اسلام آباد (انصار عباسی) حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کے دور میں بھی جنرل پرویز مشرف کے دور میں ہونے والی مبینہ کرپشن کے مقدمات کو غیر تحریری این آر او سے مسلسل تحفظ ملا ہوا ہے۔ پیپلز پارٹی اور نون لیگ کی گزشتہ حکومتوں کی طرح، پی ٹی آئی حکومت بھی پرویز مشرف دور کے کرپشن مقدمات میں تحقیقات میں کوئی دلچسپی نہیں دکھا رہی جبکہ نیب کی ان میگا کرپشن کیسز کے حوالے سے آنکھیں بند رکھنے کی پالیسی بھی تبدیل نہیں ہوئی۔ 2005ء میں اسٹاک ایکسچینج میں ہیرا پھیری کا کیس ہو یا اسٹیل ملز کی نجکاری، 2006ء کا چینی اسکینڈل، صاف پانی کا اربوں روپے کا اسکینڈل، پاک فضائیہ کیلئے جاسوسی کے آلات کی خریداری سمیت دفاعی خریداریوں میں کک بیکس، فوجی زمین کی اپنے (مشرف کے) ذاتی اسٹاف اور سیاسی رہنمائوں میں تقسیم، 2005ء کے زلزلے کے فنڈز میں کرپشن، جعلی پنشن اسکینڈل، جکارتہ میں پاکستان کی پراپرٹی کی متنازع فروخت کا معاملہ ہو یا فوجی آمر کی جانب سے کی جانے والی غیر آئینی بھرتیوں کا معاملہ، کسی ایک بھی معاملے میں کوئی تحقیقات نہیں کی جا رہیں۔ معلوم ذرائع سے زیادہ اثاثوں کے معاملات میں اگرچہ سیاست دانوں کیخلاف تحقیقات ہو رہی ہیں لیکن جنرل (ر) پرویز مشرف کے کیسز میں کوئی تحقیقات نہیں کہ آخر انہوں نے ملک کے اندر اور باہر اربوں روپے کے اثاثے کیسے بنائے۔ نیب کے پاس تفصیلات ہیں لیکن وہ جذبہ نہیں جس کے تحت جنرل (ر) پرویز مشرف کیخلاف تحقیقات کی جا سکے کہ جنگ میں حصہ لینے والے فوجیوں اور شہید فوجیوں کے اہل خانہ کیلئے مختص 10؍ ہزار کنال فوجی زمین انہوں نے اپنے سیاسی مخالفین کے فرنٹ مین اور ایسے افراد میں کیسے تقسیم کی جو اس زمین کے لائق نہیں تھے۔ ساتھ ہی یہ زمین سویلین ملازمین بشمول باورچی، نائی، خانسامہ، محافظ اور اپنے ذاتی اسٹاف میں شامل ملازمین میں تقسیم کی گئی۔ زمین کا یہ بڑا حصہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں تھا جسے جنرل (ر) پرویز مشرف کی ہدایات پر جی ایچ کیو نے غیر مستحق سویلین اور فوجیوں میں تقسیم کیا۔ ایوانِ صدر میں قیام کے دوران پرویز مشرف کے ساتھ اسٹاف کی صورت میں جڑے 24؍ سے زائد افراد کو بھی سیکڑوں کنال فوجی زمین دی گئی۔ پرویز مشرف کے دور میں پنجاب میں موجود 6700 ؍ کنال فوجی زمین پنجاب حکومت کے 47؍ افسران کو الاٹ کرنے کے حوالے سے شہباز شریف حکومت نے 2008-09ء میں اسٹیبلشمنٹ کے روبرو ایک ریفرنس دائر کیا تھا کہ وہ اس متنازع الاٹمنٹ کو منسوخ کرے۔ ڈیرہ اسمٰعیل خان کے کچھ سیاست دانوں کے فرنٹ مین سمیت غیر فوجی اہلکاروں کو پرویز مشرف کے دور میں جو زمین دی گئی تھی اس کے حوالے فوج کے ترجمان نے کئی سال قبل اعتراف کیا تھا کہ ان الاٹمنٹس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے لیکن سابق فوجی حکمران اور سابق صدر کی جانب سے کیے جانے والے غلط اقدام پر ان کیخلاف کوئی مقدمہ قائم نہیں کیا گیا۔ پنجاب میں 47؍ سویلین عہدیداروں (جن میں سے اکثر کا تعلق ریونیو ڈپارٹمنٹ سے تھا) کو 6700؍ کنال فوجی زمین پرویز مشرف کے دور میں دی گئی۔ ان عہدیداروں کی اکثریت کو شہباز شریف نے اپنے گزشتہ دور حکومت میں او ایس ڈی بنا دیا تھا۔ پنجاب حکومت نے باضابطہ طور پر اسٹیبلشمنٹ سے رابطہ کرکے اس متنازع الاٹمنٹ کو منسوخ کرنے کیلئے کہا تھا۔ پنجاب حکومت کی رائے تھی کہ جن عہدیداروں کو یہ زمین الاٹ کی گئی ہے وہ فرائض کی انجام دہی سے آگے نکل گئے اور پورے عمل میں معاونت فراہم کی۔ اسی طرح 2005ء کے اسٹاک ایکسچینج کے اسکینڈل میں با اثر کھلاڑیوں کیخلاف بھی کوئی کارروائی نہیں ہوئی، اس اسکینڈل کے حوالے سے سرکاری کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کہاتھا کہ 2005ء میں منظم کھلاڑیوں کے گینگ کی اسٹاک ایکسچینج میں کی جانے والی ہیرا پھیری سے عام اور متوسط طبقے کے کاروباری افراد کے 13؍ ارب ڈالرز ڈوب گئے۔ کہا جاتا ہے کہ اس اسکینڈل میں تقریباً 80؍ افراد نے فائدہ اٹھایا جن کی اکثریت پرویز مشرف کے قریبی لوگوں اور ان کے ساتھیوں کی ہے۔ اس اسکینڈل میں ہونے والی ہیرا پھیری کے نتیجے میں ان افراد کی دولت دگنی ہوگئی۔ لیکن لوٹے گئے اربوں روپے کی واپسی کیلئے کوئی تفتیش ہوئی اور نہ ہی کسی کو گرفتار کیا گیا۔ ایک اور کیس میں پرویز مشرف حکومت نے ملک بھر میں پینے کے صاف پانی کی اسکیم شروع کی جس میں اس عزم کا اظہار کیا گیا تھا کہ دسمبر 2007ء تک ہر یونین کونسل میں پینے کے صاف پانی کا ایک پلانٹ لگایا جائے گا۔ ابتدائی طور پر یہ 7.7؍ ارب روپے کا پروجیکٹ تھا لیکن بعد میں اسے بڑھا کر 16؍ ارب روپے کر دیا گیا۔ اسی طرح 3.6؍ ارب روپے مالیت سے ملک کے 29؍ اضلاع میں لڑکیوں کو اسکولوں میں خوراک کے پیکیج دینے کیلئے کا توانا پاکستان پروجیکٹ شروع کیا گیا تھا لیکن یہ پروجیکٹ بھی ضایع ہوگیا کیونکہ اس میں پرویز مشرف کے ایک من پسند وزیر شامل تھے۔ لیکن نیب کو اس سے سوال تک پوچھنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ سپریم کورٹ کے حکم کی وجہ سے پاکستان اسٹیل ملز کی نجکاری کا منصوبہ روک دیا گیا لیکن یہ معاملہ بھی پرویز مشرف اور ان کے قریبی ساتھیوں کے خلاف سنگین الزامات سے بھرپور چارج شیٹ سے کم نہیں جنہوں نے اس قومی اہمیت کے حامل اثاثے کو تقریباً کوڑیوں کے دام بیچ ہی ڈالا تھا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق، نجکاری کے عمل میں فراڈ کیا گیا تھا لیکن اس کے باوجود کسی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ 2006ء میں لیفٹیننٹ جنرل (ر) شاہد عزیز نیب کے سربراہ تھے اور ان کی قیادت میں ادارے نے چینی کے اسکینڈل کی تفتیش کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس اسکینڈل میں پرویز مشرف حکومت کے کچھ وزیر شامل تھے لیکن اس معاملے میں بھی نیب کو تفتیش سے روک دیا گیا تھا۔ 2005ء کے زلزلے کے بعد بحالی و تعمیر کے کاموں کیلئے مختص اربوں روپے کے فنڈز میں بھی غبن کی اطلاعات تھیں۔ نیب کے فرنٹیئر آفس نے بھی اس فراڈ کی نشاندہی کی تھی لیکن اس معاملے میں بھی نیب کو تفتیش سے دور رہنے کیلئے کہا گیا تھا۔ 2002ء میں جکارتہ میں تعینات دفتر خارجہ کے ایک سینئر سفارت کار نے اطلاع دی تھی کہ انڈونیشیا میں پاکستانی سفارت خانے کی ملکیت سمجھی جانے والی پراپرٹی کوڑیوں کے دام بیچ کر کک بیکس لیے گئے ہیں۔ نتیجے میں، اس سفارت کار (جو جکارتہ مشن میں منسٹر تھے) کو ملک واپس بلا کر انہیں معطل کر دیا گیا اور 2007-08ء میں ریٹائرمنٹ تک انہیں ملازمت پر بحال نہیں کیا گیا۔ پرویز مشرف کے دور میں تیل کے شعبے میں بھی مافیا نے فوجی حکومت کے سرکردہ کھلاڑیوں کے ساتھ مل کر ملکی معیشت کو نقصان پہنچایا۔ مشرف کے دور میں نیب کو بتایا گیا کہ کچھ لوگ آئل ریفائنریز اور آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کے فائدے کیلئے تیل کی قیمتوں میں ہیرا پھیری کر رہے ہیں لیکن نیب سے کہا گیا کہ وہ اپنی حدود میں رہے۔