• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دریائے چناب کے کنارے پر فرنیچر اور گرین برفی کی پہچان والے ضلع چنیوٹ میں سرکاری بوائز اسکول294،سرکاری گرلز اسکول403، بوائز کالج5، گرلز کالج5، ایک یونیورسٹی، چرچ2،سرکاری افسران 1599، ملازمین 9098،مساجد و مدارس650، مزارات4، زمین کا رقبہ2643کلو میٹر، پٹوواری123، 2قومی اسمبلی کے حلقے اور چار صوبائی اسمبلی کے، 39یونین کونسل، اسپتال42، ڈاکٹر 173۔ قادیانیوں کا مرکز ربوہ بھی یہاں واقع ہے اس اعتبار سے چنیوٹ حساس ترین ضلع ہے۔

چنیوٹ ضلع سرگودھا اور فیصل آباد کے درمیان واقع ہے۔ چنیوٹ کا ہمسایہ شہر چناب نگر ہے جو دریائے چناب کے دوسری جانب واقع ہے۔ یوں تو چنیوٹ میں کئی مذہبی، ثقافتی، اور تاریخی مقامات ہیں، حضرت بوعلیؒ قلندر کی چلہ گاہ بھی یہاں ہے۔ ضلع کے علاقہ رجوعہ میں سونے، تانبے اور لوہے کے ذخائر 1965میں دریافت ہوئے تھے جنہیں (ن)لیگ نے اپنی دریافت قرار دینے کی کوشش کی، یہ ذخائر اٹھائیس مربع کلومیٹر رقبے پر محیط ہیں لیکن اس منصوبہ کو 1965میں بھی اس لئے بند کر دیا گیا تھا کہ یہ ذخائر بہت نیچے گہرے پانی میں واقع ہیں اور اس پر لاگت بہت زیادہ آتی تھی۔ چنیوٹ کے پہاڑ نوادرات اور قدیم تہذیبوں کے راز سینے میں سموئے کھڑے نظر آتے ہیں۔ 2005میں ان آثار کو بچانے کے لئے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا، جسٹس شیخ عظمت سعید نے پہاڑوں کو نقصان پہنچانے کے عمل پر اسٹے آرڈر جاری کیا۔ اس تاریخی شہر کے بنیادی مسائل ویسے ہی ہیں جیسے باقی شہروں کے ہیں کیونکہ یہاں کا بجٹ بھی باقی شہروں کی طرح میٹرو بس اور اورنج ٹرین جیسے لوگوں کو بے روزگار کرنے والے منصوبوں پر لگا دیا گیا تھا۔ اسی وجہ سے آج (ن)لیگ کو یہاں بھی شدید مسائل کا سامنا ہے۔ تحریک پیر آف سیال اس کی زندہ مثال ہے۔

چنیوٹ میں سکندر اعظم کا بیڑا دریائے چناب کے بھنور میں پھنسا تھا، اس جنگی مہم میں استعمال ہونے والے مقام کو ’’درہ سکندر‘‘ کہا جاتا ہے۔ چنیوٹ میں 2005میں سکندر اعظم کے اُس گھوڑے کا مجسمہ بارود سے اڑا دیا گیا جو گھوڑا س مقام پر’’مر‘‘گیا تھا۔ بادشاہی مسجد چنیوٹ، بادشاہی مسجد لاہور کی طرز پر پانچویں مغل بادشاہ شاہ جہاں کے وزیر سعداللہ خان نے سترہویں صدی عیسوی میں تعمیر کروائی، مسجد مکمل قیمتی پتھر کی بنی ہے۔ لکڑی کے دروازے بغیر ٹوٹ پھوٹ کے اپنی جگہ قائم ہیں۔ مسجد کے سامنے لاچار اور بے بس ’’شاہی باغ‘‘ محکمہ آثار قدیمہ اور اوقاف کا منتظر ہے۔ محلہ مسکین پورہ میں شیش محل ساڑھے دس کنال پر پھیلا ہے۔ حضرت احمد ماہی شیخ خاندان سے تعلق رکھتے تھے وہ 1914 میں پیدا اور 1987میں فوت ہوئے۔ احمد ماہی نے ذاتی رقبہ پر دربار کی تعمیر 1925میں شروع کی اور زندگی میں ہی مکمل کر لیا اور ساتھ کہا کہ تیسی کانڈی چلتی رہے گی اور چل رہی ہے یہ وہ قابلِ افسوس مزار ہے جہاں نہ مسجد ہے نہ مدرسہ، اس درگاہ کو دیکھ کر دل کرتا ہے حکومت کو ایک حد سے زیادہ مزارات پر خرچ کرنے پر پابندی لگا دینا چاہئے۔ مدارس کے حوالے سے اس ضلع میں مولانا الیاس چینوٹی کا کام قابلِ رشک ہے۔ ضلع میں جگہ جگہ ان کے نام کے بورڈز لگے نظر آتے ہیں۔ تین منزلہ ’’چنیوٹ مندر‘‘ 1930میں تعمیر کیا گیا۔ بھارتی و پاکستانی ہندو یہاں آتے ہیں۔

