دنیا اختتام کے دہانے پر ہے اور یہ قیامت کب وارد ہوگی یہ کسی کو معلوم نہیں مگر ایک قیامت سے تو ہم پہلے ہی دوچار ہیں اور وہ ہے معاشرتی اقدار کا انحطاط، کہا جاتا ہے کہ انسان ازل سے ہی ترقی کی جانب گامزن ہے، انسان کی ابتدا پتھروں کے دور سے ہوئی پھر دیکھتے ہی دیکھتے انسان نے ان بلندیوں کو چھو لیا جس کو شاید ذہن کبھی ماننے کو بھی تیار نہ تھا۔ انسان نے اپنی آسانی کے لیے ہر وہ ترقی حاصل کر لی ہے اور مسلسل کر رہا ہے جس کی ضرورت اس نے محسوس کی۔
انسان کے ارتقاء پر نظر دوڑائی جائے تو اس کے پاس زبان ہوتے ہوئے بھی وہ بولنے کے قابل نہیں تھا، لوگ اشاروں میں ایک دوسرے سے مخاطب ہوتے تھے، پھر علامتوں کے ذریعے اس عمل کو آگے بڑھایا گیا اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ انسان نے بولنا اور لکھنا سیکھ لیا اور آج دنیا میں ہزاروں زبانیں بولی اور لکھی جاتی ہیں مگر تاحال اس بات کی کوئی واضح شہادت نہیں ملی کہ وہ پہلی زبان کونسی ہے یا تھی جس سے بولنے کے عمل کا آغاز ہوا۔ قدیم مصری، سنسکرت اور بابل میں بولی جانے والی بابلی زبان سب سے قدیم زبانیں تصور کی جاتی ہیں۔
انسان نے اپنی ترقی کے اس عمل کو مزید آگے بڑھایا اور اس کو وسیع تر کرتا گیا، اس نے اخبار ایجاد کیا، جس کے ذریعے معلومات کو دوسرے تک پھیلایا، اپنی باتیں کم وقت میں دوسرے لوگوں تک پہنچائیں اور ساتھ ساتھ حالات حاضرہ سے باخبر ہونے لگا۔ وقت کے ساتھ انسان نے اس عمل کو مزید جدید کیا اور ریڈیو اور ٹی وی ایجاد کیا، اخبار کے ذریعے پھیلنے والی معلومات تاخیر سے پہنچتی تھیں، ریڈیو اور ٹی وی نے اس عمل کو مزید تیز کردیا۔ اگر دیکھا جائے تو اخبار، ریڈیو اور ٹی وی کے ذریعے سے منتشر ہونے والی خبروں یا معلومات میں ایک وقت میں بہت سے لوگ شامل ہوتے ہیں اور اس میں چیک اور بیلنس کو سنجیدگی سے دیکھا جاتا ہے۔ ابلاغ عامہ کے ان ذرائع کے تحت معلومات کا پھیلاؤ تصدیق شدہ ہوتا ہے اور غلطی کی گنجائش نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ اگر بالفرض کوئی غلطی ہو بھی جائے تو حکومت پاکستان کا بنایا ہوا ادارہ پیمرا اس کا نوٹس لیتا ہے اور اس عمل میں جو بھی ملوث ہوتا ہے اس کے خلاف قانونی کارروائی کی جاتی ہے۔
وقت کو مدنظر رکھتے ہوئے انسان آگے بڑھنے لگا اور تصدیق شدہ ذرائع ابلاغ سے دور ہوتا گیا۔ 90ء کی دہائی میں لوگ اخبار کو ایک مستند ذریعۂ معلومات سمجھتے تھے پھر وہ ٹی وی کی طرف آئے۔ گلوبل ولیج کے تصور نے نئی نسل کو ان روایتی چیزوں (اخبار، ریڈیو اور ٹی وی) سے دور کرتے ہوئے ایک نئی جہت سے متعارف کروایا۔
انٹرنیٹ کی آمد کے بعد انسان اپنے معاشرے کے ساتھ ساتھ اس معاشرے کا بھی حصہ بن گیا جہاں اس کی پہنچ نہیں تھی۔ انٹرنیٹ نے صارفین و قارئین کو نیا ذرائع ابلاغ فراہم کیا جس کو اخبار، ریڈیو اور ٹی وی پر سبقت حاصل ہو گئی۔ الیکٹرونک، پرنٹ اور بروڈکاسٹ میڈیا کے بعد سوشل میڈیا نے نئی نسل میں نمایاں جگہ بنالی ہے۔
