعی درد ہو تو آدمی از خود ایسے صناعوں۔ کاریگروں کی تلاش میں رہتا ہے۔

نوشکی (بلوچستان) میں نویں دسویں کلاس کے جن بچوں کو سائنسی پروجیکٹ بناتے میں نے دیکھا۔ آپ کو بھی مستقبل کے ان پاکستانیوں سے ملوایا۔ کوئی ویکیوم کلینر بنارہا ہے۔ کوئی پانی کی ترسیل کا بہتر نظام دکھارہا ہے۔ آپ میں سے بھی کسی نے ان کی حوصلہ افزائی نہیں کی۔ ملک کے کاروباریوں نے بھی اس طرف توجہ نہیں دی۔ میں کوئی بے مقصد بحث چھیڑدوں۔ اس میں سب کود پڑتے ہیں۔ میں کہوں کہ سیلیکٹڈ کہنا مناسب ہے یا نہیں۔ دیکھیں کس طرح سب آستینیں چڑھائے اس تکرار میں حصّہ لیتے ہیں۔ہم جذباتی قوم ہیں۔ باتوں کے دھنی۔ ہماری ان عادتوں پر تحقیق کرکے موبائل فون کمپنیاں اربوں ڈالر کمارہی ہیں۔ 22کروڑ کی آبادی میں قریباً 15کروڑ فون ہیں۔میں بہت سوچتا ہوں۔ کچھ ادارے شاید تحقیق بھی کرتے ہوں کہ اتنے تیز رفتار اطلاعاتی ماحول۔ اور رابطے کے کلچر سے ہمارے حالات کتنے بہتر ہوئے۔ ہمارے کاروبار نے کتنی ترقی کی۔ ہماری عادتیں کتنی تبدیل ہوئیں۔ اہل ہُنر فون پر نظر آتے ہیں۔ گھریلو ملازمائیں۔ بڑھئی۔ دکاندار۔ ہر لمحہ باتیں ہورہی ہیں۔ کئی کئی گھنٹے مفت بات کرنے کے پیکیج۔ موبائل فون سے پہلے کے اور بعد کے پاکستانی معاشرے میں جو فرق ہونا چاہئے ۔ کیا وہ ہے۔ بلوں کا خرچہ تو بڑھا ہے۔ موبائل فون کمپنیوں کو ایک نئی مارکیٹ ملی ہے آمدن بھی ہورہی ہے۔ منافع بھی۔ جو ڈالر کی شکل میں ان کے ملک جارہا ہے۔ ہمارے ہر طبقے کے اخراجات میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کے بدلے میں ہمیں کیا ملا ہے۔۔

موبائل فون سے متعلقہ بہت سی تجاویز ہیں۔ جو ہمارے نوجوان تیار کررہے ہیں۔ اگر ان کی حوصلہ افزائی ہو تو وہ ایجادات بھی کرسکتے ہیں۔

میری ہمیشہ تمنّا رہی کہ کوئی ایسا دن طلوع ہو۔ جب صبح سویرے کسی حکمران کا یہ پیغام کہ’’ پوری قوم کو دعوت دی جاتی ہے کہ وہ اپنے اپنے قیمتی خیالات۔ تجاویز۔ پروجیکٹ۔ منصوبے ڈاک سے کوریئر سروس سے یا دستی ریاست پاکستان کو پہنچائیں۔ ہمیں اپنے آپ کو بدلنا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ بھی اس قوم کو ہی بدلتا ہے جس کے دل میں خود اپنے آپ کو بدلنے کا خیال آتا ہے۔‘‘

مجھے یقین ہے کہ اقتدار کے ایوانوں میں انتہائی قیمتی تجاویز کے ذخیرے جمع ہوجائیں گے کوئی ٹاسک فورس پھر ان کی درجہ اور شعبہ بندی کرے۔ ان کی چھان بین کے لیے ریٹائرڈ پروفیسرز بلائے جائیں۔ یہ ذمہ داری بیورو کریٹس کے سپرد نہ کی جائے۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی طرح فیڈرل بورڈ آف آئیڈیا کیوں نہیں۔ وہاں اثاثے معلوم کیے جارہے ہیں۔ تجاویز خواب تمنّائیں بھی اثاثے ہیں۔ ان کو بھی محفوظ کرلیں۔ اسکولوں۔ کالجوں۔ یونیورسٹیوں۔ دینی مدارس میں ایسے بہت سے درد مند ہیں جنہوں نے ایسے منصوبے لکھ کر ٹائپ کرکے تیار رکھے ہیں۔ میڈیکل انجینئرنگ اور زرعی یونیورسٹیوں میں بہت تحقیق ہورہی ہے۔ نئی دوائیں۔ نئی فصلیں۔ پل۔ نئی شاہراہیں سوچی جارہی ہیں۔ علمائے دین بھی اجتہاد کرکے بہت سے نئے راستے دکھانا چاہتے ہیں۔ عام پاکستانی کا ذہن بھی بہت زرخیز ہے۔

حکومت سے تو ہماری یہ تمنّا پوری نہیں ہوئی۔ ملک میں بے شُمار بینک ہیں۔ کارپوریٹ ادارے ہیں۔ کثیر القومی کمپنیاں تو اپنے منافع کے لیے ایسے کام کرتی رہتی ہیں۔ پاکستان کے لیے کوئی ادارہ یہ کام کرے۔

دیکھیں آپ کو بلوچستان کے بنجر علاقوں سے کتنی زرخیز تجاویز ملتی ہیں۔ سندھ کے ریگ زاروں سے ریت کو سونے میں بدلنے کے کیسے حقیقی منصوبے دستیاب ہوں گے۔ کے پی ۔ پنجاب جنوبی پنجاب۔ فاٹا۔ بلتستان۔ آزاد جموں و کشمیر۔ نوجوان بزرگ گھریلو خواتین ترس رہے ہیں کہ کوئی ان کے خواب سنے۔ کوئی ان کے تصوّرات میں شریک ہو۔ ہے کوئی دولت مند جو اس بینک کی بنیاد رکھے۔

تازہ ترین