پشاور میٹرو پروجیکٹ کے مالیاتی معاون ایشیائی ترقیاتی بینک کی ایک تازہ رپورٹ میں منصوبے میں سنگین نقائص کی نشان دہی سے وہ اندیشے درست ثابت ہوگئے ہیں جن کا اظہار متعلقہ حلقے شروع سے کرتے چلے آرہے ہیں۔گزشتہ روز منظر عام پر آنے والی اس رپورٹ میں22اہم خامیوں کی نشان دہی کے ساتھ یہ حتمی نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ خیبرپختونخوا حکومت نے پروجیکٹ کے ڈیزائن میں ناقص تبدیلیاں کرتے ہوئے گھٹیا معیار کا میٹریل استعمال کیا جو جانی ومالی نقصانات کا باعث بن سکتا ہے۔ بینک نے مالی وسائل کی مزید فراہمی کو نقائص دورکئے جانے سے مشروط کردیا ہے۔واضح رہے کہ اس پروجیکٹ کو پچھلے سال جون میں مکمل ہوجانا تھا لیکن ناقص کارکردگی کی وجہ سے غیر معمولی تاخیر کے علاوہ اس کے بجٹ میں بھی چالیس فی صد اضافہ کرنا پڑا پھر بھی منصوبے کی مطلوبہ معیارات کے مطابق تکمیل نہیں کی جاسکی۔ پشاور ہائی کورٹ نے پچھلے سال جولائی میںاس سلسلے میں دائر کئے گئے ایک مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے منصوبے کی تعمیر میں نااہلی اور دھاندلی کی واضح نشاندہی کے ساتھ قومی احتساب بیورو کو اس کی تحقیقات کا حکم دیا تھا۔ منصوبے میں نقائص کی اولین ذمہ داری ظاہر ہے کہ خیبرپختونخوا کی سابقہ اور موجودہ حکومت کے متعلقہ حکام پر عائد ہوتی ہے، لیکن حیرت انگیز طور پر نیب کی جانب سے ان کے خلاف ایک سال گزرجانے کے باوجود کوئی مؤثر کارروائی منظر عام پر نہیں آسکی ۔ تاہم اب اس ضمن میں مزید تاخیر کا کوئی جواز ہے نہ گنجائش کیونکہ منصوبے کے مالی معاون بین الاقوامی ادارے نے خود اس میں پائے جانے والے سنگین نقائص کی توثیق اور ان کے ذمہ داروں کی نشاندہی کردی ہے لہٰذا کم از کم اب اس ضمن میں فوری اور نتیجہ خیز اقدامات میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جانی چاہئے اور وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو بھی تحقیقات کے عمل میں مکمل تعاون کرکے ثابت کرنا چاہئے کہ ملک میں جاری احتسابی عمل متعصبانہ اور یکطرفہ نہیںبلکہ پوری طرح بے لاگ اور غیرجانبدارانہ ہے۔