سوشل میڈیا نے نئی نسل کے ساتھ ساتھ ہر طبقے کے افراد چاہے مرد ہوں یا عورت، بزرگ ہوں یا بچے سب کو اپنا عادی بنا لیا ہے۔ اخبار، ریڈیو اور ٹی وی کے نظام کو چلانے کے لیے ایک ادارے اور بہت سارے لوگوں کی ضرورت پڑتی ہے مگر سوشل میڈیا اس کے برعکس ہے، اخبار، ریڈیو اور ٹی وی کی معلومات کو فراہم کرتے وقت نظم و ضبط، ملکی مفادات، معاشرے کی بقا، انسانی تشخص اور ادارے کی پالیسی کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔ اس میں ان چیزوں کا بھی خیال رکھا جاتا ہے کہ آیا کونسی خبر نشر یا شائع کرنی چاہیے۔ مگر سوشل میڈیا ان پالیسیوں کی قیود سے مکمل آزاد ہے۔
سوشل میڈیا کے آنے سے قبل ای میل کو فوقیت حاصل تھی مگر اب کہا جاتا ہے کہ سوشل میڈیا لوگوں میں ایسے پایا جاتا ہے جیسے انسان میں آکسیجن، کیونکہ ٹی وی اور ریڈیو میں قارئین کے لیے فیڈ بیک کا کوئی آپشن موجود نہیں ہے ہاں البتہ اخبارات میں ادارتی صحفہ شامل ہوتا ہے، جبکہ اس کے برعکس سوشل میڈیا نے قارئین کو بھرپور اظہار کا موقع فراہم کیا ہے جس کی وجہ سے لوگ اس کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں۔ کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ سوشل میڈیا کے صارفین کی جانب سے اظہار آزادی کا غلط استعمال کیا جارہا ہے۔ آج کل دیکھنے میں آ رہا ہے کہ سوشل میڈیا پر لوگوں کا ایک دوسرے کو تنگ کرنا، نازیبا تصاویر اور ویڈیوز شیئر کرنا، بلاجواز نکتہ چینی کرنا، دوسروں کے جذبات سے کھیلنا اور سب سے اہم چیز غلط اور غیر تصدیق شدہ معلومات کی تشہیر کرنا روز کا معمول بن چکا ہے۔
ہمارے معاشرے میں کوئی بھی معلومات سوشل میڈیا پر شیئر ہو گئی تو لوگ اس پر آنکھیں بند کر کے یقین کر لیتے ہیں۔ سمجھ سے بالاتر ہے کہ لوگوں کا سوشل میڈیا پر اندھا اعتبار کیوں ہے؟ ان تمام حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے ہماری حکومت غلط معلومات پھیلانے کے حوالے سے قانون سازی کر رہی ہے۔ وفاقی حکومت کی جانب سے سوشل میڈیا پر جھوٹی خبروں اور کردار کشی کی روک تھام کے لیے پیمرا ایکٹ میں ترمیم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جو کہ ایک خوش آئند عمل ہے۔ اس ضمن میں معاون خصوصی اطلاعات و نشریات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کا کہنا ہے کہ پیمرا ایکٹ پر نظرثانی کی ضرورت ہے، پیمرا قانون میں سوشل میڈیا کو مانیٹر کرنے کی کوئی گائیڈ لائن نہیں، جھوٹی خبریں حکومت، ریاست اور کسی بھی سیاسی جماعت کے لیے بہتر نہیں، سوشل میڈیا پر ان گائیڈڈ میزائلوں کے ذریعے لوگوں کی نجی زندگیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ سوشل میڈیا کے مقابلے میں الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا کا استعمال بہت کم ہے، سوشل میڈیا کی بدولت آج ہمارے سامنے ایسے حقائق بھی آ رہے ہیں جو پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا پر شائع یا نشر نہیں ہوتے یا ان حقائق کو جان بوجھ کر منظر عام پر آنے سے روک دیا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا خبر پہنچانے میں دوسرے میڈیم سے تیز ترین ہے لیکن اس کے لیے لوگوں کا باشعور ہونا بہت ضروری ہے۔ سوشل میڈیا استعمال کرنے والے کو چاہیے کہ تحقیق کیے بغیر کوئی بھی بات یا خبر شیئر نہ کریں، شیئر کرنے سے پہلے کم از کم ایک مرتبہ تحقیق ضرور کرلینی چاہیے۔ کیونکہ عصر حاضر میں عالمی معاملات اور مسائل ایک دوسرے کے ساتھ جس طرح سے منسلک و پیوستہ ہیں انہیں صحیح طور پر سمجھنے کے لیے سوجھ بوجھ اور بصیرت کی ضرورت ہے۔