ضلع کی ایک بڑی شان یہ بھی ہے 1931میں مولانا محمد ذاکر رحمت اللہ نے چنیوٹ سے 25کلومیٹر دور 25ایکڑ پر مشتمل جامعہ محمدی شریف کی بنیاد رکھی، مولانا ذاکر 1922میں تحریک آزادی ہند میں گرفتار ہوئے اور ایک سال دس ماہ قید رہے، 1951میں سکھ راجہ کشمیر کے خلاف تحریک شروع کی اور تین ماہ فیروز پور جیل قید رہے، مسلم لیگ کے سرکردہ رہنما تھے، 1953میں تحریک ختم نبوت میں گرفتار ہوئے۔ جامعہ سے متصل کئی ایکڑ پر ہائی اسکول جو پہلے پیر صاحب کے کنٹرول میں تھا، ذوالفقار علی بھٹو نے اس پر قبضہ کرایا اور اس کو سرکاری تحویل میں لے لیا۔ یہ وہی ایم این اے تھے جنہیں خواتین ووٹ کے ساتھ زیور اور مرد ووٹ کے ساتھ نوٹ بھی دیتے تھے۔ اس وقت مولانا محمد رحمت اللہ اور ان کے صاحبزادے اس ادارہ کو چلا رہے ہیں۔ یہاں 18ستمبر 1940کو پہلی تعلیمی کانفرنس منعقد ہوئی تھی، جس میں مولانا ظفر علی خاں نے ایک نظم پیش کی تھی، جس کا ایک شعر کچھ یوں ہے

ہاں اے محمدی کی ہنر خیز سرزمیں

برسی ہے جس پہ دیں کی گھٹا جھوم جھوم کر

یہاں میرے بھائی اور علم دوست سید امان انور قدوائی ڈی سی کی ذمہ داری انجام دے رہے ہیں۔ ان سے روحانی عقیدت و احترام کا تعلق ہے کیونکہ ان کے والد گرامی سید انور قدوائی کی میرے ساتھ محبت کا یہ عالم تھا کہ زندگی کے آخری روز اور وفات سے چند گھنٹے قبل مجھے جنگ کے نمبر سے کال کرتے ہیں ۔ یقین کریں اُس دن بھی عشقِ رسولﷺ میں ڈوبے قدوائی صاحب نے مجھے ایک حساس ایشو پر تسلی دی کہ ناموس رسالت ﷺ کے مسئلہ پر ہم نے کوئی سمجھوتہ نہ کبھی کیا ہے اور نہ کریں گے، اس کال کے چند گھنٹوں بعد مجھے علم ہوا کہ قدوائی صاحب وفات پا گئے ہیں لیکن مجھے یقین نہیں آرہا تھا۔ باوقار لباس پہنے، بڑی مونچھیں، منہ میں پان، بارعب دارز قد، درود و سلام کے گلہائے عقیدت پیش کرنے والے سید انور قدوائی رحمۃ اللہ وہ شخصیت تھے جنہوں نے زندگی کے آخری لمحات تک ہمارے ادارہ جنگ میں کام کیا اور آج کے بڑے کالم نگاروں کو کالم نگار بنایا، آج جمعہ ہر دکھ درد کی دوا بس درود مصطفیٰ ﷺ80ضرور پڑھ لینا۔

تازہ ترین