• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نفرت کے بیج بونے سے بہتر ہے، آپس میں محبت بانٹیں

ہمارے معاشرے میں عورت کا تصور ایک کمزور وجود کے طور پر کیا جاتا ہے لیکن جب یہی عورت کسی سے حسد اورنفرت کرتی ہے تواس سے زیادہ طاقت وار کوئی دوسرا نظر نہیں آتا ۔موجودہ دور میں ہر طرف نفسا نفسی کا عالم ہے ،چاروں طرف سے خبر کے نام پر برائی کو منظر عام پر لایا جا رہا ہے ۔جہاں معاشرہ انتشار کا شکار ہے وہاں مثبت پہلوئوں پر گفتگو کی اشد ضرورت ہے ،مگر حالات اس کے بر عکس نظر آتے ہیں ۔آج کل ٹی وی چینلز کے بیش تر ڈراموں میں خواتین موضوع بحث نظر آتی ہیں ۔اکثر ڈراموں میں یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ خواتین حسد اور جلن میں دوسروں کے گھر اُجاڑ رہی ہیں ۔مزے کی بات یہ ہے کہ ایسے ڈرامو ں کو پسند کیا جارہا ہے ۔ جب کہ اس وقت ہمیں حسد کرداروں کے بجائے ایسے پروگرامز اور کرداروں کی ضرورت ہےجو معاشرے کی اصلاح کرسکیں ۔

ہمارے ہاں مردوں کی نسبت خواتین کی تعداد زیادہ ہے اگر وہ ملکی اور معاشرتی اصلاح میں اپنا کردار ادا کریں تو کتنا اچھا ہو۔ عورت جو معاشرتی اکائی ہے، گھر کی دیکھ بھال اور بچوں کی تربیت کی ذمے داری انجام دے رہی ہے، وہ اپنی اولاد کو انسانیت اور محبت کا درس دے ۔ لیکن اس کے برعکس ہماری خواتین گھریلو جھگڑوں، ساس نندوں کی لڑائیوں سے ہی باہر نکل ہی نہیں پاتیںاور اگر کوئی خاتون نوکری پیشہ ہو تو دوسری خواتین اسے جینے نہیں دیتیں۔اُس سے حسد کرنے لگتی ہیں۔ دراصل کسی سے نفرت کرنا اور حسد کی آگ میں جلنا خود آپ کی اپنی ذات کے لیے نقصان دہ ہے۔

انسان خود اپنی ذات کو تلاش کریں، اپنی صلاحیتوں قابلیتوں کے بل پر آگے بڑھیں دوسروں کی جن باتوں سے آپ حسد کرتی ہیں اگر آپ غور کریں تو وہ اس کی مثبت باتیں ہیں جو آپ میں نہیں ، ایسے میں اسے اور خود کو نقصان پہنچانے کے بجائے اپنی اصلاح کریں۔

آپ کی ذات میں جو کمی ہے اسے دور کریں۔ اگر کسی خاتون کا اخلاق اچھا ہے اور لوگ اس کی اسی خوبی کی وجہ سے اس سے محبت کرتے ہیں  تو آپ بھی اپنے اخلاق میں بہتری لاسکتی ہیں۔ مثبت کی طرف سفر کا آغاز آپ کے اپنے عمل پر منحصر ہے۔ انسان جب چاہیے اور جہاںسے چاہیے منفی سوچ کو رد کرکے مثبت سفر کا آغاز کرسکتا ہے۔ خواتین کو چاہیے کہ خود میں مثبت اوصاف کا جائزہ لیں، ایسی باتوں کی طرف توجہ دیں جن سے دوسرے آپ کے قریب رہنا پسند کرتے ہوں، تاکہ خود بہتر سمت کا تعین کرسکیں۔

مائوں کو چاہیے کہ بیٹیوں کی اس حوالے سے خصوصی تربیت پر توجہ دیں، کیوں کہ اس مادیت پرستی کے دور میں ہماری بچیاں خودسے برتر کلاس کو دیکھ کراُن سے حسد کرتی ہیں اور کبھی خود کو مجبور محسوس کرتی ہیں لہٰذا مائوں کو چاہیے کہ اس حوالے سے اپنی بیٹیوں کے اوصاف کو سمجھیں۔ ان کی حوصلہ افزائی کریں، کیوںکہ آج کی بیٹی کل کی ماں ہے۔ اگر اس ماں کا معاشرتی شعور پختہ ہوگا تو یہ اصلاح نسواں اور ترقی نسواں میں کردار ادا کرسکے گی۔ اگر آج خواتین اپنی بیٹیوں میں ان اوصاف کو اُجاگر کرتی ہیں تو یقیناً اگلی نسل حسد کے جنگل میں نہیں بھٹکے گی۔

خواتین کو چاہیے کہ اپنی آئندہ نسل کو محبت و انسانیت کا درس دیں اپنی اولاد کی بہتر تربیت سے ثابت کریں کہ منفی رجحان ان کی اپنی ذات کے لیے نقصان دہ ہے اور اصل فائدہ مثبت سوچ ،مثبت رویّوںمیں ہے جو دشوار ضرور ہے، مگر ناممکن نہیں۔ ہر دور میں خیر و شر کی قوتیں متصادم رہی ہیں اور رہیں گی ،مگر اب وقت ہے کہ عورت اپنا کردار ادا کرے اور معاشرتی بہتری کے لیے جدو جہد کریںکہ بہتر معاشرے کی تعمیر وہی کرسکتی ہے کوئی دوسرا نہیں۔

تازہ ترین