• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دمہ یا استھما ایک دائمی مرض ہے، جو تاعمر انسان کو اپنی گرفت میں جکڑ کر رکھتا ہے۔ دنیا بھر میں33کروڑ سے زائد افراد اس مرض کا شکار ہیں جبکہ یہ دائمی مرض ہر سال تقریباً ڈھائی لاکھ افراد کی جانیں لے لیتا ہے۔

دمہ کیا ہے؟

سانس کی نالیوں میں خرابی یا پھیپھڑوں کی نالیاں باریک ہونے کے سبب سانس لینے میں تکلیف کے مرض کو دمہ یا استھما کہا جاتا ہے۔ دمہ کے مرض کی کئی علامات ہیں، جیسے سانس لیتے وقت سیٹی کی آواز آنا، کھانسی، سانس پھولنا، سینے کا درد، نیند میں بے چینی یا پریشانی ہونا اور تھکان وغیرہ۔ اندرونی وبیرونی الرجی، دھول مٹی، موسم کی تبدیلی اورسانس کی نالیوں میں انفیکشن کے سبب پیدا ہونے والی بیماری کو ’استھما‘اور بیڑی سگریٹ کے استعمال اورہوائی آلودگی سے پیدا ہونے والی بیماری کو’کِرونِک آبسٹرکٹیو پلمونری ڈیزیز(COPD)کہا جاتا ہے۔

تشخیص

جسمانی جانچ اور میڈیکل ٹیسٹ کے ذریعے دمہ کی تشخیص کی جاتی ہے۔ میڈیکل ٹیسٹ میں خون کی جانچ، ایکسرے، خون میں آکسیجن کے مقدار کی جانچ، پھیپھڑوں کی حرکت کی جانچ، اسپائرومیٹری اور الرجی ٹیسٹ کے ذریعے دمہ کی تصدیق کی جاسکتی ہے۔

علاج

دمہ کا کوئی خصوصی علاج تو دستیاب نہیں، تاہم احتیاطی تدابیر اپنا کر اس مرض کو بڑھنے سے روکا جاسکتا ہے۔ دمہ کی روک تھا م دو طریقوں سے کی جاسکتی ہے۔ایک تدبیر اور دوسرا علاج۔ تدبیر یہ ہے کہ مریض کو اپنے روزمرہ معمولات تبدیل کرنا ہوں گے۔ اگر وہ کسی بھی قسم کے نشے کا عادی ہوتو فوراً اسے چھوڑ دے، بیڑی سگریٹ، الکوحل، تمباکو اور نشہ آور ادویات کے استعمال سے پرہیز کرے جبکہ دھول مٹی اورہوائی آلودگی سے خود کو بچائے۔ اس کے علاوہ اگر موسم کی تبدیلی سے بھی نقصان ہوتا ہو تو اس کے لیے بھی حفاظتی اقدامات اختیار کرے۔

دمہ کا سب سے مفید علاج انہیلر کا استعمال ہے، جس میں اس مرض کو قابو میں رکھنے کے لیے مختلف ادویات شامل کی جاتی ہیں۔ ان دوائوں کے ذریعے دمہ کو مزید بڑھنے سے روکا جا سکتا ہے اور مریض کی تکلیف کم ہوتی ہے۔ ایک عام مغالطہ یہ ہے کہ انہیلرز کا مستقل استعمال جسم کے لیے نقصان دہ ہے، یہ نشہ آور ہیں اور جسم کو اپنا عادی بنا لیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دمہ کے مریض کے لیے انہیلرز نہایت مفید ہوتے ہیں، یہ جسم کو اپنا عادی تو بنا لیتے ہیں، تاہم یہ عادت ایسے ہی فائدہ مند ہے جیسے روزانہ کھانا کھانا وغیرہ۔ انہیلرز کا استعمال چھوڑنے والے افراد کا مرض بہت تیزی سے آخری اسٹیج پر پہنچ جاتا ہے جوکہ جان لیوا بھی ثابت ہوسکتا ہے۔

بچوں میں دمہ

اگر آپ چھوٹے بچوں میں دودھ پینے کے دوران بے چینی محسوس کریں اور وہ تکلیف میں دکھائی دیں تو یہ دمہ کی علامت ہوسکتی ہے، لہٰذا انہیں فوری طور پر ڈاکٹر کو دِکھانے کی ضرورت ہے۔

یونیورسٹی آف کنساس کی تحقیق کے مطابق، دوران حمل دوسری سہ ماہی میں وٹامن ڈی کا حصول بچے میں دمہ کے خطرے کو کافی حد تک کم کر سکتا ہے۔ اگر حاملہ خواتین دن میں 10منٹ سورج کی روشنی میں گزاریں تو اس سے بچے کے سانس کی بیماریوں میں مبتلا ہونے کے خطرات کم ہو جاتے ہیں۔

برطانیہ میں دمے کے مریضوں کے لیے کام کرنے والے خیراتی ادارے ’استھما یو کے‘ کا کہنا ہے کہ اسٹیرائڈز والی ادویات چھوٹے بچوں میں دمے کی علامات پر قابو پانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

دوسری جانب محققین کا کہنا ہے کہ بچوں کو اسٹیرائڈز والی ادویات دینے میں احتیاط سے کام لینا چاہیے اور ہر ممکن حد تک کوشش کرنی چاہیے کہ انھیں یہ ادویات نہ دی جائیں۔

یورپ میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق، دمے کے دو سال سے کم عمر مریضوں کو اگر علاج کے لیے اسٹیرائڈز والی ادویات دی جائیں تو ان کا قد چھوٹا رہنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ فن لینڈ میں 12 ہزار بچوں پر کی جانے والی تحقیق سے معلوم ہوا کہ جن بچوں کو ایک لمبے عرصے تک اسٹیرائڈز والی ادویات دی جاتی ہیں، ان میں قد چھوٹا رہ جانے کا زیادہ امکان نظر آتا ہے۔

اس سے قبل بھی ایک تحقیق سے ایسے اشارے ملے تھے کہ اسٹیرائڈز والی ادویات سے بچوں کی نشوونما پر منفی اثر پڑتا ہے۔ تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اگر مستقل بنیادوں پر ان ادویات کا استعمال کیا جائے تو بڑے ہوکر بچوں کا قد تین سینٹی میٹر تک چھوٹا رہ سکتا ہے۔

محققین کا کہنا ہے کہ ’یہ انتہائی اہم ہے کہ ڈاکٹرز دمے کے لیے چھوٹے بچوں کو اسٹیرائڈز والی ادویات دینے سے قبل اچھی طرح سوچ لیں کہ یہ ان کے لیے ضروری ہے کہ نہیں‘۔

محققین کے مطابق، شیرخوار بچوں کو دمے سے محفوظ رکھنے کی بہترین دوا ماں کا دودھ ہے۔ سوئٹزرلینڈ میں 2016ء میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق، شیرخوار بچوں کو ایک سال تک ماں کا دودھ پلانے سے انھیں استھما کے حملے سے بچایا جاسکتا ہے۔

تازہ ترین