یہ کہانی نئی نہیں بلکہ بہت پرانی ہے۔ یہ 1997کی بات ہے۔ نواز شریف دوسری مرتبہ وزیراعظم بننے کے بعد آصف علی زرداری پر نت نئے مقدمات بنوا رہے تھے۔ ایک دن نواز شریف کے بنائے گئے احتساب بیورو کے سربراہ سینیٹر سیف الرحمان اس وقت کے وزیرِ داخلہ چوہدری شجاعت حسین کے پاس آئے اور بتایا کہ وہ آصف علی زرداری کے خلاف منشیات کی اسمگلنگ کا ایک مقدمہ بنارہے ہیں اور اس سلسلے میں انہیں اینٹی نارکوٹکس فورس کے تعاون کی ضرورت تھی۔ چوہدری شجاعت حسین کو سینیٹر سیف الرحمان کی طرف سے سنائی گئی کہانی بڑی کمزور لگی اور انہوں نے اے این ایف پر دبائو ڈالنے سے گریز کیا کیونکہ یہ محکمہ ان کے پاس تھا۔ ایک دن سینیٹر سیف الرحمان نے بہت دبائو ڈالا تو چوہدری شجاعت حسین نے اے این ایف کے ڈی جی میجر جنرل مشتاق حسین کو اپنے دفتر بلایا اور پوچھا کہ کیا آپ نے آصف علی زرداری کے خلاف الزامات کا جائزہ لیا ہے؟ ڈی جی نے جواب میں کہا کہ سینیٹر سیف الرحمان کی طرف سے لگائے گئے الزامات جھوٹے ہیں اور جس شخص کو گواہ بنایا گیا ہے وہ بذات خود ایک بدنام شخص ہے۔ یہ سننے کے بعد چودھری شجاعت حسین نے اے این ایف کے ڈی جی سے کہا کہ آپ اپنی دیانت دارانہ رائے لکھ کر مجھے بھیج دیں۔ اگلے دن ڈی جی صاحب اپنی رائے لکھ کر لے آئے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اے این ایف کی طرف سے آصف علی زرداری کے خلاف مقدمہ قائم کرنا انتہائی نامناسب ہوگا کیونکہ مقدمے کو سچا ثابت کرنا بہت مشکل ہوگا اور اے این ایف کی ساکھ مجروح ہوسکتی ہے۔ وزیر داخلہ چوہدری شجاعت حسین نے اس سمری پر دستخط کرکے فائل واپس اے این ایف کو بھجوا دی اور پھر آصف علی زرداری کے وکلاء نے یہی سمری عدالت میں پیش کرکے یہ مقدمہ ختم کرا دیا۔
اسی زمانے میں ایک انگریزی اخبار فرنٹیئر پوسٹ کے ایڈیٹر رحمت شاہ آفریدی اور نواز شریف حکومت میں کشیدگی پیدا ہوگئی۔ اپریل 1999کی ایک رات لاہور کے گورنر ہائوس کے قریب اے این ایف نے رحمت شاہ آفریدی کو روکا اور تلاشی لینے کے بعد ان کی گاڑی میں سے 20کلو حشیش برآمد کرنے کا دعویٰ کرلیا۔ کچھ عرصے کے بعد نواز شریف کی حکومت ختم ہوگئی لیکن رحمت شاہ آفریدی نو سال جیل میں رہے۔ 2008میں پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی تو آصف علی زرداری نے رحمت شاہ آفریدی کو رہائی دلوائی۔ اے این ایف نے اسی قسم کے سیاسی مقدمے مخدوم شہاب الدین، حنیف عباسی اور دیگر سیاستدانوں کے خلاف بنوائے۔ حنیف عباسی کو عمر قید کی سزا بھی دلوائی لیکن ہائیکورٹ نے حنیف عباسی کو رہا کردیا۔ اب ایسا ہی مقدمہ پنجاب کے سابق وزیرِ قانون رانا ثناء اللہ پر بنایا گیا ہے۔ وہی پرانی کہانی ہے، کچھ کردار اور واقعات مختلف ہیں۔ رانا ثناء اللہ پچھلے کئی دنوں سے ٹی وی پروگراموں اور نجی محفلوں میں بار بار یہ اعلان کررہے تھے کہ انہیں کسی نہ کسی مقدمے میں گرفتار کرلیا جائے گا۔ محکمہ اینٹی کرپشن پنجاب اور نیب ان کے خلاف کوئی مقدمہ نہ بنا سکا تو اے این ایف میدان میں آگئی۔ گرفتاری پہلے ہوئی الزامات بعد میں تلاش کئے گئے اور جو ایف آئی آر درج کی گئی اس میں بیان کی گئی کہانی انتہائی مضحکہ خیز ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر چوہدری شجاعت حسین آج وزیرِ داخلہ ہوتے تو اے این ایف سمیت پوری حکومت کو بدنامی سے بچا لیتے کیونکہ یہ ایف آئی آر رانا ثناء اللہ کے خلاف نہیں بلکہ حکومت کے خلاف جائے گی۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ رانا ثناء اللہ کو پہلے سے کیسے پتہ تھا کہ انہیں گرفتار کرلیا جائے گا؟ وہ پرانے سیاسی کارکن ہیں۔ جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں وہ پاکستان پیپلز پارٹی کے جیالے تھے۔ 1990کے الیکشن میں وہ پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر پنجاب اسمبلی کے رکن بنے اور مسلم لیگ(ن) کو بہت ٹف ٹائم دیا کرتے تھے۔ 1993میں نواز شریف کی حکومت ختم ہوئی تو رانا ثناء اللہ مسلم لیگ(ن) میں آگئے۔ 1997میں وہ مسلم لیگ(ن) کے ٹکٹ پر رکن پنجاب اسمبلی بنے۔ اکتوبر 1999میں مسلم لیگ(ن) کی حکومت ختم ہوئی تو پارٹی کے اکثر رہنما گرفتار ہوگئے۔ ایک دن رانا ثناء اللہ پارٹی قیادت کو تلاش کرتے ہوئے لاہور پہنچے اور سردار ذوالفقار کھوسہ پر زور دیا کہ ہمیں مشرف حکومت کے خلاف تحریک چلانا چاہئے۔ اگلے ہی دن وہ گرفتار ہوگئے اور انہیں ایک تھانے میں الٹا لٹکا کر بہت مارا گیا۔ پھر ان پر الزام لگایا گیا کہ انہوں نے فوج کے خلاف نفرت انگیز پمفلٹ لکھا ہے اور غداری کا مقدمہ بنا کر انہیں عدالت میں پیش کیا گیا لیکن عدالت نے تین ماہ کے بعد انہیں رہا کردیا۔ 2002کے الیکشن میں وہ تیسری مرتبہ ایم پی اے بن گئے اور پنجاب اسمبلی میں مشرف حکومت پر تنقید کرنے لگے۔ 8مارچ 2003کو انہیں فیصل آباد میں کچھ نقاب پوشوں نے اغواء کیا اوران پر لوہے کی راڈیں برسائی گئیں۔ پھر جسم کے مختلف حصوں پر بلیڈوں سے زخم لگا کر ان پر پٹرول چھڑکا گیا۔ اس دوران ایک اغواء کار کی نقاب سرک گئی اور رانا صاحب نے اسے پہچان لیا، پھر ان ایک درجن مسلح افراد نے رانا ثناء اللہ کے ہاتھ پائوں باندھ کر ان کی مونچھیں، بھنویں اور سر کے بال مونڈھ دئیے اور فیصل آباد سے لاہور موٹر وے کے راستے پر پھینک دیا۔ چند دن کے بعد وہ پنجاب اسمبلی میں ایک دفعہ پھر پرویز مشرف کو للکار رہے تھے۔ ان کے موقف میں پہلے سے زیادہ سختی پیدا ہوگئی۔ 2010میں اسلام آباد میں ’’دی نیوز‘‘ کے عمر چیمہ کو اغواء کرکے ان کے ساتھ وہی کیا گیا جو فیصل آباد میں رانا ثناء اللہ کے ساتھ ہوا تھا۔ رانا صاحب پنجاب کے وزیرِ قانون تھے۔ انہیں پتہ چل گیا کہ جس نقاب پوش کو انہوں نے فیصل آباد میں پہچانا تھا، عمر چیمہ پر تشدد اسی کی نگرانی میں ہوا تھا۔ رانا صاحب اس تشدد کی انکوائری کرنے والے جوڈیشل کمیشن کے سامنے اسلام آباد میں پیش ہوگئے اور ملزم کی نشاندہی کردی لیکن اس کمیشن کی رپورٹ آج تک منظر عام پر نہیں آئی۔
اسلام آباد میں آل پارٹیز کانفرنس میں انہوں نے اپنی پارٹی کی نمائندگی کی تھی اور 25جولائی کے یوم سیاہ کے لئے وہ ایک جلسے کی تیاری کررہے تھے۔ آپ ان سے سیاسی اختلاف کر سکتے ہیں لیکن یہ تسلیم کرنا مشکل ہے کہ وہ اپنی گاڑی میں منشیات لے کر گھومیں گے۔ آپ انہیں اے این ایف کے ذریعہ سزا بھی دلوادیں لیکن عام لوگوں کو اس مقدمے کی حقیقت کا پتہ ہے۔ ذرا سوچیے! پانچ سال بعد، دس سال بعد نجانے کیا حالات ہوں گے لیکن رانا ثناء اللہ کے خلاف یہ مقدمہ قائم کرنے والوں کا انجام ان سے مختلف نہ ہوگا جنہوں نے آصف علی زرداری اور رحمت شاہ آفریدی پر ایسے ہی مقدمے بنائے تھے۔ آج عمران خان کی حکومت سیاسی مخالفین کے ساتھ وہی کچھ کر رہی ہے جو نواز شریف اور مشرف کی حکومت نے کیا تھا۔ دونوں کا انجام آپ کے سامنے ہے، رانا ثناء اللہ کے خلاف جھوٹا مقدمہ ہمیں موجودہ حکمرانوں کے انجام کا پتا دے رہا ہے۔ رانا ثناء اللہ یہ مقدمہ جیت چکے ہیں۔